اسلام ٹائمز: ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔ تحریر: سید عدنان زیدی

دنیا ایک نئے سیاسی و نظریاتی موڑ پر کھڑی ہے۔ ایران، سوڈان، حزب اللہ اور نیویارک۔۔۔۔ بظاہر چار مختلف محاذ، مگر ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ چار خبریں اس ہفتے عالمی سیاست کا رخ بدلنے کی طرف واضح اشار ہ کر رہی ہیں، جہاں اصول، غیرت اور خود مختاری کے تصورات دوبارہ زندہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں رہبرِ مسلمین کی اُن شرائط پر، جو انہوں نے ایران و امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے عائد کیں، جنہوں نے ایران کا اصولی مؤقف پوری دنیا پر واضح کر دیا۔ رہبرِ مسلمین نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے تین واضح اور اصولی شرائط رکھ دیں: 1۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت مکمل طور پر ختم کرے۔ 2۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے بند کرے۔ 3۔ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔

یہ صرف سفارتی نہیں بلکہ نظریاتی اعلان ہے کہ طاقت مفاد سے نہیں بلکہ اصول سے پیدا ہوتی ہے۔ ایران کا یہ پیغام دراصل مشرقِ وسطیٰ میں نئی خود مختار پالیسی کا آغاز ہے، جہاں کسی بھی طاقت کو "دباؤ" کے بجائے "برابری" کی سطح پر بات کرنی ہوگی۔ ایران نے لبنان کی حمایت پر مبنی اپنے بیانیے میں اسرائیل کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر لبنان میں حزب اللہ پر حملہ کیا گیا تو یہ جنگ صرف لبنان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایران اس جنگ میں شامل ہو کر حزب اللہ اور لبنان کا مکمل دفاع کرے گا، یہ وارننگ تین سمتوں میں گئی:
اسرائیل کے لیے: اگر حملہ کرو گے تو کئی محاذ کھل جائیں گے۔
امریکہ کے لیے: ایران اب صرف دفاع نہیں بلکہ پیش قدمی کی پالیسی پر گامزن ہے۔
عرب دنیا کے لیے: ایران خطے کی قیادت کے لیے تیار ہے۔

یہ پیغام ظاہر کرتا ہے کہ ایران اب ردِعمل نہیں بلکہ عمل کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران اب طاقت کے ساتھ ہر منفی قوت کا سر کچلنے کے لیے آمادہ ہے اور وقت سے پہلے ہر جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ 12 روزہ جنگ میں ایران نے ثابت کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایرانی میزائلوں نے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے امریکہ و اسرائیل کے دعووں کو کس طرح کھوکھلا کر دیا اور انہیں جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ قارئینِ محترم! خطے کی طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے، جہاں ایران ایک مضبوط جغرافیائی و نظریاتی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسی دوران افریقہ کے ملک سوڈان کے وزیرِاعظم کامل ادریس نے ایک بڑا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سوڈان کے اندر مسلط کردہ جارحیت کے خلاف مزاحمت کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔

