جنگ بندی کے باوجود غزہ میں حملے، ٹرمپ کہاں ہے؟ مولانا فضل الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر اظہارِ تاسف کیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کروا چکے ہیں اور سوال کیا ہے کہ اب ٹرمپ کہاں ہے؟
مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ ٹرمپ یا اس کے کسی فارمولے کو قبول نہیں کرتے، بظاہر جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری ہے اور اس کے نتیجے میں فلسطینی شہری شہید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس المناک صورتحال کے پیشِ نظر فلسطین کی آزادی صرف ایک علاقائی معاملہ نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ عملی مؤقف اور واضح حکمتِ عملی کے بغیر بیانات اور وعدے بے معنی رہ جاتے ہیں، اس لیے بین الاقوامی برادری اور بااثر اقوام کو فوری اور سنجیدہ اقدام کرنا چاہیے تاکہ عام فلسطینیوں کو ریلیف اور تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مولانا فضل
پڑھیں:
حماس کا اسرائیلی حملوں کے باوجود جنگ بندی معاہدے پر قائم رہنے کا اعلان
غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن کا کہنا ہے کہ گروپ کو اسرائیلی اسیران کی لاشوں کی بازیابی کے دوران "نمایاں مشکلات" کا سامنا ہے اور اس نے اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے بھاری ساز و سامان کے داخلے کی اجازت کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حماس کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ گروپ اسرائیل کے حملوں کے بعد جنگ بندی کے معاہدے کے لیے پرعزم ہے۔ غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن سہیل الہندی کا کہنا ہے کہ گروپ کو اسرائیلی اسیران کی لاشوں کی بازیابی کے دوران "نمایاں مشکلات" کا سامنا ہے اور اس نے اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے بھاری ساز و سامان کے داخلے کی اجازت کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسرائیل کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم معاہدے کے پابند ہیں، اور انہیں ہم پر اس کی خلاف ورزی کا جھوٹا الزام لگانا بند کرنا چاہیے۔
عہدیدار نے کہا کہ حماس نے لاشوں کو تلاش کرنے کے لیے ریڈ زون میں سرچ ٹیموں کے داخلے کا کہا جس سے قابض نے انکار کر دیا۔ الہندی نے اکتوبر کے اوائل میں نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کو کسی قیدی کی لاش کی فراہمی میں چھپانے یا تاخیر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ہم معاہدے کے لیے اپنی مکمل وابستگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لاشوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور ثالثی کرنے والی طاقتوں سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ قیدیوں کی باقی لاشوں کی بازیابی میں سہولت فراہم کریں۔