WE News:
2025-11-05@12:56:00 GMT

کوئٹہ سے بذریعہ جعفر ایکسپریس ڈاک کی ترسیل کیوں معطل ہوئی؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

کوئٹہ سے بذریعہ جعفر ایکسپریس ڈاک کی ترسیل کیوں معطل ہوئی؟

محکمہ ڈاک کی جانب سے بذریعہ جعفر ایکسپریس ڈاک اور سامان کی ترسیل معطل ہو گئی ہے، جس کے باعث نہ صرف کوئٹہ بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ڈاک کے نظام میں تاخیر اور تعطل پیدا ہو گیا ہے۔

محکمہ ڈاک طویل عرصے سے پاکستان ریلوے کے ذریعے مختلف شہروں کو ڈاک، پارسل، مالیاتی دستاویزات اور سرکاری مراسلات روانہ کرتا رہا ہے۔

تاہم حالیہ دنوں میں ریلوے انتظامیہ نے محکمہ ڈاک کا سامان لے جانے سے انکار کر دیا ہے، جس سے شہریوں اور کاروباری حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جعفر ایکسپریس پر حملے میں امریکا کی جانب سے افغانستان کو دیا گیا اسلحہ استعمال ہونے کی تصدیق

ذرائع کے مطابق پاکستان پوسٹ اور ریلوے کے درمیان ایک معاہدے کے تحت محکمہ ڈاک ریلوے کو کروڑوں روپے سالانہ ادائیگی کرتا ہے تاکہ ڈاک اور دیگر سامان کو مختلف شہروں تک بذریعہ ٹرین بروقت پہنچایا جا سکے۔

تاہم محکمہ ریلوے کی جانب سے مسلسل تاخیر، سامان نہ اٹھانے اور انتظامی ہتھکنڈوں کے باعث محکمہ ڈاک کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

جعفر ایکسپریس، جو کوئٹہ سے راولپنڈی کے درمیان سروس ہے، محکمہ ڈاک کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔

کیونکہ اسی کے ذریعے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ڈاک اور پارسلز ملک کے دیگر حصوں میں پہنچائے جاتے تھے۔

تاہم گزشتہ چند ہفتوں سے جعفر ایکسپریس کے ذریعے ڈاک کی ترسیل معطل ہونے کے باعث کوئٹہ اور بلوچستان کے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ کی جلد نجکاری کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟

محکمہ ڈاک کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ریلوے انتظامیہ کی جانب سے کبھی ’گاڑی میں گنجائش نہ ہونے اور کبھی اسمگلنگ کے خدشات‘ جیسے بہانوں کے ذریعے ڈاک کا سامان لے جانے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اس روش نے سرکاری اور نجی ڈاک کے پورے نظام کو متاثر کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں میں ڈاک کی ترسیل مکمل طور پر رک سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: قطر کے تعاون کے سبب بیرونی ممالک میں پھنسے 6 ہزار خطوط و پارسل پاکستان پہنچنا شروع

محکمہ ڈاک نے اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزارتِ مواصلات اور ریلوے حکام سے معاملے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

محکمہ ڈاک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے کے ساتھ موجود معاہدے کے مطابق محکمہ ڈاک ہر ماہ باقاعدگی سے تمام واجبات ادا کرتا ہے، لہٰذا ڈاک کی ترسیل میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تاخیر ناقابلِ قبول ہے۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ ریلوے انتظامیہ نے ڈاک کے سامان کو لے جانے سے انکار کیا ہو۔

مزید پڑھیں: اخروٹ اور بادام کہاں گئے؟ پاکستان پوسٹ کے ملازمین پر جرمانہ عائد

ماضی میں بھی کئی بار جعفر ایکسپریس اور دیگر ٹرینوں کے ذریعے ڈاک کی ترسیل اچانک معطل کی جا چکی ہے، جس سے محکمہ ڈاک کو لاکھوں روپے کا نقصان اور عوام کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

محکمہ ڈاک کے ملازمین کا کہنا ہے کہ جب بھی ٹرین سروس میں تعطل آتا ہے تو انہیں متبادل ذرائع، مثلاً نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں، کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو نہ صرف مہنگا ہے بلکہ وقت بھی زیادہ لیتا ہے۔

محکمہ ڈاک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے کے ساتھ معاہدے پر ازسرِ نو غور کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ نے عوامی سہولت کے لیے کیا بڑا فیصلہ کیا؟

اگر ریلوے انتظامیہ مسلسل تعاون سے انکار کرتی رہی تو محکمہ ڈاک کو متبادل ذرائع، مثلاً ہوائی کارگو یا نجی لاجسٹک کمپنیوں سے شراکت داری، پر غور کرنا ہوگا۔

دوسری جانب، محکمہ ریلوے کے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس میں ڈاک اور سامان کی ترسیل معمول کے مطابق جاری ہے۔

