تقریباً 2 دہائیوں تک، پاکستان کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنز کا گڑھ رہے۔ اس دوران، تعلیمی اداروں کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ اور گلوبل کولیشن ٹو پروٹیکٹ ایجوکیشن فرام اٹیک (GCPEA) کی رپورٹس کے مطابق، 2006 سے 2015 کے دوران فاٹا میں 1,100 سے زیادہ سکول، جن میں زیادہ تر لڑکیوں کے ادارے تھے، دہشتگردی کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، صرف ضلع مہمند میں کم از کم 94 سکولوں کو عسکریت پسندوں نے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیا۔ خوف، نقل مکانی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے ہزاروں بچے، خاص طور پر لڑکیاں، کئی سال تک تعلیم کے حق سے محروم رہے۔

یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں روایتی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم مشکل تھی، لیکن جنگ نے ترقی کو مزید دہائیوں پیچھے دھکیل دیا تھا۔

اب جب قبائلی اضلاع میں آہستہ آہستہ امن لوٹ رہا ہے، تو مہمند کے لوگوں کے خواب بھی پورے ہو رہے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اپر مہمند میں لڑکیوں کے لیے پہلی بار بی ایس پروگرام (بیچلر آف سٹڈیز) شروع کر دیا گیا ہے۔

چاندہ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس پروگرام کا آغاز اپر مہمند کی تاریخ کا ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ یہ ان لڑکیوں کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے جن کے لیے برسوں کی عسکریت پسندی، نقل مکانی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی ایک دور کا خواب تھا۔

ماضی میں، اپر مہمند کی زیادہ تر لڑکیوں کو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے بعد آگے پڑھنے کے لیے ضلع سے باہر جانا پڑتا تھا۔ معاشی کمزوری، ثقافتی رکاوٹوں، اور سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی تھیں۔ زیادہ تر خاندانوں کے لیے بیٹیوں کو ضلع سے باہر بھیجنا ویسے بھی ناقابلِ تصور تھا۔

اب، چاندہ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس پروگرام شروع ہونے سے مقامی طالبات اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گی۔ والدین اور طالبات نے اس ترقی پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے، جو طویل انتظار کے بعد اس پسماندہ قبائلی علاقے کی بیٹیوں کے تعلیمی مستقبل کی از سر نو تعمیر کی نوید لایا ہے۔

تبدیلی کی آوازیں

کالج کی پرنسپل پروفیسر ماہ رخ ظاہر نے بتایا کہ 2022 میں جب کالج کا افتتاح ہوا تو صرف 6 طالبات تھیں۔ ’اب ہمارے پاس 100  سے زیادہ لڑکیاں پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس میں زیر تعلیم ہیں۔ اور اپر مہمند کی تاریخ میں پہلی بار، ہم نے بی ایس پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ کالج صرف تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک مکمل درسگاہ بنے گا، جو لڑکیوں کو تعلیم، سیاست، معیشت اور ترقیاتی شعبوں میں حصہ لینے کے لیے تیار کرے گا‘۔

پرنسپل نے اعتراف کیا کہ یہ تبدیلی آسان نہیں تھی۔ ’شروع میں ہمیں روایات، غیر یقینی حالات، اور خوف کی وجہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہمارے لوگوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ اگر ان کی بیٹیاں تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی، تو پورا معاشرہ مصیبت میں رہے گا۔ آج وہی خاندان فخر کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو یہاں بھیجتے ہیں‘۔

لیکچرر گیگانی نے بتایا کہ شروع میں انہیں گھر گھر جا کر خاندانوں کو اپنی لڑکیوں کو کالج بھیجنے پر قائل کرنا پڑتا تھا۔ ’ہم نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی بیٹیاں محفوظ ہوں گی اور صحیح رہنمائی کی جائے گی۔ اب ہمارے پاس اہل عملہ، معاون انتظامیہ اور کمیونٹی کا بڑھتا ہوا اعتماد ہے۔ اس تبدیلی کا مشاہدہ کرنا ہمارے حوصلے کو بڑھاتا ہے‘۔