واضح رہے کہ مصر اور ایران کے تعاون سے کئی مقامات پر سوڈانی مزاحمت کاروں نے دہشت گرد گروہوں کے قافلوں کو تباہ کیا ہے۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے، جو دارفور اور فاشر میں شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث سمجھا جاتا ہے اور جس کی مکمل پشت پناہی امریکہ اور متحدہ عرب امارات کر رہے ہیں۔ معاملہ وہی پرانا ہے، معدنیات کا، مفاد کا اور انسانی جانوں کی قیمت پر تسلط کا۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے اقوامِ متحدہ کی امن فورس کی تعیناتی کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ "بین الاقوامی افواج سوڈان کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہیں۔" یعنی سوڈان انصاف بھی چاہتا ہے، لیکن اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ افریقہ میں ایک نئی فکری لہر اور مزاحمتی سوچ کا آغاز ہے، جہاں مقامی قیادت عالمی طاقتوں کے اثر سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکہ جو تہران میں رجیم چینج کا خواب دیکھ رہا تھا، خود نیویارک کے اندر رجیم چینج کی فضا کا شکار ہے۔ ٹرمپ اور اسرائیل دونوں ہی اپنی حمایت کے گراف میں زبردست گراوٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیویارک کے میئر کے انتخابات میں زہران ممدانی کی جیت نے سیاسی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جیت صرف ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی ہے۔ تین چیزیں اب واضح ہوچکی ہیں۔ 1۔ ٹرمپ ازم کی مقبولیت زوال کا شکار ہے۔ 2۔ اسرائیل مخالف بیانیہ امریکی سیاست میں جگہ بنا رہا ہے۔ 3۔ نئی نسل انسانی بنیادوں پر سیاست چاہتی ہے، اندھی وفاداری نہیں۔ اگرچہ زہران ممدانی مذہبی یا نظریاتی سیاستدان نہیں، لیکن ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام بھی اب انصاف پر مبنی سیاست چاہتے ہیں۔

یہ چاروں واقعات بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن اصل میں ایک نئی عالمی لہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خود مختاری نیویارک کے نہیں بلکہ ایران نے ایک نئے رہے ہیں دنیا اب کرے گا کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

خواب دیکھنے والے کہاں ہیں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251109-03-7

 

شاہنواز فاروقی

آپ کا کیا خیال ہے دنیا خواب سے بنتی ہے یا حقیقت سے؟ اس سے پہلے کہ آپ اس سوال کا جواب دیں ہمارا ایک شعر سن لیجیے۔ عرض کیا ہے۔

دنیا یہ حقیقت سے بنی ہے نہ بنے گی

دوچار سہی خواب بھی ہوں گے اسے درکار

یہ شعر بتا رہا ہے کہ دنیا حقیقت سے نہیں خواب سے بنتی ہے۔ خواب کا ایک نام ’’مثالیہ‘‘ ہے۔ خواب کا ایک نام ’’Ideal‘‘ ہے۔ اس دنیا میں جتنی خوبصورتی ہے جتنی معنویت ہے جتنی گہرائی ہے وہ خواب کا حاصل ہے۔ مثالیے کا کرشمہ ہے، Ideal کا نتیجہ ہے ان باتوں سے یہاں ہمیں بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کا ایک انٹرویو یاد آگیا۔ انٹرویو کرنے والے نے اندرا گاندھی سے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے والد پنڈت جواہر لعل نہرو میں کیا فرق ہے۔ اندرا گاندھی نے اس کا خوبصورت مگر مختصر جواب دیا۔ انہوں نے کہا میرے والد ایک خواب دیکھنے والے تھے جبکہ میں ایک حقیقت پسند شخصیت ہوں۔ اندرا گاندھی کی بات بالکل درست تھی نہرو واقعتا خواب دیکھنے والے تھے۔ نہرو کا خواب یہ تھا کہ بھارت ایک بڑی صنعتی و معاشی طاقت بن کر اُبھرے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اقتدار کے 17 برسوں میں بھارت میں بھاری صنعتوں کا جال بچھادیا۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں بھارتی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی خواب پسندی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ ہندو ہونے کے باوجود اردو سے محبت کرتے تھے۔ وہ ہندی کے بجائے اردو میں تقریر کرتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ ہندوئوں کی زبان ہندی ہے آپ ہندی میں تقریر کیا کریں۔ نہرو نے کچھ دن ایسا کیا مگر جلد ہی اس سلسلے کو ترک کرکے دوبارہ اردو کی طرف آگئے۔ وہ اردو کو ’’ہند اسلامی تہذیب‘‘ کے ملاپ کا حاصل سمجھتے تھے۔ بھارت کا آئین بنا تو آئینی ساز افراد اس کا مسودہ لے کر نہرو کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آئین کے مسودے میں بھارت کی قومی زبانوں کی ایک فہرست تھی۔ نہرو نے دیکھا اس فہرست میں اردو کا نام نہیں ہے۔ نہرو نے آئین سازوں سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کسی کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ نہرو نے کہا میری مادری زبان اردو ہے۔ چنانچہ آئین سازوں کو بھارتی زبانوں میں اردو کو شامل کرنا پڑا۔ پاکستان میں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پاکستان لے کر گیا۔ ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کو نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے۔ یہ نہرو تھے جنہوں نے ہندوستان اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر ’’نہرو لیاقت پیکٹ‘‘ پر دستخط کیے۔ بی جے پی کا کوئی اور رہنما ہوتا تو وہ ان تمام کاموں میں ایک کام بھی نہ کرتا۔ اس لیے کہ بی جے پی اور اس کی پشت پر موجود آر ایس ایس ’’خواب پرست‘‘ نہیں بلکہ ’’حقیقت پسند‘‘ ہیں۔

