گلگت:

سن 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔

غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔

غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔

غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔

غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گلگت اسکاؤٹس غازی علی مدد نے بتایا کہ علی مدد نے انہوں نے

پڑھیں:

جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے تمام حلقوں سے انتخاباات میں حصہ لے گی، ڈاکٹر مشتاق خان

تقریب سے خطاب کرتے  ہوئے ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں قائم حکومتی ڈھانچہ عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے، آئے روز گلگت بلتستان اور چین بارڈر پر تاجروں سمیت، وکلاء اور دیگر ملازمین اپنے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر گلگت بلتستان کے امیر ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا کہ جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے ہر انتخابی حلقے سے بھرپور انداز سے انتخابات میں حصہ لے گی، ہمارے مسائل کے ذمہ دار نااہل قیادت اور موروثی سیاست ہے، جماعت اسلامی فرسودہ نظام اور روایتی قیادت کو تبدیل کر کے دم لے گی، جماعت اسلامی اقتدار میں آکر گلگت بلتستان میں میڈیکل کالج اور تینوں ڈویثرنز  میں خواتین اور نوجوانوں کے لیے الگ الگ جامعات قائم کرے گی، 50 ہزار نوجوانوں کو بنوقابل پروگرام کے تحت ہنرمند بنا کر باعزت روزگار کے قابل بنائے گی، اسلام آباد میں بیٹھے حکمران گلگت بلتستان  اور آزاد کشمیر میں کٹھ پتلیاں مسلط نہ کریں، تحریک آزادی کا تقاضا ہے کہ یہاں سیاسی مداخلت سے اجتناب کیا جائے،،کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی مضبوطی کا تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی کو اقتدار میں آنے سے نہ روکا جائے۔ ان خیالا ت کا اظہار انھوں نے یوم آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی راجہ جہانگیر خان، غلام محمد صفی، سرور گلگتی، نقیر شاہ اور دیگر قائدین نے خطاب کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے  ہوئے ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں قائم حکومتی ڈھانچہ عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے، آئے روز گلگت بلتستان اور چین بارڈر پر تاجروں سمیت، وکلاء اور دیگر ملازمین اپنے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے سڑکوں پر ہوتے ہیں، جس سے عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی، گلگت بلتستان کے عوام کو حکومت صحت اور تعلیم کی سہولیات مفت فراہم کرے۔ انھوں نے کہا 20ہزار میگاوٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ خطہ بجلی کی کمی وجہ سے بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہے، شدید گرمی میں بھی کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے جس سے روزمرہ کے معاملات متاثر ہو رہے ہیں، فوری طور پر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔داسو اور دیامر ڈیم کی تعمیر کا کام تیز کیا جائے، متاثرین ڈیم  کے مسائل حل کیے جائیں، آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کو آئینی طورپر باہم مربوط کیا جائے، گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر کی طرز کا نظام حکومت دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے دونوں آزاد خطوں کو دو الگ یونٹس کی شکل دی جائے۔ کشمیر کونسل کو اپر ہاؤس کا درجہ دے کر ریاست کے دونوں آزاد خطوں کی برابر نمائندگی دی جائے، صدر ایک ہو اور وزراء اعظم الگ الگ ہوں، ایک ٹرم میں صدر آزاد کشمیر سے ہو اور ایک ٹرم میں صدر گلگت بلتستان سے ہو، دونو ں کو باہم مربوط کر کے تحریک آزادی کشمیر کا موثر بیس کیمپ بنایا جائے۔ گلگت بلتستان میں کرپشن اقرباء پروری کا خاتمہ کر کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو فوری طور پر مکمل کیا جائے، منصوبے بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، متحرک اور بااختیار حکومتی ڈھانچہ ہی ان مسائل سے ریاست کو نکال سکتا ہے، استور ویلی روڈ جس کا ٹینڈر بھی ہو چکا ہے، التوا کا شکار ہے، اس پر فوری کام کا آغاز کیا جائے، ریاست کے دونوں آزاد خطوں کو باہم ملانے والی شاہراہ شونٹر کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے اور کام کا آغاز کیا جائے۔ وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔

متعلقہ مضامین

  • معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
  • جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے تمام حلقوں سے انتخاباات میں حصہ لے گی، ڈاکٹر مشتاق خان
  • ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام کانفرنس "آزادی اور ہماری زمہ داریاں"
  • معرکہ 1948، گلگت بلتستان کی آزادی کی داستان شجاعت غازی حوالدار بیکو کی زبانی
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب
  • گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کیلئے ایوان صدر میں اہم اجلاس طلب
  • ایس سی او ویژن 2025، گلگت بلتستان میں جدید ترین 100 آئی ٹی سیٹ اپس قائم