ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک)مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ایک بار پھر خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، بین الاقوامی نگرانی ختم ہو چکی ہے، اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ تہران خفیہ طور پر افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے جو کم از کم 11 ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ایرانی ماہر کے مطابق ایران 2 ہزار میزائل ایک ساتھ فائر کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے۔دونوں فریق اپنی فوجی تیاریوں میں مصروف ہیں، جب کہ عرب دنیا نئی جنگ کے خدشے سے بچنے کے لیے محتاط توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر سفارتی جمود نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک بار پھر غیر یقینی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ماہرین اس صورتِ حال کو خطرناک تعطل قرار دیتے ہیں جو کسی بھی وقت نئی جنگ میں بدل سکتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک اس وقت ایران کے جوہری پروگرام سے زیادہ اپنی فوری سلامتی اور غزہ کی صورتِ حال پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ایران کے جوہری خطرے کے باوجود، سعودی عرب نے رواں سال ستمبر میں پاکستان کے ساتھ ایک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایران ماہر علی واعظ کے مطابق، ایران نے پچھلی اسرائیلی کارروائیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اب کی بار محدود ردِعمل کے بجائے بڑے پیمانے پر جوابی وار کی تیاری کر رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل فیکٹریاں 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں اور تہران آئندہ جنگ میں دو ہزار میزائل ایک ساتھ فائر کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے جو پچھلے حملوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، اسرائیل اب بھی سمجھتا ہے کہ کام ادھورا ہے، لہٰذا ایران کو یقین ہے کہ اگلا مرحلہ جلد آنے والا ہے۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی خارجہ پالیسی ڈائریکٹر سوزین ملونی کہتی ہیں کہ ایران فی الحال 2003 کے بعد سے اپنی سب سے کمزور معاشی اور سفارتی پوزیشن پر ہے، مگر اس کمزوری نے اسے بے اثر نہیں بنایا۔ان کے مطابق، ایسا ایران جو خود کو محصور اور دباؤ میں محسوس کرے، وہ زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر سکتا ہے۔ سینٹر فار امریکن پروگریس اور رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ایچ اے ہیلیئر کے نزدیک اسرائیل اب سفارتی حل پر اعتماد نہیں کرتا۔ان کا کہنا ہے، مجھے شبہ نہیں کہ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام محض بات چیت سے نہیں روکا جا سکتا۔ جیسے ہی ایران ایک مخصوص حد عبور کرے گا، اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا۔چیتھم ہاؤس کی ماہر وکیل کے مطابق، خلیجی ریاستیں اس وقت عرب ممالک بھی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ اسرائیل پر کچھ پابندیاں لگوائی جا سکیں، جو غزہ، حماس اور حزب اللہ کو تباہ کرنے اور ایران کو نقصان پہنچانے کے بعد ایک علاقائی طاقت بننے کے عزائم رکھتا ہے۔عرب حکام ایران اور امریکہ کے درمیان نئے جوہری مذاکرات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مگر فی الحال زیادہ امید نہیں رکھتے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کو کہا کہ امریکہ کی ایران دشمنی “گہری اور دیرپا” ہے۔انہوں نے 4 نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی سالگرہ کے موقع پر خطاب میں کہا:”امریکہ کی متکبر فطرت کسی چیز کو قبول نہیں کرتی سوائے ہمارے مکمل سرنڈر کے۔”ان کے یہ الفاظ امریکہ کے ساتھ کسی بھی نئے جوہری مذاکرات کے راستے میں رکاوٹ سمجھے جا رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ واشنگٹن نے “ناقابلِ قبول اور ناممکن شرائط” پیش کی ہیں — جن میں براہِ راست مذاکرات اور یورینیم کی افزودگی کا مکمل، قابلِ تصدیق خاتمہ شامل ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایران کے جوہری پروگرام کر رہا ہے کے مطابق
پڑھیں:
ایران آئندہ جنگ میں بیک وقت 2 ہزار میزائل فائر کریگا، امریکی میڈیا کا انتباہ
معروف امریکی اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر دوبارہ حملہ کرنیکی کوشش کی تو تہران کا ردعمل بہت زیادہ سخت ہو گا اور وہ اسرائیل پر بیک وقت 2 ہزار میزائل داغے گا اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں ایران اور قابض صیہونی رژیم کے درمیان موجودہ کشیدہ صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اس حوالے سے نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ مذاکرات کے بغیر، نگرانی کے بغیر اور ایران کے جوہری ذخیروں کے حجم کے بارے کسی بھی قسم کی شفافیت کے بغیر، خطے میں بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک اور جنگ ناگزیر ہے جبکہ اس جنگ کا آغاز، صرف وقت کی بات ہے! اپنی خصوصی رپورٹ میں امریکی اخبار نے لکھا کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ میں نے ایران کی افزودگی کی صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے، تاہم ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے "انٹرنیشنل کرائسز گروپ" میں ایران پروجیکٹ کے ڈائریکٹر سے نقل کرتے ہوئے لکھا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر دوبارہ حملہ کیا تو تہران کا ردعمل جون کے مقابلے میں بہت زیادہ سخت ہو گا۔ امریکی اخبار نے خبردار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ایرانی حکام نے اعلان کیا ہے کہ میزائل بنانے والی فیکٹریاں 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں اور یہ کہ مزید ایک اور جنگ کی صورت میں، ایران اسرائیل کے دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے لئے بیک وقت 2 ہزار میزائل فائر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، نہ کہ گذشتہ جنگ کی طرح 12 دنوں میں صرف 500 میزائل!