ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایرانی قوم نے ایران اور امریکہ کے درمیان عدم مفاہمت کیوجہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا ہے اور اسی بنیاد پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اس ملک کی زیادتیوں کیخلاف مزاحمت اور جدوجہد کی پالیسی اور نقطہ نظر کا انتخاب کیا ہے۔ قومی اتحاد اور سماجی یکجہتی کی روشنی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی رہنمائی میں ملک کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش اور محنت سے ایک مضبوط ایران کی تعمیر سے تمام مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس راستے پر ایمان اور روحانیت کی طاقت پر بھروسہ نیز اللہ تعالیٰ کی مدد پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تحریر: یداللہ جوانی
بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں کسی بھی وقت بدل سکتی ہے۔ اس فارمولے کی بنیاد پر ایران میں رہنے والے بعض افراد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اختلافات کو ختم کیا جانا چاہیئے اور اس ملک کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ملک کے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع معاہدہ ہونا چاہیئے۔ اس نظریہ اور مفروضے کے برعکس ایک اور قول یہ ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر ایران اور امریکہ کے درمیان مصالحت ممکن نہیں ہے۔ اس نظریئے میں سب سے آگے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے سیاسی اور گروہی نظریات سے بالاتر ہو کر سمجھنا چاہیئے کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے اور کون سا غلط ہے۔؟
اس معاملے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے، جب قومی مفادات کے تناظر میں ہر فریق کے اسباب اور نکات پر غور کیا جائے۔ مثال کے طور پر پہلا نظریہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کے ہر طرح کے دباؤ اور پابندیوں کی وجہ سے ایران کے لیے ترقی کا راستہ بند ہوگیا ہے اور اس ملک کی ترقی کا واحد راستہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے بارے میں امام خمینی (رح) کے اسی نقطہ نظر کے ساتھ تاکید کی ہے کہ ایران کی حقیقی ترقی کی شرط یہ ہے کہ امریکہ آگے نہ آئےو کیونکہ امریکہ ایران کی ترقی کا سخت مخالف ہے۔ سیاسی عقلیت کی کسوٹی پر اور قومی مفادات کے اشاریہ کی بنیاد پر ان دو آراء کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
رہبر معظم کے نقطہ نظر سے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مکتب، روحانیت، انصاف اور عقلیت کی تین جہتوں کا حامل ہے۔ درحقیقت امریکہ کے بارے میں امام کا نظریہ جو یہ کہتا ہے کہ امریکہ بڑا شیطان ہے اور ہم امریکہ سے تعلقات نہیں چاہتے ہیں، ایک مضبوط دلیل پر مبنی ہے۔ امام کا استدلال یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ہر ملک دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ امام کا خیال تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات نہ صرف ایرانی قوم کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں، بلکہ یہ تعلق ہمارے ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک مثال کے ساتھ واضح کیا کہ اس تعلق سے ایران کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ رشتہ بھیڑیئے اور بھیڑ کا رشتہ ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ بھیڑ کے بھیڑیئے کے قریب آتے ہی کیا ہوگا اور کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان ہوگا۔ یہ مثال عقلی دلیل پر مبنی ہے۔ بھیڑیئے کی دلچسپی بھیڑوں کی جان لینے میں ہے۔
امریکہ ایک متکبر مزاج ملک ہے اور وہ دوسروں پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ امریکہ دنیا کی غالب طاقت بن کر دوسروں کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ اس ملک کے قائدین پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایران کو دنیا پر امریکہ کے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم کے اہم مفادات اور فطری حقوق جیسے سیاسی آزادی، قومی وقار، علاقائی سالمیت کا تحفظ اور امریکہ کے غلبہ اور تسلط پسندانہ مفادات کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ مفادات کا یہ تصادم حکمت عملی کی نوعیت کا نہیں ہے، جسے دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات سٹریٹجک اور متضاد مفادات کی سطح پر فطری ہیں۔
گذشتہ 46 سالوں کے دوران امریکہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایرانی قوم کے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے کم کسی چیز پر مطمئن نہیں ہوگا۔ 12 روزہ جنگ کے پہلے ہی دن ٹرمپ نے اس جنگ میں فتح کا تصور کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ بنیادی طور پر امریکہ ایران جیسے ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کے حامل ایک آزاد ملک کو برداشت نہیں کرتا، وہ بھی ایسا ملک جس کا ترقی پذیر جغرافیائی محل وقوع اتنا اہم اور اسٹریٹجک ہو۔ ایرانی قوم کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کی تمام تر وجوہات میں سب سے اہم اسلامی انقلاب سے اس کی دشمنی ہے۔ یہ دشمنی امریکہ کی زیادتیوں میں پنہاں ہے۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم کو طاقت کے حصول کی راہ پر ہوشیاری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے۔ ایک مضبوط ایران کی تعمیر کا نظریہ، جس پر کئی سالوں سے رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیا اور تاکید کی ہے، اسی مقصد کے لیے ہے۔
