عرصہ دراز سے بدامنی اور پسماندگی کے شکار تحصیل حلیمزئی اپر مہمند میں پہلی بار لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
تقریباً 2 دہائیوں تک، پاکستان کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنز کا گڑھ رہے۔ اس دوران، تعلیمی اداروں کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ اور گلوبل کولیشن ٹو پروٹیکٹ ایجوکیشن فرام اٹیک (GCPEA) کی رپورٹس کے مطابق، 2006 سے 2015 کے دوران فاٹا میں 1,100 سے زیادہ سکول، جن میں زیادہ تر لڑکیوں کے ادارے تھے، دہشتگردی کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، صرف ضلع مہمند میں کم از کم 94 سکولوں کو عسکریت پسندوں نے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیا۔ خوف، نقل مکانی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے ہزاروں بچے، خاص طور پر لڑکیاں، کئی سال تک تعلیم کے حق سے محروم رہے۔
یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں روایتی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم مشکل تھی، لیکن جنگ نے ترقی کو مزید دہائیوں پیچھے دھکیل دیا تھا۔
اب جب قبائلی اضلاع میں آہستہ آہستہ امن لوٹ رہا ہے، تو مہمند کے لوگوں کے خواب بھی پورے ہو رہے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اپر مہمند میں لڑکیوں کے لیے پہلی بار بی ایس پروگرام (بیچلر آف سٹڈیز) شروع کر دیا گیا ہے۔
چاندہ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس پروگرام کا آغاز اپر مہمند کی تاریخ کا ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ یہ ان لڑکیوں کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے جن کے لیے برسوں کی عسکریت پسندی، نقل مکانی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی ایک دور کا خواب تھا۔
ماضی میں، اپر مہمند کی زیادہ تر لڑکیوں کو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے بعد آگے پڑھنے کے لیے ضلع سے باہر جانا پڑتا تھا۔ معاشی کمزوری، ثقافتی رکاوٹوں، اور سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی تھیں۔ زیادہ تر خاندانوں کے لیے بیٹیوں کو ضلع سے باہر بھیجنا ویسے بھی ناقابلِ تصور تھا۔
اب، چاندہ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس پروگرام شروع ہونے سے مقامی طالبات اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گی۔ والدین اور طالبات نے اس ترقی پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے، جو طویل انتظار کے بعد اس پسماندہ قبائلی علاقے کی بیٹیوں کے تعلیمی مستقبل کی از سر نو تعمیر کی نوید لایا ہے۔
تبدیلی کی آوازیںکالج کی پرنسپل پروفیسر ماہ رخ ظاہر نے بتایا کہ 2022 میں جب کالج کا افتتاح ہوا تو صرف 6 طالبات تھیں۔ ’اب ہمارے پاس 100 سے زیادہ لڑکیاں پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس میں زیر تعلیم ہیں۔ اور اپر مہمند کی تاریخ میں پہلی بار، ہم نے بی ایس پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ کالج صرف تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک مکمل درسگاہ بنے گا، جو لڑکیوں کو تعلیم، سیاست، معیشت اور ترقیاتی شعبوں میں حصہ لینے کے لیے تیار کرے گا‘۔
پرنسپل نے اعتراف کیا کہ یہ تبدیلی آسان نہیں تھی۔ ’شروع میں ہمیں روایات، غیر یقینی حالات، اور خوف کی وجہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہمارے لوگوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ اگر ان کی بیٹیاں تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی، تو پورا معاشرہ مصیبت میں رہے گا۔ آج وہی خاندان فخر کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو یہاں بھیجتے ہیں‘۔
لیکچرر گیگانی نے بتایا کہ شروع میں انہیں گھر گھر جا کر خاندانوں کو اپنی لڑکیوں کو کالج بھیجنے پر قائل کرنا پڑتا تھا۔ ’ہم نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی بیٹیاں محفوظ ہوں گی اور صحیح رہنمائی کی جائے گی۔ اب ہمارے پاس اہل عملہ، معاون انتظامیہ اور کمیونٹی کا بڑھتا ہوا اعتماد ہے۔ اس تبدیلی کا مشاہدہ کرنا ہمارے حوصلے کو بڑھاتا ہے‘۔
