Express News:
2025-12-14@23:00:15 GMT

یہ فیصلہ کہاں پہنچائے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, December 2025 GMT

فیض احمد فیض اور فیض حمید کا ذکر ایک ساتھ کرتے ہوئے حیا آتی ہے لیکن اس سے مفر نہیں ہے۔ فیض حمید کو سزا ہوئی تو ایک سوال ذہن میں سرسرایا۔ فیض صاحب نے بڑی حسرت سے پوچھا تھا  ؎

 کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا

کس دن تری شنوائی اے دید تر ہوگی

کب مہکے گی فصل گل، کب بہکے گا مے خانہ

کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہوگی

کیا صبح سخن کا سورج طلوع ہو چکا اور وہ حسیں شام ہماری دسترس میں آیا چاہتی ہے جس کی آرزو ہمارے شاعر نے کی تھی؟ اس سوال کا جواب تو میرے پاس نہیں لیکن کچھ ایسا ضرور ہو گیا ہے جس کی توقع نہیں تھی۔ اس لیے فیض حمید کے خلاف کورٹ جنرل مارشل کے فیصلے پر نہ بغلیں بجانے کی ضرورت ہے اور نہ گہری اداسی میں ڈوب کر مایوس ہو جانے کی بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کروٹ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو ابھی ابھی تاریخ نے ہماری آنکھوں کے عین سامنے لی ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ اس واقعے کا پیغام کیا ہے اور یہ کن عوامل کا پیش خیمہ ثابت ہو گا؟

اس سوال کا جواب نہیں مل سکتا اگر تاریخ ہی کے ایک اور واقعے کی تفہیم نہ ہو جائے جو اس واقعے سے متصل قبل رونما ہوا تھا۔ میرا اشارہ واقعات کے اس سلسلے کی جانب ہے جن کا آغاز 2014 ء کے دھرنے سے ہوا تھا۔ اسی واقعے کی ایک اور کڑی ہے جس میں فیض حمید جسٹس شوکت صدیقی سے یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ میرٹ پر فیصلہ کر کے کہیں میری دو برس کی سرمایہ کاری کو تباہ نہ کر دینا۔ ان دو واقعات کے ذکر سے میری رائے میں ہمیں وہ بنیاد میسر آ گئی ہے جس کی مدد سے تاریخ کی اس کروٹ کو سمجھنا ممکن ہو سکتا ہے۔

بانی تحریک انصاف اور ان کے سیاسی کزن طاہر القادری ڈی چوک پر دھرنا دینے میں کامیاب ہو گئے تو ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ایک بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں سیاسی کزنوں نے پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے امریکا کے سامنے پھینک دیا ہے۔ اب سی پیک کو ماضی کا قصہ سمجھو۔ اس وقت یہ بات سمجھنی مشکل تھی کہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھانے والا شخص امریکا کا خدمت گار کیسے ہو سکتا ہے لیکن ٹھیک چار برس کے بعد یہ بات اس وقت حقیقت بن گئی جب بانی تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی پاکستان کی معاشی شاہ رگ یعنی سی پیک کے خلاف پروپیگنڈے کا فلڈ گیٹ کھولا، اس کے بعد اس پر عملًا کام بند کرا دیا۔

کیا یہ میلہ صرف دیہاتی کا رومال چرانے یعنی صرف سی پیک کو تباہ کرنے کے لیے سجایا گیا تھا؟ حقیقت صرف اتنی نہیں ہے۔ فیض حمید نے جسٹس شوکت صدیقی کو دھمکی دیتے ہوئے جس سرمایہ کاری کے ضایع ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اس کا تعلق پاکستان میں پیدا ہونے والے اس سماجی و سیاسی شعور سے تھا جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت وجود میں آیا تھا، بانی تحریک انصاف نے جسے مک مکا اور باریاں لگانے کا توہین آمیز عنوان بنا دیا تھا۔