قائداعظم کی پوری سوانحی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بھی ایک خواب دیکھنے والے تھے۔ ایک زمانے میں ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ یا ایک قومی نظریہ ان کا خواب تھا، مگر جلد ہی ان پر اس خواب کی معنویت آشکار ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے دو قومی نظریے کا پرچم تھام لیا۔ انہوں نے جب پاکستان کا نعرہ فضا میں بلند کیا تو پاکستان اس وقت صرف ایک ’’خواب‘‘ تھا، صرف ایک امکان، صرف ایک مثالیہ، صرف ایک Ideal مگر قائداعظم نے اس خواب کے پودے کو اپنے خون دل سے سینچا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے تناور درخت بنادیا۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹیلنے ولپرٹ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدلا ہے۔ اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ تبدیل کیا ہے اور ایسا تو شاید کوئی بھی نہیں ہوا جس نے قومی ریاست تخلیق کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر قائداعظم خواب دیکھنے والے نہ ہوتے تو وہ ان میں ایک کام بھی نہیں کرسکتے تھے۔

بلاشبہ اقبال بیسویں صدی کے ایک بڑے خواب دیکھنے والے تھے۔ اقبال کا مردِ مومن ایک خواب ہے۔ ایک مثالیہ ہے۔ ایک Ideal ہے۔ اقبال کا شاہین ایک خواب ہے۔ ایک مثالیہ ہے ایک Ideal ہے۔ اقبال کا تصور خودی ایک خواب ہے، ایک مثالیہ ہے، ایک Ideal ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال مومن کے بارے میں کیا فرما گئے ہیں۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

قہاری و غفاری و قدوسی و جبرت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

ہمسایۂ جبریلِ امیں بندئہ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

٭٭

تقدیر کے پابند جمادات و نباتات

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

٭٭

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

٭٭

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اقبال نے شاہین کے حوالے سے فرمایا ہے۔

ترا جوہر ہے نْوری، پاک ہے تْو

فروغِ دیدۂ افلاک ہے تْو

ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حْور

کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے تْو!

