سکھوں یاتریوں کیساتھ آنیوالے 12 ہندوؤں کو واپس بھارت بھیج دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتری، بالخصوص بھارت سے، اپنے روحانی پیشوا بابا گرونانک دیو جی کے یوم پیدائش کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ یہ تقریبات مذہبی عقیدت اور بھائی چارے کی ایک علامت سمجھی جاتی ہیں، جن میں سکھ برادری اپنے مقدس رہنما کے مزار پر حاضری دے کر ان کی تعلیمات کو یاد کرتی ہے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے بھارتی سکھ یاتریوں کو خصوصی اجازت دی جاتی ہے تاکہ وہ ننکانہ صاحب اور دیگر مقدس مقامات پر جا سکیں۔ سکیورٹی کلیئرنس کے بعد ہی سکھ زائرین کو سرحد پار داخلے کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
امیگریشن حکام کے مطابق اس سال سکھ یاتریوں کے ہمراہ آنے والے 12 ہندو زائرین کو واپس بھارت بھیج دیا گیا ہے، کیونکہ ان کی جائے پیدائش پاکستان کے صوبہ سندھ میں تھی، مگر اب وہ بھارتی شہریت اختیار کر چکے ہیں۔ حکام نے واضح کیا کہ پاکستان میں داخلے کی اجازت صرف منظور شدہ سکھ یاتریوں کو ہی دی جاتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