بی بی سی بحران کی زد میں
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دو سینیئر ڈائریکٹرز کا استعفیٰ صرف بی بی سی کے میڈیا ڈھانچے میں ایک وسیع بحران کا نمائندہ ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف ایک دستاویزی فلم یا خبر کی رپورٹنگ کا نہیں ہے بلکہ بی بی سی کی فیصلہ سازی، نگرانی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی بنیادوں سے منسلک ہے۔ ٹِم ڈیوی، بی بی سی نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جنرل آف نیوز نے اپنے الوداعی نوٹ میں لکھا "BBC کامل نہیں ہے اور اسے شفاف، صاف اور جوابدہ ہونا چاہیئے۔" ایک ایسا بیان جس نے واضح طور پر ذمہ داری قبول کی اور تنظیم کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ دریں اثناء، بی بی سی نیوز کی چیف ایگزیکٹیو ڈیبورا ٹیرنیس نے ایک بیان میں کہا کہ "یہ وقت ہے کہ لیڈر شپ کی نئی نسل کے لیے عوامی اعتماد کی بحالی کا سفر شروع کرنا چاہیئے۔" تحریر: اردشیر زابلی زادہ
بی بی سی نیوز نیٹ ورک کے دو سینیئر ایگزیکٹوز، ٹم ڈیوی (ڈائریکٹر جنرل) اور ڈیبورا ٹیرنیس (ہیڈ آف نیوز) کا بیک وقت استعفیٰ اس برطانوی میڈیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو نہ صرف بی بی سی کے اندرونی بحرانوں کا عکاس ہے بلکہ سچائی، غیر جانبداری اور عوامی اعتماد کے سامنے مغربی میڈیا کے ڈھانچے میں درپیش وسیع چیلنجوں کی بھی علامت ہے۔ یہ استعفے دو بڑے بحرانوں کے بعد آئے: پہلا، پینوراما دستاویزی فلم میں ہیرا پھیری کا انکشاف، جو اکتوبر 2024ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر نشر کی گئی تھی۔ اس دستاویزی فلم میں 6 جنوری 2021ء کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے کچھ حصوں میں ترمیم کی گئی تھی، جس میں ان پر کانگریس پر حملے کو براہ راست اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس تحریف پر ٹرمپ، قدامت پسند میڈیا اور یہاں تک کہ کچھ برطانوی ریگولیٹری اداروں کی طرف سے سخت تنقید کی گئی۔
دوسرا بحران بی بی سی کا غزہ کی جنگ کو کور کرنے کے طریقہ کار کے بارے تھا، جس نے بی بی سی کو اسرائیلی حکومت کی طرفداری کے الزامات کے حوالے سے بے نقاب کیا۔ اندرونی رپورٹس اور سابق ملازمین کے انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم کے اندر ایک منظم سیاسی تعصب اور غیر جانبداری کا فقدان تھا۔ بی بی سی کے کچھ صحافیوں نے عوامی طور پر کہا کہ الفاظ، تصاویر اور خبروں کے انتخاب کے لئے برطانوی حکومت اور نیٹو کے سرکاری موقف سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمارے اوپر دباؤ تھا۔ اس دوران، کلاسک میڈیا تھیوریز جیسے سالینس، نیوز گیٹ کیپنگ اور ہیجمونی جیسے عوامل اس بحران کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک مناسب ٹول فراہم کرتے ہیں۔ سیلینس تھیوری یہ بتاتی ہے کہ میڈیا مخصوص عنوانات کا انتخاب کرکے انہیں پبلک کے سامنے کیسے پیش کرتا ہے، یعنی رائے عامہ کی رہنمائی کیسے کرنی ہے۔
بی بی سی نے خاص طور پر غزہ اور اسلامی ممالک کے بیانیے کو منتخب نیز اجاگر کرکے مخاطبین کے تاثرات کو براہ راست متاثر کیا۔ نیوز گیٹ کیپنگ کا نظریہ خبروں کے مواد کو منتخب کرنے، ہٹانے یا تبدیل کرنے میں ایڈیٹرز اور مینیجرز کے کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس معاملے میں گیٹ کیپنگ کے فیصلے پیشہ ورانہ غیر جانبداری کے بجائے سیاسی مفادات یا بیرونی دباؤ سے متاثر تھے۔ Gramsci کا نظریہ بالادستی یہ ثابت کرتا ہے کہ میڈیا عملی طور پر غالب گفتگو اور حکمران طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ بی بی سی، جس نے ہمیشہ آزادی اور غیر جانبداری کا دعویٰ کیا ہے، عملی میدان خاص طور پر سیاسی بحرانوں میں غیر جانبداری کے دامن کو چھوڑ دیتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ دیگ کا ایک چاول چیک کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔
دو سینیئر ڈائریکٹرز کا استعفیٰ صرف بی بی سی کے میڈیا ڈھانچے میں ایک وسیع بحران کا نمائندہ ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف ایک دستاویزی فلم یا خبر کی رپورٹنگ کا نہیں ہے بلکہ بی بی سی کی فیصلہ سازی، نگرانی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی بنیادوں سے منسلک ہے۔ ٹِم ڈیوی، بی بی سی نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جنرل آف نیوز نے اپنے الوداعی نوٹ میں لکھا "BBC کامل نہیں ہے اور اسے شفاف، صاف اور جوابدہ ہونا چاہیئے۔" ایک ایسا بیان جس نے واضح طور پر ذمہ داری قبول کی اور تنظیم کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ دریں اثناء، بی بی سی نیوز کی چیف ایگزیکٹیو ڈیبورا ٹیرنیس نے ایک بیان میں کہا کہ "یہ وقت ہے کہ لیڈر شپ کی نئی نسل کے لیے عوامی اعتماد کی بحالی کا سفر شروع کرنا چاہیئے۔"
استعفے ایسے وقت آئے، جب بی بی سی کے داخلی پولز نے ظاہر کیا کہ 2025ء تک نیٹ ورک کے نیوز ڈپارٹمنٹ پر مخاطبین کا اعتماد دو دہائیوں میں اپنی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ بی بی سی کو اب اعتماد کی تعمیر نو اور اپنے نگرانی کے ڈھانچے میں اصلاحات کے سنگین امتحان کا سامنا ہے۔ گیٹ کیپنگ کے عمل کا جائزہ لینا، میڈیا کی اخلاقیات کو رواج دینا، خبروں کے ذرائع کو شفاف بنانا اور غیر جانبداری کے تصور کی نئی تعریف کرنا، ان چند اہم اقدامات میں سے ہیں، جن پر بی بی سی نیٹ ورک کو جلد از جلد سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں میڈیا پہلے سے کہیں زیادہ عوامی جانچ پڑتال اور فوری تنقید کا نشانہ بنتا ہے، بی بی سی ادارے کو یہ ثابت کرنا چاہیئے کہ اس نے نہ صرف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے، بلکہ وہ ان کو درست کرنے کا حقیقی ارادہ بھی رکھتا ہے۔ بصورت دیگر، اس طرح کے حملوں کے اگلے دور میں اس میڈیا کی ساکھ کو ناقابل تلافی دھچکا لگ سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دستاویزی فلم کرنا چاہیئے ڈھانچے میں بی بی سی کے نیٹ ورک کے کرنے کے نہیں ہے کرتا ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔
شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟
یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔
شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔
شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز
شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔
شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔
فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔
کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔
امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان
امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔
شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟
ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔
حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟
ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔
تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