بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) نے عبوری حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ جولائی نیشنل چارٹر کے دائرہ کار سے باہر پالیسی فیصلے نہ کرے، جو ایک مفاہمتی دستاویز ہے اور پچھلے ماہ سیاسی جماعتوں اور نیشنل کونسنسیس کمیشن کے درمیان دستخط کی گئی تھی۔

بی این پی کی قومی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پیر کی شب طارق رحمان کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ چارٹر کے دائرہ کار سے باہر کوئی بھی حکومت کا فیصلہ دستخط کرنے والی جماعتوں پر لازم نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے: بنگلہ دیش: انتخابات سے قبل غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے خصوصی سیل قائم

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جولائی کے نیشنل چارٹر سے ہٹ کر کیا گیا کوئی بھی فیصلہ اُن جماعتوں کے لیے لازمی نہیں ہوگا جنہوں نے اس کی توثیق کی ہے۔ ایسے صورت میں مکمل ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔

بی این پی کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں عبوری حکومت کے بعض مشیروں کے ایسے بیانات دیے ہیں جن میں جولائی چارٹر سے متعلق نئے فیصلوں کا اشارہ دیا گیا تھا۔ پارٹی نے ان بیانات کو گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ یہ طویل مذاکرات کے بعد حاصل ہونے والے مفاہمتی عمل کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف کا بنگلہ دیش کو قرض کی اگلی قسط نئی حکومت سے مذاکرات کے بعد جاری کرنے کا اعلان

جولائی نیشنل چارٹر، جو 17 اکتوبر کو منظور ہوا، ایک سال سے زائد عرصے کی مشاورت کے بعد تیار کیا گیا تھا جس میں عبوری حکومت اور بڑی سیاسی جماعتیں، بشمول بی این پی، شریک تھیں۔

چارٹر میں سیاسی عبوری عمل کی رہنمائی اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات کی ایک سیریز شامل ہے۔

بی این پی کے رہنماؤں نے عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور ملکی استحکام کے لیے مفاہمتی فریم ورک کے ساتھ قائم رہے تاکہ آئندہ انتخابات کے عمل میں استحکام برقرار رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الیکشن بنگلہ دیش بی این پی جولائی چارٹر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الیکشن بنگلہ دیش بی این پی جولائی چارٹر عبوری حکومت نیشنل چارٹر بنگلہ دیش بی این پی کے بعد کے لیے

پڑھیں:

افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔انہوں نے ک مذاکرات کے دوران یہ بات واضح رہی کہ طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔طالبان حکومت دہشت گردوں کو مہاجرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی حمایت کا معاملہ ہے۔پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر باقاعدہ طریقے سے حوالہ کیا جائے، نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھیجا جائے۔ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کسی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کرے گا، خواہ وہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند ہو یا بی ایل اے / فتنۃ الاحرار، طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے، مگر بیرونی مالی معاونت یافتہ ایک لابی تعلقات خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔بیان کے مطابق پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں.پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے، اگست 2021 کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردی میں واضح اضافہ ہوا ہے جسے طالبان حکومت نہ جھٹلا سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں. حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہیں، جو سیاست، بیوروکریسی اور قومی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے. تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے.پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کی جولائی تا ستمبر ٹیکس آمدنی 3 ہزار 46 ارب روپے تک پہنچ گئی
  •  افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ
  • افغانستان سے پاکستان میں دہشتگردی کے ناقابل تردید شواہد پھر سامنے آگئے
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
  • افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی کے ناقابلِ تردید شواہد ایک بار پھر سامنے آگئے
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، دفتر خارجہ
  • آئی ایم ایف کا بنگلہ دیش کو قرض کی اگلی قسط نئی حکومت سے مذاکرات کے بعد جاری کرنے کا اعلان
  • بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے سابق عہدیدار کیخلاف جنسی ہراسانی کا الزام، تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل
  • بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی عبوری حکومت سے مذاکرات پر رضامند