لیکچرر مریم ظاہر نے کہا کہ کم داخلے، وسائل کی کمی اور سماجی ہچکچاہٹ جیسے کئی چیلنجز تھے، لیکن ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کے تعاون سے ہم نے قابو پا لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’ماحول بدل چکا ہے۔ لوگ اب تعلیم کو اختیار کاری (Empowerment) سمجھتے ہیں، یہ ثقافت کے لیے خطرہ نہیں ہے‘۔

طالبہ شمائلہ ملک نے اس پروگرام کو تعلیمی انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا، ’یہ پروگرام مواقع کے بند دروازے کھولے گا۔ اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ یہاں ملازمت کے بہت سے مواقع آتے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ مقامی خواتین کی کمی کی وجہ سے باہر کے لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں۔ اگر یہاں کی لڑکیاں پڑھ لکھ جائیں تو مقامی لوگوں میں محرومی کا احساس کم ہو گا‘۔

کالج کی طالبہ سفینہ جابر نے خوشی کے ساتھ کچھ تشویش کا بھی اظہار کیا۔ ’یہ نعمت ہے کہ ہمارے پاس بی ایس پروگرام آ گیا ہے، لیکن ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ابھی بھی ہے۔ بہت سی طالبات دور دراز علاقوں سے آتی ہیں اور غربت کی وجہ سے انہیں تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں اب بھی بہتر سہولیات، سکالرشپس، اور مستحق طالبات کے لیے مدد کی ضرورت ہے‘۔

پسماندہ علاقے میں اُمید کی کِرن

مہمند جو پسماندہ اور سخت روایات کے حوالے سے جانا جاتا تھا، اب علاقہ چاندہ میں ہر صبح درجنوں نوجوان لڑکیاں یونیفارم میں ملبوس اور کتابیں اٹھائے کالج کی طرف جاتی نظر آتی ہیں، جو ایک خاموش مگر طاقتور انقلاب کی علامت ہے۔

مقامی عمائدین نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ علاقے کے ایک بزرگ نے تبصرہ کیا، ’جب ہمارے بیٹے کمانے کے لیے باہر جاتے ہیں، تو ہماری بیٹیوں کو بھی حصہ ڈالنے کے قابل ہونا چاہیے۔ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کی برابر ضرورت ہے‘۔

نوجوان وکیل ایڈوکیٹ افضل مہمند نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے لڑکے اعلیٰ تعلیم سے کامیاب انسان بنے ہیں، اب قبائلی لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تعمیر کریں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمیر خان آباد

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بی ایس پروگرام اپر مہمند لڑکیوں کی لڑکیوں کے کی وجہ سے کی کمی کے لیے

پڑھیں:

کالج کی ’مغوی‘ طالبہ36 روز بعد عدالت میں پیش، عمر کے تعین کا حکم، یہ کیسے ہوگا اور کیا طریقہ کار ہے؟

شہر قائد کے علاقے سیکٹر ایل ون سے 36 روز لاپتہ ہونے والی 16 سالہ کالج علیشاہ کی طالبہ کو عدالت نے دارالامان منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق 30 ستمبر کو گھر سے کالج کیلیے نکلنے والی علیشاہ کا عدالت میں پیشی سے قبل اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تاہم آج والدین کا عدالت میں بیٹی کے ساتھ آمنا سامنا ہوا۔

اس کیس کی ایف آئی آر 15 اکتوبر کو درج ہوئی جس کے بعد مبینہ طور پر ملزمان نے اہل خانہ کو دھمکیاں دے کر قانونی چارہ جوئی سے دستبردار ہونے اور 20 لاکھ روپے ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا۔

والدہ صائمہ کے مطابق کیس کا مرکزی ملزم رفیق بگٹی ہے جبکہ بیٹی کے اغوا میں اُس کے تین ساتھی حمد علی، علی اور منظر شامل ہیں جنہوں نے گھر آکر اہل خانہ کو دھمکایا اور 24 اکتوبر کی رات مبینہ طور پر فائرنگ بھی کی تھی۔

گزشتہ روز ملزمان کی جانب سے علیشاہ کو سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ 17 کی عدالت میں پیش کیا گیا تاہم جج نے سماعت کو آج تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

