اسلام آباد کانفرنس میں بنگلہ دیشی مشیر کا عوام کو ترقی کا محور بنانے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
بنگلہ دیش کی وزارتِ ماحولیات، جنگلات و ماحولیاتی تبدیلی اور وزارتِ آبی وسائل کی مشیر سیدہ رضوانہ حسن نے ترقی پذیر ممالک پر زور دیا کہ وہ میگا منصوبوں کے بجائے عوامی فلاح کو ترجیح دیں۔
منگل کی شب اسلام آباد میں 28ویں پائیدار ترقی کانفرنس کے مہمان شرکا کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترقی کا اصل پیمانہ عمارتیں یا سڑکیں نہیں بلکہ انسانوں کی زندگی کا معیار ہے۔
’اگر لوگ موسمی آفات سے متاثر ہوں اور محفوظ پانی تک رسائی نہ رکھیں تو ترقی بے معنی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کا 20 سال بعد اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق، کن شعبوں پر توجہ دی جائے گی؟
رضوانہ حسن نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ بیرونی امداد کے بغیر بھی علاقائی تعاون، کمیونٹی کی شمولیت اور انسان مرکز پالیسیوں کے ذریعے پائیدار ترقی کے لیے اشتراک پیدا کریں۔
انہوں نے زور دیا کہ حقیقی مزاحمت نیچے سے اوپر کی سطح تک، تعاون، رویوں میں تبدیلی اور عوامی اعتماد کی بحالی کے ذریعے پیدا کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے سیاسی تقسیم اور ذاتی مفادات کو قومی و علاقائی ترجیحات کے لیے خطرہ قرار دیا۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ
سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام اگرچہ چیلنج ہے مگر یہ حکومتی اصلاحات، معاشی ازسرِنو سوچ اور نوجوان قیادت کے ابھرنے کے مواقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔
بنگلہ دیشی مشیر رضوانہ حسن نے دنیا بھر کی نوجوان تحریکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج کے نوجوان صرف ماحولیاتی انصاف نہیں بلکہ جمہوریت، آزادی اور وقار کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہ کی گئیں تو مستقبل میں خوراک و پانی کی قلت، شدید موسم اور آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اگلی نسل کے لیے دنیا کو ناقابلِ برداشت بنا دے گی۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا اتفاقِ رائے کمیشن کی سفارشات پر غم و غصہ
انہوں نے عالمی برادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو تو پائیدار ترقی کے اہداف کا خوبصورت ’مینیو‘ تو مرتب کردیا ہے مگر اسے آرڈر کرنے کے لیے وسائل نہیں۔
انہوں نے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کو غیر مؤثر اور قرضوں کی پیشکش کو ’انصاف کے بجائے بوجھ‘ قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد انصاف بنگلہ دیش پائیدار ترقی ترقی پذیر رضوانہ حسن مینیو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد انصاف بنگلہ دیش پائیدار ترقی رضوانہ حسن مینیو پائیدار ترقی رضوانہ حسن بنگلہ دیش انہوں نے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
کراچی: پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کے دوسرے ایڈیشن کا آغاز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-08-25
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پیر کے روز کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس (پی آئی ایم ای سی) کے دوسرے ایڈیشن کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستان کو مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ’قدرتی سمندری پل‘ قرار دیا۔ یہ ایونٹ پیر3نومبرسے جمعرات 6 نومبرتک کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری رہے گا، جس میں پاکستان سمیت 45 ممالک شرکت کر رہے ہیں، اس نمائش کا اہتمام پاک بحریہ کی مجموعی نگرانی میں کیا گیا ہے، جبکہ وفاقی اور صوبائی محکمے اس کے انتظامات میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ پی آئی ایم ای سی سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے کیونکہ یہ خطے (جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا) کے سنگم پر واقع ہے، جو اسے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک قدرتی سمندری پْل بناتا ہے۔ تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان تمام جغرافیائی فوائد کے باوجود پاکستان کا میری ٹائم شعبہ ملکی جی ڈی پی میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈال رہا ہے، جبکہ دیگر سمندری ممالک میں یہ شرح 4 سے 7 فیصد کے درمیان ہے۔ وزیر منصوبہ بندی نے بتایا کہ پاکستان کے پاس ایک ہزار کلومیٹر سے زاید طویل ساحلی پٹی، تقریباً 2 لاکھ 90 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل خصوصی اقتصادی زون اور قابلِ تجدید توانائی، ماہی گیری اور معدنی وسائل کے حوالے سے وسیع ساحلی امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ’اڑان پاکستان‘ منصوبے کا مقصد 2035 تک ملک کو ایک کھرب ڈالر کی معیشت میں تبدیل کرنا ہے، جس کے لیے ’5Es فریم ورک‘ یعنی ایکسپورٹس، ای-پاکستان، ایکوئٹی و ایمپاورمنٹ، ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی اور توانائی و انفرااسٹرکچر پر کام کیا جا رہا ہے۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ حکومت نے ایکسپورٹ پر مبنی ترقی کے 8 کلیدی عوامل کی نشاندہی کی ہے، جن میں زراعت اور فوڈ پروسیسنگ، مینوفیکچرنگ اور صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل سروسز، کان کنی اور معدنیات، افرادی قوت اور ہنر مندوں کی برآمد، تخلیقی و ثقافتی صنعتیں، سروسز سیکٹر و سیاحت اور بلیو اکانومی (سمندری معیشت) شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس باہمی جڑے ہوئے دور میں سمندر دوبارہ عالمی تجارت، توانائی اور رابطے کی شاہراہیں بن چکے ہیں اور وہ ممالک جو انہیں دانشمندی سے استعمال کرتے ہیں، دراصل مستقبل کی معاشی طاقت کی سمت طے کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دنیا کی خوشحالی حقیقتاً سمندروں پر سفر کرتی ہے، انہوں نے اقوام متحدہ کی تجارتی و ترقیاتی تنظیم (یو این سی ٹی اے ڈی) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی کل تجارت کا 80 فیصد حجم اور 70 فیصد مالیت سمندری راستوں سے منتقل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی بلیو اکانومی ہر سال دنیا کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں 2 ہزار 500 ارب ڈالر سے زیادہ کا حصہ ڈالتی ہے، شپنگ، بندرگاہوں، ماہی گیری، ساحلی سیاحت اور دیگر شعبوں میں 35 کروڑ سے زاید روزگار فراہم کرتی ہے۔ اپنے خطاب میں احسن اقبال نے جدید بلیو اکانومی کی روح کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجارت، جدت اور تلاش کے ذریعے خدا کی نعمتوں کی جستجو ہے، جبکہ اس کی تخلیق کے شکر گزار اور ذمے دار نگران بننے کی کوشش ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔مراد علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ پی آئی ایم ای سی ایک عظیم موقع ہے، جو ملکی اور غیرملکی سمندری کاروباری رہنماؤں کو یکجا کرتا ہے اور سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت سمندری تجارت کو فروغ دینے اور دنیا بھر سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ پی آئی ایم ای سی 2025 میں 150 مقامی اور 28 بین الاقوامی نمائش کنندگان کو شامل کر رہا ہے۔ برطانیہ، سعودی عرب، چین، مصر اور ترکیہ سمیت 44 ممالک کے نمائندے یورپ، ایشیا، شمالی و جنوبی امریکا، اور مشرق بعید سے آنے والے 133 بین الاقوامی وفود کے ساتھ اس ایونٹ میں شریک ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس 2025 میں میری ٹائم کے مختلف شعبوں کی نمائش کے ساتھ ساتھ بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) اور بزنس ٹو گورنمنٹ (بی ٹو جی) ملاقاتیں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط شامل ہوں گے۔ ان اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کا مقصد غیر ملکی مندوبین، سرکاری حکام اور بحری صنعت سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعاون کو فروغ دینا اور بندرگاہوں، شپنگ، ماہی گیری اور ساحلی ترقی جیسے اہم شعبوں میں شراکت داری کو مضبوط بنانا ہے۔