٭٭

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

اقبال نے خودی کے سلسلے میں فرمایا ہے۔

خودی سے اس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں

یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا

٭٭

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی

کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

٭٭

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

مولانا مودودی بھی بیسویں صدی کے بڑے خواب دیکھنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے ایک طرف اسلام کے عالمگیر غلبے کا خواب دیکھا۔ اور دوسری طرف انہوں نے باطل نظاموں کی شکست وریخت کا خواب دیکھا۔ انہوں نے فرمایا ایک وقت آئے گا کہ سوشلزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور ایک وقت آئے گا جب لبرل ازم لندن اور پیرس میں لرزہ براندام ہوگا۔ ان پیشگوئیوں میں سے مولانا کی ایک پیشگوئی صحیح ثابت ہوچکی ہے اور دوسری پیشگوئی بھی ان شاء اللہ آج نہیں تو کل صحیح ثابت ہوگی۔ مولانا سے پہلے علما کی عظیم اکثریت اس بات پر ایمان لے آئی تھی کہ بلاشبہ اسلام حق ہے مگر اب ریاست و سیاست اور معیشت اور آرٹ سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ مولانا نے اس کے مقابلے پر اس خیال کو عام کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، آج مسلم دنیا کے لوگوں کی عظیم اکثریت مولانا کے خیال پر ایمان لے آئی ہے اور اب ساری دنیا کے مسلمان اسلام کو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات سمجھتے ہیں۔ مولانا کے غلبہ اسلام کے خواب نے مولانا سے 100 سے زائد کتب تحریر کروائیں ان سے قرآن کی تفسیر لکھوائی۔

بلاشبہ سوشلزم ایک باطل نظریہ تھا۔ مگر ’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ بھی ایک خواب تھا جسے لینن نے روس میں حقیقت بنا کر دکھادیا۔ سوشلسٹ انقلاب کا خواب روس تک محدود نہ رہا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ بلاشبہ سوشلسٹ انقلاب کا خواب ایک مادی خواب تھا چنانچہ اس خواب نے آدھی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ بادشاہتیں منہدم ہوگئیں، جاگیرداری ماضی کا حصہ بن گئیں، کروڑوں لوگوں کے لیے تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں مفت ہوگئیں۔ سوشلسٹ ریاستوں میں کوئی بیروزگار تھا نہ بے گھر تھا، ان ریاستوں میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔ چنانچہ سوشلسٹ ریاستیں مطالعہ کرنے والے انسانوں کی ریاستیں تھیں۔ چین میں مائوزے تنگ نے چینی قوم کو سوشلسٹ انقلاب کا خواب دکھایا اور انقلاب برپا کردیا۔ انقلاب سے پہلے چینی قوم افیون کھانے والی قوم تھی۔ اس کی صنعتی ترقی صفر تھی۔ معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی مگر چین کی انقلابی قیادت نے گزشتہ 40 سال میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ چین عسکری اعتبار سے دنیا کی تین بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔

بدقسمتی سے آج ہماری دنیا میں خواب دیکھنے والوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ قائداعظم، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے پاکستان میں کُندذہن جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کا قبضہ ہے۔ اس پاکستان میں نہ اقبال کا مرد مومن موجود ہے نہ اقبال کے شاہین کی کوئی اہمیت ہے۔ جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک اور معاشرے پر ایسا جبر مسلط کیا ہوا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی خودی کی نشوونما ممکن ہی نہیں رہی۔ نہرو کے ہندوستان پر آر ایس ایس اور بی جے پی کا غلبہ ہے۔ اس غلبے نے 25 کروڑ مسلمانوں اور 40 کروڑ شوردوں اور دلتوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ مغربی دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا پر ٹرمپ کا قبضہ ہے جسے خواب کے معنی بھی معلوم نہیں ہیں۔ ساحر لدھیانوی یاد آگئے جنہوں نے کہا ہے۔

یہ دنیا ہے مُردہ پرستوں کی بستی

یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

شاہنواز فاروقی

متعلقہ مضامین

  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • پاکستانی اور ایرانی فلم میکر علامہ اقبال پر عالمی معیار کی فلم بنا سکتے ہیں: عظمیٰ بخاری 
  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • خواب دیکھنے والے کہاں ہیں؟
  • دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
  • 27 ویں ترمیم کیلئے اتفاق رائے چاہتے، صوبائی خود مختاری ختم نہیں کرینگے: احسن اقبال
  • رائیونڈ عالمی تبلیغی اجتماع، معاشرے سے قبل اپنی اصلاح ضروری، گھروں میں اسلام نافذ کریں: علما
  • رہبر مسلمین کی امریکہ کے لیے تین شرائط،کیا امریکہ پالیسی بدلے گا؟