درخواست گزار (لڑکی کی والدہ) صائمہ کے مطابق آج اُن کی بیٹی کو ملزمان عدالت میں لے کر پیش ہوئے، بچی کے ساتھ لڑکا، اُس کی ماں، بہن اور دیگر 25 سے 27 لوگ تھے جو پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔

عدالت میں لڑکی کو جب مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے بیان کیلیے پیش کیا گیا تو درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ سلمان مجاہد بلوچ نے سب سے پہلے عمر کا معاملہ اٹھایا اور لڑکی کے میڈیکل ٹیسٹ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے عدالت سے استفسار کیا کہ لڑکی کو تفتیشی افسر کی تحویل میں دیا جائے اور اگر وہ گھر نہیں جانا چاہتی تو پھر اُس کو دارالامان منتقل کیا جائے کیونکہ خدشہ ہے کہ 36 روز میں لڑکی پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر اُس کا دماغ بنایا گیا ہے تاکہ وہ ملزمان کو بچانے کیلیے اُن کے حق میں بیان دے۔

ملزمان کے وکیل نے دفاع میں درخواست گزار کے وکیل کی جرح پر اعتراض کیا اور کہا کہ ’لڑکی کا نکاح ہوچکا ہے لہذا اسے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے، لڑکی اپنے گھر نہیں بلکہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے‘۔

سماعت کے دوران جج نے درخواست گزار کے وکیل کی استدعا پر لڑکی کا بیان مجسٹریٹ نے اینٹی ریپ کے تحت اکیلے میں قلم بند کروایا۔ پھر جج نے عمر کا تعین کرنے کیلیے تفتیشی افسر کو ہدایت کی اور لڑکی کو اگلی سماعت تک دارالامان منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے میڈیکل رپورٹس بھی جمع کروانے کی ہدایت کی۔

ملزمان کا کہنا ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی اور پسند سے نکاح کیا اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے جبکہ لڑکی خود مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کرنا چاہتی ہے۔

اُدھر لڑکی نے عدالت میں والدین کے ساتھ جانے انکار کیا جبکہ والدہ کی ملاقات کی کوشش کو ملزمان کے وکلا نے روکتے ہوئے علیشاہ کو والدہ سے ملنے نہیں دیا اور کہا کہ لڑکی خود کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔

جج کی جانب سے جاری ہونے والے آرڈر میں تفتیشی افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگلے احکامات تک لڑکی کو اپنی حفاظتی تحویل میں رکھیں، (اس دوران علیشاہ کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی) جبکہ عدالتی حکم نامے میں لڑکی کو کم عمر لکھا گیا ہے جس کا مطلب کہ قانونی طور پر شادی کیلیے اُس کی عمر مقررہ حد سے کم ہے۔

عمر کا تعین کیسے ہوگا؟

پاکستان میں عدالتیں عمر کا تعین کرنے کیلیے ہڈیوں (آسییفیکیشن) ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جس کے تحت ہڈیوں کی کثافت کی بنیاد پر عمر کا تعین کیا جاتا ہے۔

ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی شخص کی عمر کے تعین کیلیے کلائی، کہنی، کاندھے اور کولہے کی ہڈیوں کا ایکسرے کر کے جوڑوں کے جڑنے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

اس ٹیسٹ کی رپورٹ ایک چارٹ کی صورت میں سامنے آتی ہے جس میں ہڈیوں کی عمر کا تعین ہوتا ہے تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حتمی نہیں بلکہ قریب قریب ہوتا ہے۔

یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ انسانی کی جسامت، خاندان کے اعتبار سے ہڈیوں کے بڑھنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے جبکہ متعدد مواقعوں پر غذائیت، صحت اور کم خوراک کی وجہ سے ہڈیوں کی نشوونما بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق اس ٹیسٹ کی رپورٹ میں ایک دو سال کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں۔