میثاق جمہوریت ممکن ہے کہ کوئی مثالی معاہدہ نہ رہا ہو اور اس پر دستخط کرنے والوں سے اس پر عمل درآمد میں کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں لیکن یہ میثاق نشان منزل ضرور تھا جس کے نتیجے میں قوم ایک ایسے استحکام کی منزل پر پہنچ سکتی تھی جو سیاست سے ہوتا ہوا معیشت تک پہنچتا اور بالآخر قوموں کی برادری میں اس کا سر بلند کر دیتا۔ ایسا ہو جاتا تو اس قوم کو اس آزمائش سے بھی نجات مل جاتی جس کا سامنا اسے ہر دس پندرہ برس کے بعد کرنا پڑتا تھا اور وہ جاں گسل مراحل سے گزر کر فیض صاحب کی زبان میں ایک روشن صبح کے انتظار میں بیٹھ جاتی تھی لیکن یہ منظور نہ تھا لہٰذا دو سال کی محنت یا سرمایہ کاری کے ذریعے وہ سب کیا گیا جو ہمارے قومی حافظے کی ایک دل خراش یاد ہے۔

دو برس کی محنت رنگ لے آئی تو بانی تحریک انصاف کی قیادت میں ایک ایسا نظام وجود میں آ گیا جس میں وہ صبح موعود خواب و خیال ہو گئی اور ایک ایسا ہائبرڈ نظام وجود میں آیا جس کا مقصد اس ملک کو بہ تدریج یک جماعتی آمریت کی طرف لے جانا تھا جس کی سرپرستی فیض حمید جیسے خود سر لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی۔ اس منزل کی طرف سفر جاری رہتا اگر بانی تحریک انصاف اور ان کے سرپرستوں کے ہاتھوں کشمیر پھسل نہ جاتا۔

نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی تو بانی تحریک انصاف کی حکومت نے اس میں سہولت کاری کی یعنی عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے رسمی سا احتجاج کیا لیکن عالمی سطح پر عملًا کسی اقدام سے گریز کیا۔ اسی دور میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان میں لا کر بسایا گیا جنھوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا۔ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اس حکومت کے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی تسلسل کے ساتھ کہتے رہے کہ ملک عملًا دیوالیہ ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ اقتصادی دیوالیہ پن ملک کو اس خطرے کی طرف دھکیلنے لگا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا۔ یہ صورت حال تھی جس کی وجہ سے بانی تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہو گیا۔

بانی تحریک انصاف کی حکومت تو ختم ہو گئی لیکن وہ سفر ختم نہیں ہوا جو 2014 میں شروع ہوا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے فیض حمید کے خواب بکھر گئے اور وہ زیادہ کھل کر سامنے آ گئے جس کے نتیجے میں 9 مئی کا سانحہ رونما ہوا۔ یہ واقعہ ہماری تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ صرف حکومت کے خلاف احتجاج نہیں تھا بلکہ مسلح افواج میں تقسیم پیدا کرنے کی شعوری کوشش تھی۔ یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو اس کے نتیجے میں صرف یہ نہ ہوتا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جگہ فیض حمید لے لیتے بلکہ وطن عزیز کے دفاعی ادارے میں پڑنے والی یہ دراڑ مستقل حیثیت اختیار کر جاتی،یوں پاکستان کا دفاع ہمیشہ کے لیے داؤ پر لگ جاتا۔ ایسی صورت میں اس فقید المثال فتح کا خواب دیکھنا بھی محال ہو جاتا جو اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے 10 مئی کو ہمیں عطا کی تھی۔