لیکچرر مریم ظاہر نے کہا کہ کم داخلے، وسائل کی کمی اور سماجی ہچکچاہٹ جیسے کئی چیلنجز تھے، لیکن ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کے تعاون سے ہم نے قابو پا لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’ماحول بدل چکا ہے۔ لوگ اب تعلیم کو اختیار کاری (Empowerment) سمجھتے ہیں، یہ ثقافت کے لیے خطرہ نہیں ہے‘۔
طالبہ شمائلہ ملک نے اس پروگرام کو تعلیمی انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا، ’یہ پروگرام مواقع کے بند دروازے کھولے گا۔ اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ یہاں ملازمت کے بہت سے مواقع آتے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ مقامی خواتین کی کمی کی وجہ سے باہر کے لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں۔ اگر یہاں کی لڑکیاں پڑھ لکھ جائیں تو مقامی لوگوں میں محرومی کا احساس کم ہو گا‘۔
کالج کی طالبہ سفینہ جابر نے خوشی کے ساتھ کچھ تشویش کا بھی اظہار کیا۔ ’یہ نعمت ہے کہ ہمارے پاس بی ایس پروگرام آ گیا ہے، لیکن ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ابھی بھی ہے۔ بہت سی طالبات دور دراز علاقوں سے آتی ہیں اور غربت کی وجہ سے انہیں تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں اب بھی بہتر سہولیات، سکالرشپس، اور مستحق طالبات کے لیے مدد کی ضرورت ہے‘۔
مہمند جو پسماندہ اور سخت روایات کے حوالے سے جانا جاتا تھا، اب علاقہ چاندہ میں ہر صبح درجنوں نوجوان لڑکیاں یونیفارم میں ملبوس اور کتابیں اٹھائے کالج کی طرف جاتی نظر آتی ہیں، جو ایک خاموش مگر طاقتور انقلاب کی علامت ہے۔
مقامی عمائدین نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ علاقے کے ایک بزرگ نے تبصرہ کیا، ’جب ہمارے بیٹے کمانے کے لیے باہر جاتے ہیں، تو ہماری بیٹیوں کو بھی حصہ ڈالنے کے قابل ہونا چاہیے۔ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کی برابر ضرورت ہے‘۔
نوجوان وکیل ایڈوکیٹ افضل مہمند نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے لڑکے اعلیٰ تعلیم سے کامیاب انسان بنے ہیں، اب قبائلی لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تعمیر کریں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بی ایس پروگرام اپر مہمند لڑکیوں کی لڑکیوں کے کی وجہ سے کی کمی کے لیے
پڑھیں:
’میں ہوں نا‘ کیلئے پہلی چوائس امریتا راؤ نہیں تھیں، فرح خان نے بتادیا
بالی ووڈ کی مشہور فلم ساز اور ہدایتکارہ فرح خان نے حال ہی میں اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ فلم ’میں ہوں نا‘ کے لیے عائشہ تاکیا کو پہلے فائنل کر لیا گیا تھا، مگر انہوں نے شوٹنگ سے صرف دو ہفتے قبل یہ فلم چھوڑ دی اور امتیاز علی کی فلم سائن کر لی۔
فرح خان، جو ان دنوں اپنے وی لاگ کے ذریعے پرانی یادیں تازہ کر رہی ہیں، جب اداکارہ امریتا راؤ کے گھر پہنچیں تو انہوں نے بتایا کہ فلم کی شوٹنگ شروع ہونے میں صرف دو ہفتے رہ گئے تھے، مگر مرکزی کردار کے لیے کوئی ہیروئن موجود نہیں تھی۔
فرح نے ہنستے ہوئے کہا کہ دو ہفتے پہلے تک شوٹنگ کنفرم تھی، لیکن ہیروئن نہیں تھی۔ ہم نے دارجلنگ کا سینٹ پال اسکول بک کر لیا تھا، سب لوگ پہنچ گئے تھے۔ پہلے عائشہ تاکیا کو فائنل کیا تھا، مگر وہ امتیاز علی کی فلم کے لیے چلی گئیں اور پورے دو مہینے مصروف رہیں۔ میں اسے فون کرتی تھی کہ تمہارے کاسٹیوم اور سینز تیار ہیں، تو وہ کہتی، امتیاز سر ابھی شوٹنگ کر رہے ہیں، میں نہیں آ سکتی۔
فرح نے بتایا کہ پھر گوری خان نے انہیں مشورہ دیا کہ اس لڑکی (امریتا راؤ) کو دیکھو۔ فرح نے کہا کہ جب میں نے امریتا کو دیکھا تو وہ بالکل میرے کردار جیسی نہیں لگ رہی تھیں، کیونکہ وہ ایک سادہ سا کرتا پہنے ہوئی تھیں۔ میں نے انہیں فلم کا جذباتی سین دیا اور جب کیمرے پر دیکھا تو وہ شعلہ بن گئیں۔
فرح کے مطابق امریتا میں وہی خوبی تھی جو سری دیوی میں تھی، کیمرے پر جادو، مگر عام زندگی میں بالکل عام سی۔ بعد ازاں، امریتا راؤ نے زید خان کے ساتھ ’میں ہوں نا‘ میں سنجنا بکشی کا کردار ادا کیا، جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوا۔
فلم میں شاہ رخ خان اور سشمیتا سین نے بھی مرکزی کردار نبھائے اور یہ فلم ریلیز کے بعد بڑی کامیابی ثابت ہوئی، جس نے تقریباً 70 کروڑ روپے کمائے۔
دوسری جانب، عائشہ تاکیا نے فرح خان کی فلم چھوڑ کر امتیاز علی کی فلم ’سوچا نہ تھا‘ سائن کی، جس سے ابھے دیول نے ڈیبیو کیا۔ تاہم یہ فلم باکس آفس پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