’ہڈیوں کا ٹیسٹ ثانوی ثبوت ہے‘

ماہر قانون نے بتایا کہ پاکستان سمیت کئی ممالک کی عدالتیں اس ٹیسٹ کی رپورٹ کو ثانوی ثبوت کے طور پر لیتی ہیں اور اصل ثبوت کے طور پر پیدائشی سرٹیفیکٹ، تعلیمی اسناد سمیت دیگر دستاویزات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اگر لڑکی کم عمر نکلی تو کیا ہوگا؟

ایڈوکیٹ سلمان مجاہد بلوچ نے بتایا کہ اگر ٹیسٹ کی رپورٹ میں لڑکی کی عمر کم آتی ہے تو کیس مزید مضبوط ہوسکتا ہے اور پھر یہ مقدمہ اینٹی ریپ کی دفعات کے تحت چلے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ رپورٹ عمر کم آنے کے بعد اگلے مرحلے میں والدین کی جانب سے عدالت میں بچی کی تحویل کیلیے درخواست دائر کی جائے گی اور پھر تنسیخ نکاح (خلع) کو چلینج کیا جائے گا۔

دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ میں علیشاہ کی گمشدگی پر دائر درخواست کی سماعت 11 نومبر کو مقرر ہے جس میں جج نے ایس ایچ او سے جواب طلب کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل کراچی کے علاقے ملیر کی رہائشی ایک لڑکی کو بھی جھانسے میں لانے کے بعد پنجاب میں نکاح کیا گیا تھا، یہ کیس کئی ماہ تک چلتا رہا جس کے بعد اب بچی اپنے والدین کے ساتھ ہے۔

اس کیس میں عدالت نے جب ہڈیوں کے ٹیسٹ کے ذریعے عمر کے تعین کی ہدایت کی تو اُس کی عمر نکاح کیلیے مقررہ کی گئی حد سے کم آئی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے قانون موجود ہے اور لڑکی یا لڑکے کی شادی کیلیے کم از کم عمر کا تعین کیا گیا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی پر نہ صرف نکاح کرنے والے بلکہ نکاح خواں کو بھی سخت سزائیں دی جاتی ہیں، جن میں قید اور جرمانے شامل ہیں۔

ہر صوبے میں شادی کے حوالے سے عمر کی حد مختلف ہے

سندھ میں چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت لڑکی اور لڑکے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال، پنجاب میں لڑکی کی عمر 16 اور لڑکے کی 18 سال، خیبرپختونخوا، بلوچستان میں بھی عمر کی حد یہی ہے۔

خلاف ورزی پر جرمانے اور سزائیں

سندھ

سندھ میں چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی ناقابل ضمانت اور قابل گرفتاری جرم ہے، جس پر تین سال سزا اور 45 ہزار روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی پر نکاح خواں، والدین یا سرپرست اور نکاح میں معانت کرنے والے تمام افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پنجاب

دستیاب معلومات کے مطابق پنجاب چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ کی خلاف ورزی پر 6 ماہ قید یا 50 ہزار روپے تک جرمانے یا پھر دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ یہاں بھی نکاح خواں، والدین یا کسی بھی معاون کو سزا دی جا سکتی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • آئمہ کرام کی رجسٹریشن کے معاملات آخری مراحل میں ، ہر تحصیل آفس میں خصوصی کائونٹر قائم 
  • حکومت تعلیم کے شعبے میں بہتر اقدامات کررہی ہے، ندیم الرحمن میمن
  • وزیراعلیٰ کے پی کا مہمند میں پیرا میڈیکل بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم
  • کالج کی ’مغوی‘ طالبہ36 روز بعد عدالت میں پیش، عمر کے تعین کا حکم، یہ کیسے ہوگا اور کیا طریقہ کار ہے؟
  • وزیراعلیٰ کے پی کا ضلع مہمند میں پیرا میڈیکل بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم
  •  امارات نے تنزانیا میں بدامنی کے باعث پروازیں منسوخ کر دیں
  • گوگل کروم بک فیکٹری لگانے کی پیشکش، مریم نواز معاونت کی یقین دہانی
  • گوگل کروم بک فیکٹری لگانے کی پیشکش، وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونت کی یقین دہانی
  • قاضی احمد: بے امنی میں اضافہ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کی ریلی