فیض حمید کو سنائی جانے والی سزا کا اصل پس منظر یہ ہے لیکن صرف اتنا نہیں ہے جن چار الزامات یعنی اختیارات کے ناجائز استعمال اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی وغیرہ جیسے جرائم پر سزا سنائی گئی ہے، وہ نئے آغاز کی نوید بن سکتے ہیں کہ آیندہ کوئی ایسا کرتے ہوئے ہزار بار سوچے۔ مستقبل میں کیا ہو گا، اس کی ایک جھلک آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں دکھائی دیتی ہے۔ فیض حمید کے سیاسی کردار جس کے نتیجے میں ملک عدم استحکام سے دوچار ہوا، ان معاملات پر علیحدہ سے نمٹا جا رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فیض حمید کے خلاف آنے والا فیصلہ ایک نئی ابتدا ہے۔ کیا آنے والا دور ہمیں فیض صاحب کے سوال کا جواب فراہم کرے گا؟ اس پر کچھ کہنا آسان نہیں کیوں کہ نہ تاریخ کا سفر ہموار ہوتا ہے اور نہ اس قسم کے پیچیدہ معاملات اتنے آسان ہوتے ہیں کہ دو جمع دو چار کر لیا جائے لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ فیض حمید جیسے زور آور کا انجام تک پہنچنا معمولی نہیں، اس کے اثرات کثیر الجہتی ہوں گے ، اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ قوم کو اس کی منزل کے قریب لانے میں معاونت بھی کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف کی جس کے نتیجے میں فیض حمید کے کے خلاف ہوگی کب

پڑھیں:

نواز شریف حرام ووٹ لے کر قوم پر مسلط ہوئے، ان کو لانے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ حافظ نعیم الرحمان

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ نواز شریف 70 ہزار حرام کے ووٹ لے کر قوم پر مسلط ہوئے۔ ان کو اقتدار میں لانے والوں کا احتساب کون کرے گا۔امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظام کی تبدیلی کی تحریک نہ صرف حکمرانوں کا احتساب کرے گی۔ بلکہ انہیں فکس بھی کرے گی۔ گزشتہ انتخابات میں ن لیگ 17 سیٹیں بھی نہیں جیت سکی تھی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں مختلف نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ چاہے مارشل لا ہو یا جمہوریت۔ لیکن عوام کو کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ملی۔ ان کا الزام تھا کہ چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے پہلے سے گلی سڑی عدلیہ کو مزید تباہ کر دیا گیا۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی ہی نظام کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور ملک کے لیے واحد آپشن ہے۔ ’’بدل دو نظام‘‘ محض نعرہ نہیں بلکہ عوام کی دبی ہوئی خواہش ہے۔ جسے اب منظم تحریک کے ذریعے زبان دی جائے گی۔انہوں نے اعلان کیا کہ 21 دسمبر کو ڈویژنل دفاتر میں بلدیاتی ایکٹ کے خلاف دھرنے دیئے جائیں گے۔ جبکہ آئی پی پیز مافیا کے خلاف بھی بھرپور تحریک چلائی جائے گی۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ لاتعلق ہو جانا یا ملک چھوڑ کر باہر چلے جانا مسائل کا حل نہیں۔ ملک سے مایوس ہو کر ہجرت کرنا افسوسناک ہے۔ اصل ضرورت ملک کے اندر رہتے ہوئے نظام کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنے کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نواز شریف حرام ووٹ لے کر قوم پر مسلط ہوئے، ان کو لانے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ حافظ نعیم الرحمان
  • فیض حمید کی سزا تاریخی فیصلہ: سازشی عناصر کے حوصلے پست ہونگے، رانا تنویر
  • بیانیہ
  • فیض حمید کی سزا فوج کا اندرونی معاملہ ہے، ترجمان تحریکِ انصاف کا تبصرے سے گریز
  • فیض حمید کورٹ مارشل: وکیل علی اشفاق کن اہم نکات پر فیصلہ چیلنج کریں گے؟
  • روس ڈونباس پر کنٹرول چاہتا ہے لیکن اسے قبول نہیں کریں گے، زیلینسکی
  • فیض حمید کا نام تحریک انصاف کے طویل دھرنے میں سرگوشیوں میں آتا رہا
  • بانی پی ٹی آئی، فیض حمید فرعون تھے، مکافات عمل، فیصلہ تاریخی: بلاول
  • اسلام آباد سندھ کی تقسیم سے باز رہے ،عوامی تحریک