ایرانی قوم کا روشن مستقبل ایرانی قوم کی مضبوطی پر منحصر ہے۔ ایران اور ایرانیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ تسلط پسند امریکہ کے خلاف مضبوط اور ہمہ گیر پیشرفت کریں۔ امریکہ کی غنڈہ گردی اور جبر کا مقابلہ، مضبوط ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ملک کے مسائل مذاکرات، مفاہمت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ذریعے حل کرنے کی سوچ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایرانی قوم عقلیت سے کام لیتی ہے اور خارجہ پالیسی میں قومی مفادات کے اشاریہ کے ساتھ عقلیت اور حساب کتاب کی بنیاد پر اپنے طرز عمل کو منظم کرتی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے تاریخی تجربات سے سبق حاصل کرنے کا بھی خیال رکھتی ہے۔ انگلستان کے شر سے چھٹکارا پانے کے لیے مصدق کا امریکہ سے رابطہ کرنے کا تجربہ، جس کی وجہ سے بالآخر اینگلو امریکن بغاوت کے ذریعے ڈاکٹر محمد مصدق کی قومی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ تجربہ ایرانی قوم کے سامنے ہے۔
یا کرنل قذافی کے دور میں لیبیا کا تجربہ، جس نے مغرب اور امریکیوں پر بھروسہ کرکے ملک کو زوال اور تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ سوڈان اور عمر البشیر کے امریکہ کے قریب پہنچنے میں غلط حساب کتاب کا تجربہ، جس کا نتیجہ سوڈان کی تقسیم اور تباہ کن خانہ جنگیوں کی صورت میں نکلا۔ ایرانی قوم نے ایران اور امریکہ کے درمیان عدم مفاہمت کی وجہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا ہے اور اسی بنیاد پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زیادتیوں کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کی پالیسی اور نقطہ نظر کا انتخاب کیا ہے۔ قومی اتحاد اور سماجی یکجہتی کی روشنی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی رہنمائی میں ملک کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش اور محنت سے ایک مضبوط ایران کی تعمیر سے تمام مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس راستے پر ایمان اور روحانیت کی طاقت پر بھروسہ نیز اللہ تعالیٰ کی مدد پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے، جو مومنوں کو سکون بخشتا ہے: "ولا تهنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے ساتھ تعلقات امریکہ کے ساتھ قومی مفادات کے انقلاب اسلامی اور امریکہ کے ایرانی قوم کے ایران اور کے درمیان کہ امریکہ ایک مضبوط ہے اور اس کہ ایران کے ذریعے بنیاد پر ایران کی کی ترقی ملک کے اس ملک ملک کی کے لیے
پڑھیں:
ایران میں اقبال ؒ شناسی
اسلام ٹائمز: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، انکی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنیوالے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔ تحریر: توقیر کھرل
شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی فکر اور شاعری نے نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں طبع آزمائی کی اور ہر زبان کو اپنے بلند افکار کی بدولت اعلیٰ مقام عطا کیا۔ شاعری کے لیے انہوں نے خاص طور پر اردو اور فارسی کو منتخب کیا، جو ان کی فکری گہرائی اور روحانی وسعت کی غماز ہے۔ علامہ اقبال ایران میں ''اقبال لاہوری'' کے نام سے معروف ہیں اور ان کی شاعری کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ فارسی میں ہے، جو انہیں ایرانی ادبی اور فکری ورثے کا ناگزیر جزو بناتا ہے۔ اقبال نے کبھی ایران کا دورہ نہیں کیا، مگر ان کی فکر نے 1979ء کے اسلامی انقلاب کو گہرا اثر دیا اور آج بھی ایرانی دانشوروں، طلباء اور عوام میں مقبول ہیں۔
انہوں نے فارسی کو اپنے فلسفیانہ اور روحانی افکار کے اظہار کے لیے منتخب کیا، کیونکہ یہ زبان ان کے خیالات کی گہرائی کو بہتر طور پر بیان کرسکتی تھی۔ ایرانی دانشور اقبال کو مولانا رومی کے بعد فارسی کا سب سے عظیم شاعر قرار دیتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایران کو اسلامی اتحاد کا مرکز گردانتے ہیں، جیسا کہ اقبال نے فرمایا: ''اگر تہران مشرق کا جنیوا بن جائے تو دنیا کی حالت بدل جائے گی۔'' ایران میں اقبال کی شاعری کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ''زبور عجم'' جو انقلاب سے قبل نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنی۔ ایک زمانے میں ایران بھر میں کوئی ''خیابان اقبال'' موجود نہ تھا اور اقبال کی نظم ''جوانان عجم'' کی آواز پر لبیک کہنے والے کم تھے، مگر اقبال خود آگاہ تھے کہ ان کی صدا ایک دن ضرور گونجے گی۔