ریلوے کے نظام کے تحت روزانہ ہزاروں من سامان مختلف شہروں کے درمیان منتقل کیا جاتا ہے، جس میں سے بیشتر قانونی اور تجارتی اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ کی ہائی پروفائل دفاتر میں خطوط بھیجنے سے پہلے جانچ پڑتال کی ہدایت

البتہ بعض عناصر اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی یا اسمگل شدہ سامان بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ریلوے انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس عمل کی روک تھام کے لیے سیکیورٹی اقدامات میں بہتری لائی جا رہی ہے۔

حکام نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ریلوے کی خدمات استعمال کرتے وقت قانونی تقاضوں کی پاسداری کریں تاکہ نظام کو شفاف اور محفوظ بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ

عوامی حلقوں نے وزیرِ ریلوے اور وزیرِ مواصلات سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کریں تاکہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں ڈاک کا نظام معمول پر آ سکے۔

محکمہ ڈاک کے ذرائع کے مطابق، ڈاک صرف خطوط اور پارسلز تک محدود نہیں بلکہ اس کے ذریعے سرکاری خطوط، عدالتی نوٹسز، شناختی کارڈز، پاسپورٹس، مالی دستاویزات اور دیگر اہم سرکاری امور انجام پاتے ہیں، اس لیے اس نظام میں کسی بھی تاخیر کا براہِ راست اثر عوام پر پڑتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پارسلز ترسیل ٹرانسپورٹ جعفر ایکسپریس خطوط ڈاک ریلوے حکام شناختی کارڈز لاجسٹک معطل وزارت مواصلات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پارسلز ترسیل ٹرانسپورٹ جعفر ایکسپریس ڈاک ریلوے حکام شناختی کارڈز لاجسٹک وزارت مواصلات ریلوے انتظامیہ جعفر ایکسپریس پاکستان پوسٹ محکمہ ڈاک کے مزید پڑھیں کی جانب سے ریلوے کے کے ذریعے سے انکار کہ ریلوے کے مطابق ڈاک اور کے لیے

پڑھیں:

پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-2

 

پاکستان کے لیے یہ خبر کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 23 آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے مطابق ان بلاکس کا مجموعی رقبہ 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جب کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جو ڈرلنگ کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ پیش رفت انرجی سیکورٹی اور مقامی وسائل کی ترقی میں ایک بڑی کامیابی ہے، جو پاکستان کی توانائی خودکفالت کے سفر میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کامیاب بولی دہندگان میں پاکستان کی بڑی اور تجربہ کار کمپنیاں شامل ہیں، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، پرائم انرجی، اور فاطمہ پٹرولیم، جنہوں نے مقامی سطح پر اپنی تکنیکی صلاحیت اور مالی ساکھ کو مستحکم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ترکیہ پٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی اور اورینٹ پٹرولیم جیسے بین الاقوامی اداروں کی شمولیت اس منصوبے کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بناتی ہے۔ یہ اشتراک پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر میں غیر ملکی اعتماد کی بحالی اور اس کے پوٹینشل کے بڑھتے ہوئے اعتراف کی علامت ہے۔ امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن کی جانب سے حالیہ بیسن اسٹڈی میں پاکستان کے سمندر میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ممکنہ ذخائر کا عندیہ دیا گیا ہے، جو اگر حقیقت میں تبدیل ہو جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات خود پوری کر سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر ہی حکومت نے ’’آف شور راؤنڈ 2025‘‘ کا آغاز کیا، جو شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے اشارے بھی اس پیش رفت کی بنیاد بنے۔ 2024 میں ڈان نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے ایک دوست ملک کے تعاون سے تین سالہ سمندری سروے مکمل کیا ہے، جس سے تیل و گیس کے بڑے ذخائر کے مقام اور حجم کی نشاندہی ہوئی۔ اسی طرح 2025 میں نیوی کے ریئر ایڈمرل (ر) فواد امین بیگ نے چین کی مدد سے سمندر کی تہہ میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی تصدیق کی، جس سے پاکستان کے سمندری وسائل کی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔ یہ تمام شواہد اور اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس توانائی کے میدان میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ بدقسمتی سے ماضی میں کئی بار ایسے مواقع سیاسی عدم استحکام، پالیسی کے فقدان، اور تکنیکی کمزوریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • آمنہ شیخ اور محب مرزا کی علیحدگی کیوں ہوئی؟ اداکارہ کا انکشاف
  • غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی ترسیل پر تین سال سے عائد پابندیوں میں نرمی
  • حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی ترسیل پر عائد پابندیوں میں نرمی کردی
  • کرپشن کا الزام، محکمہ تعلیم و تعمیرات گلگت بلتستان کے 5 افسران معطل
  • گنڈاپور کو کیوں نکالا، کرپٹ تھے، نااہل یا میر جعفر؟ گورنر خیبر پختونخوا کا سوال
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
  • 2 جماعتوں نے بذریعہ سوشل میڈیا نفرت انگیز بیانیہ بنایا: احسن اقبال
  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات