ترک خاتون کی داستانِ غزہ: ’زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
غزہ اپنی جدید تاریخ کے سب سے المناک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ترک خاتون، جنہوں نے 24 سال اس محصور خطے میں گزارے، وہاں کی زندگی، جنگوں، ناکہ بندیوں اور ایمان کی پختگی کو یاد کرتی ہیں۔
کیفسَر یلماز جارادہ 1999 میں شادی کے بعد غزہ منتقل ہوئیں اور 2 دہائیوں سے زائد عرصے تک وہیں مقیم رہنے کے بعد اپنے آپ کو فلسطینی ہی سمجھتی ہیں۔
’میں نے غزہ کے عوام کے ساتھ جنگیں، ناکہ بندیاں اور مشکلات جھیلیں، خود کو ان ہی میں سے ایک سمجھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں بھی غزہ کی ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: دو سالہ جنگ کے بعد ملبہ اٹھانے کا عمل شروع، 5 لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ لوٹ آئے
وہ 2023 کی گرمیوں میں علاج کے لیے ترکی آئیں، اور کچھ ہی دن بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
کیفسَر یلماز جارادہ نے بتایا کہ 2005 تک اسرائیلی آبادکار فلسطینی زمینوں پر قابض تھے اور غزہ میں ’نظر نہ آنے والے علاقوں‘ میں پرتعیش زندگی گزارتے تھے۔
ان کے پاس وسیع فارم، اسکول اور کارخانے تھے، جب کہ مقامی آبادی انتفاضہ اور شدید معاشی دباؤ میں زندگی گزار رہی تھی۔
ان کے مطابق غزہ کے عوام نے مزاحمت کرتے ہوئے قبضہ کرنے والوں کو اپنی زمین پر سکون سے رہنے نہیں دیا، اور آخرکار ایک بھی آبادکار وہاں باقی نہ رہا۔
’غزہ میں زندگی رک جاتی ہے، مگر تعلیم نہیں‘کیفسَر یلماز جارادہ کے مطابق تعلیم غزہ میں ہمیشہ اولین ترجیح رہی۔ ’’جنگ ہو یا امن، تعلیم کبھی نہیں رکتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اسکول کے بعد بچے عام طور پر مساجد کا رخ کرتے، جو سماجی مراکز کا کردار ادا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ سے باہر نکلنا بے حد مشکل تھا، طلبا اور مریضوں کو مہینوں پہلے نام درج کروانے اور اجازت کی فہرستوں کے انتظار میں رہنا پڑتا۔
غزہ کی زندگی بجلی اور پانی کی قلت سے جڑی ہوئی تھی، جہاں بجلی عام طور پر 4 سے 8 گھنٹے کے لیے آتی تھی اور کبھی کبھار بالکل نہیں۔
مزید پڑھیں: چین کا غزہ میں ’مستقل اور جامع‘ جنگ بندی پر زور، فلسطینیوں کے اپنے علاقے پر حق حکمرانی کی حمایت
’اگر رات کو بجلی آتی تو ہم اسی وقت کپڑے دھوتے، استری کرتے اور کھانا بناتے, 8 گھنٹے بجلی ملنا خوشی کی بات ہوتی تھی۔‘
پانی بھی 2 یا 3 دن بعد آتا، تو لوگ ٹینک بھر کر ذخیرہ کرتے۔ ان مشکلات کے باوجود طلبا نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔
’غزہ کے عوام کی شکرگزاری اور ثابت قدمی نے ہمیں قیمتی سبق دیا۔‘
’غزہ کے لوگ کبھی نہیں کہتے، ہم ہار گئے‘کیفسَر کے مطابق، غزہ کی مشکلات نے وہاں کے لوگوں کو ٹوٹنے کے بجائے مضبوط بنایا۔
’زندگی سخت تھی، مگر اس نے انہیں طاقتور بنا دیا، ان کا ایمان پختہ ہے، وہ جلد سنبھل جاتے ہیں اور کبھی نہیں کہتے کہ ہم ختم ہو گئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ مسجد پر حملوں نے غزہ کے عوام کو متحد کر دیا۔
مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر کے خاندان سمیت 91 فلسطینی شہید
’انہوں نے قربانیاں دیں، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جنگ کیوں شروع ہوئی، بلکہ سب نے اپنی طاقت پہچانی۔‘
جارادہ کہتی ہیں کہ 2 سال گزرنے کے باوجود غزہ شکست خوردہ نہیں۔ ’اسرائیل نہ اپنے تمام قیدی واپس لا سکا، نہ غزہ پر مکمل قبضہ، اس لیے غزہ ابھی بھی سر بلند ہے۔‘
’لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے‘8 اکتوبر 2023 کے بعد کے حالات یاد کرتے ہوئے جارادہ کہتی ہیں کہ بمباری اور ناکہ بندی کے دوران لوگ کنویں یا سمندری پانی پر زندہ رہے، حتیٰ کہ جنگلی پودے کھائے۔
’میرے بچے 2 ہفتے صرف پانی پر گزارہ کرتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے مرغیوں کا دانہ پیس کر روٹی بنائی۔‘
ان کے مطابق اسپتالوں پر حملوں سے صحت کا نظام تباہ ہو گیا، زخمیوں کو علاج نہ مل سکا، اور ہزاروں بے گھر خاندان خیموں یا ملبے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
’غزہ کے لوگ دوبارہ سنبھلنا جانتے ہیں‘کیفسَر یلماز جارادہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے معاشرے میں ’خود کو ازسرنو تعمیر کرنے کی فطری صلاحیت‘ موجود ہے۔
’جیسے ہی جنگ بندی ہوتی ہے، سب سے پہلے مساجد کی مرمت کی جاتی ہے، لوگ دوبارہ جمع ہوتے ہیں، گھر بنتے ہیں، گلیاں صاف کی جاتی ہیں اور زندگی پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔‘
مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن میں 57 فلسطینی جاں بحق
وہ کہتی ہیں کہ غزہ کے لوگ فیاض، شاکر اور باہمت ہیں، وہاں گزارے گئے 24 سالوں نے انہیں صبر، شکر اور یکجہتی سکھائی۔
اپنے بچوں کو غزہ میں پالنا ان کے لیے اعزاز تھا۔
’دنیا نے غزہ کے عوام کی ہمت اور وقار دیکھا ہے، دعا ہے کہ ایک دن ہم سب مل کر آزاد القدس میں نماز ادا کریں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
القدس بمباری ترک خاتون تعلیم جنگ بندی شکست خوردہ غزہ ناکہ بندی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: القدس ترک خاتون تعلیم ناکہ بندی کیفس ر یلماز جارادہ غزہ کے عوام ناکہ بندی کہتی ہیں کے مطابق جاتی ہے ہیں کہ کے لوگ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
نومبر 1947: جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب، بھارت کے ظلم و بربریت کی لرزہ خیز داستان
اسلام آباد: نومبر 1947 جموں و کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جب بھارتی ریاستی سرپرستی میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
مہاراجہ ہری سنگھ اور آر ایس ایس کے مسلح جتھوں نے ریاستی اداروں کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف منظم نسل کشی کی، جس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی لاکھ مسلمان شہید اور پانچ لاکھ سے زائد افراد ہجرت پر مجبور ہوئے۔
رپورٹس کے مطابق نومبر 1947 میں جموں کے ہزاروں دیہات بھارتی بربریت سے لہو میں نہا گئے۔ اس قتل عام کا مقصد جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک کو کچلنا تھا۔
کشمیر کے معروف اسکالر میاں کریم اللہ قریشی کے مطابق:
“جموں کے ایک باعزت شخص نے اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کے لیے انہیں خود قتل کر دیا، تاکہ وہ بھارتی درندوں کے ہاتھوں پامال نہ ہوں۔”
تاریخی شواہد کے مطابق مہاراجہ ہری سنگھ کے اہلکاروں، بھارتی فوج اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے مل کر جموں کے مسلمانوں پر قیامت ڈھائی، گھروں کو جلا دیا گیا اور معصوم عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1947 کا یہ قتل عام دراصل کشمیر کی مسلم شناخت ختم کرنے اور آزادی کی تحریک کو دبانے کی منظم سازش تھی۔ تاہم شہداء کے لہو نے کشمیری عوام میں آزادی اور خود ارادیت کی جدوجہد کو مزید طاقت بخشی۔
ہر سال 6 نومبر کو دنیا بھر میں کشمیری یومِ شہدائے جموں کے طور پر مناتے ہیں، تاکہ اس المیے کو یاد رکھا جا سکے اور شہداء کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔
کشمیری عوام آج بھی پُرعزم ہیں کہ بھارتی جابرانہ تسلط کے خلاف ان کی تحریکِ آزادی ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