آج ایران کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں، جہاں اقبال کے نام سے منسوب شاہراہ نہ ہو۔ مشہد میں وزارت تعلیم کے تحت چلنے والا کالج اقبال کے نام پر ہے، جبکہ تہران کی شاہراہ ولی عصر پر ''اقبال لاہوری سٹریٹ'' واقع ہے، جہاں استعمال شدہ کتابوں کی دکانوں میں اقبال کی کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ تہران یونیورسٹی اور فردوسی یونیورسٹی مشہد میں اقبال پر تحقیقاتی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان علمی تعاون کی روشن مثال ہیں۔ پاکستان اور ایران نہ صرف مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر جڑے ہوئے ہیں، بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال سے گہری عقیدت بھی ان کا مشترکہ ورثہ ہے۔ علامہ اقبال دونوں اسلامی جمہوریاؤں کے درمیان تاریخی اور فکری روابط کا ایک اہم باب ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے اور انہیں ''مرشد'' کا درجہ دیا ہے، وہ اقبال کو ''مشرق کا بلند ستارہ'' قرار دیتے ہیں، جو ایرانی عوام میں ان کی قدر و منزلت کی عکاسی کرتا ہے۔
علامہ اقبال کو ایران اور اس کی ثقافت سے گہرا لگاؤ تھا، انہوں نے اپنی شاعری میں ہر خوبصورت چیز کو ایران سے تشبیہ دی اور کشمیر کو ''ایران صغیر'' کہہ کر اس کی خوبصورتی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تہران میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی اقبال کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے اقبال کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کا فارسی کلام بھی میرے نزدیک شعری معجزات میں سے ہے۔ ہمارے ادب کی تاریخ میں فارسی میں شعر کہنے والے غیر ایرانی بہت زیادہ ہیں، لیکن کسی کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی، جو فارسی میں شعر کہنے میں اقبال کی خصوصیات کا حامل ہو۔ اقبال کی مادری زبان فارسی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ پائے کی فارسی شاعری کی، جو نہ صرف عوامی زبان سے بلند تھی بلکہ ادبی حلقوں کی زبان بھی تھی۔ ایرانی عوام نے اقبال کی شاعری کو بے حد پسند کیا اور اس کی پذیرائی کی۔
ایران میں اقبال شناسی کا سلسلہ دونوں برادر اسلامی ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان ثقافتی اور فکری رابطوں کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ اس روایت کی بنیاد جامعہ عثمانیہ کے شعبہ ایرانیات کے استاد سید محمد علی داعی الاسلام نے رکھی، جنہوں نے لیکچرز اور مقالات پر مبنی کتاب ''اقبال و شعر فارسی'' تحریر کی۔ اسی طرح سید محیط طباطبائی نے 1945ء میں اپنے مجلے کا ایک خصوصی اقبال نمبر شائع کیا، جو اقبال کی فکر کو ایرانی حلقوں میں متعارف کرانے کا اہم ذریعہ بنا۔ مرحوم پروفیسر سعید نفیسی نے فارسی میں اقبال شناسی کی بنیادوں کو مزید پختہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، جبکہ ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری نے مجلہ سخن میں ایک گراں قدر مقالہ لکھ کر اس روایت کو وسعت بخشی۔ 1951ء میں ایران کے مجلہ ''دانش'' نے ''اقبال نامہ'' کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جس میں 1950ء سے 1951ء کے دوران یوم اقبال کے موقع پر پڑھے گئے مقالات اور نظمیں شامل تھیں، جو اقبال کی شاعری اور فلسفے کی ایرانی معاشرے میں گونج کی عکاس تھیں۔
1970ء میں ایران کے مذہبی ادارے ''حسینہ ارشاد'' نے اقبال کی یاد میں ایک یادگار کانفرنس کا اہتمام کیا، جہاں تقاریر، مضامین اور شاعری کے ذریعے اقبال کے افکار کو اجاگر کیا گیا۔ 1973ء میں تہران یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر فضل اللہ نے ''محمد اقبال'' کے عنوان سے ایک مختصر مگر مدلل مقالہ تحریر کیا، جو محض پچاس صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود اقبال شناسی کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ 1975ء میں فخرالدین حجازی نے تہران سے ''سرود اقبال'' نامی کتاب شائع کی، جو اقبال کی شاعری کی موسیقی اور لسانی خوبصورتی کو نمایاں کرتی ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی اقبال شناسی کے میدان میں ایک تابناک ستارہ ہیں، جو اقبال کے جلسوں اور کانفرنسوں میں پیش پیش رہتے اور ان کے خیالات کی ترویج میں دیانتداری کا مظاہرہ کرتے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، ان کی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔
اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، ان کی شاعری کے تقریباً بارہ ہزار اشعار میں سے سات ہزار فارسی میں ہیں، جو ان کے دس شعری مجموعوں میں سے چھ پر مشتمل ہیں۔ یہ انتخاب ان کی ایرانی تہذیب و فلسفہ سے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اور فلسفے نے ایرانی معاشرے پر گہری چھاپ چھوڑی، جہاں متعدد سڑکیں، لائبریریاں، جامعات اور ادارے ان کے نام پر ہیں، جو ان کے نظریات کی قدر کے غماز ہیں۔ یہ سب پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ روابط کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ ہیں، جو قومی اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