Express News:
2025-11-13@22:28:27 GMT

آئینی عدالت اور عدلیہ کی آزادی

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

آئینی عدالت بن گئی ہے، اس حوالے سے دو موقف سامنے آرہے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ آئینی عدالت کا قیام آزادی عدلیہ پر حملہ ہے۔ حکومت نے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو تقسیم کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی گئی ہے۔

آئینی عدالت کا قیام حکومت کی جانب سے عدلیہ میں کھلم کھلا مداخلت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ آئینی عدالت وقت کی ضرورت تھی۔ پاکستان کی عدلیہ ملک کے عام آدمی کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ از خود نظام انصاف کو موثر کرنے کے لیے اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے پارلیمان کو ایسی اصلاحات کرنی پڑ رہی ہیں۔ عدلیہ نے پاکستان کے آئین سے بہت تجاوزکیا ہے۔ جس کے بعد ایک الگ آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا۔ اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عدلیہ میں مداخلت ہو رہی ہے۔

اس ضمن میں سپریم کورٹ کے دو سینئر جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے خطوط سامنے آئے ہیں۔ جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں دو ہی خطوط سامنے ہیں۔ البتہ مزید خطوط بھی سامنے آسکتے ہیں۔ میرے لکھنے اور آپ کے پڑھنے کے دوران بھی خطوط سامنے آسکتے ہیں۔ لوگ تو استعفوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔ لیکن شائد میں سمجھتا ہوں ابھی استعفے نہیں آسکتے۔ ملک میں استعفوں کا ماحول نہیں ہے۔ ان خطوط میں بھی 27 ویں ترمیم کو روکنے کی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو اس ترمیم کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ججز کا کنونشن بلانے کی بھی تجویز دی جا رہی ہے۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ان خطوط پر کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔

کیا یہ درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ نے پاکستان کے آئین کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ آمروں نے آئین توڑا، مارشل لا لگایا۔ لیکن اس ملک کی عدلیہ نے آمریتوں کو جائز قرار دیا، آمروں کو بیک جنبش قلم آئین میں ترمیم کی اجازت دی۔ اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس کے مفادات کا تحفظ کیا،وزرائے اعظم کو گھر بھیجا، انھیں پھانسی دی، انھیں نا اہل کیا، انھیں جیل بھیجا، یہ سب کام پاکستان کی عدلیہ نے ایک آزاد اور خود مختار ہوتے ہوئے کیے۔ عام آدمی کے مقدمات سالہا سال سے زیر التوا ہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔

عدلیہ عام آدمی کو انصاف دینے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہی نہیں۔ ساری توجہ سیاسی مقدمات پر ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ ججز کے سیاسی جھکاؤ سب کو معلوم ہیں۔ ان کی سوچ سب کو معلوم ہے۔ جیسے ایک سیاستدان کی رائے سب کو معلوم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آئینی عدالت بننے سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ عدلیہ بھی اقتدار کے کھیل میں ایک پلئیر بن گئی تھی، کم از کم اب اس کی یہ حیثیت ختم ہو جائے گی۔

لیکن میں سمجھتا ہوں آئینی عدالت بننے سے جہاں اقتدار کے کھیل کا توازن بدلا ہے وہاں عام آدمی کو جلد انصاف ملنے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔ اب سپریم کورٹ کے پاس عام آدمی کے مقدمات کے فیصلوں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوگا۔ وہاں عام آدمی کے مقدمات کی باری جلد آئے گی۔ پہلے ججز آئینی مقدمات میں مصروف ہو جاتے تھے اور عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ کبھی فل کورٹ بن جاتا تھا، کبھی لارجر بنچ بنایا جاتا تھا۔ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ اب سپریم کورٹ پوری توجہ عام آدمی کے مقدمات پر دے سکے گی۔ اس کے پاس کوئی اور کام ہی نہیں ہو گا۔

جہاں تک عدلیہ میں مداخلت کی بات ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ آئینی عدالت میں بھی ججز ہی ہوں گے، وہاں نہ تو پارلیمان کے نمایندے بیٹھے ہونگے اور نہ ہی وہاں کوئی اسٹبلشمنٹ کے نمایندے بیٹھے ہوں گے، وہاں بھی جج ہی ہوں گے۔ اس لیے مداخلت کا کیا سوال ہے۔ آئینی بنچ کے پاس ملک کے آئینی معاملات دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ آئینی معاملات بھی جلد حل ہوں گے۔ جہاں تک ججز کی ٹرانسفر کی بات ہے تو ایک رائے یہ ہے کہ ججز کی ٹرانسفر کی ترمیم اسلام آباد ہائی کورٹ کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے کی گئی ہے۔ میں اس پر زیادہ کچھ تو نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ آپ سب جانتے ہیں۔ لیکن عدلیہ میں ججز کی ٹرانسفر اٹھارویں ترمیم سے پہلے موجود تھی، یہ اٹھارویں ترمیم میں اس کو بدل دیا گیا بلکہ مشکل بنا دیا گیا۔

اب کہا جا سکتا ہے کہ دوبارہ اصل شکل میں بحال کر دیا گیا۔لیکن کیا ججز کا تبادلہ بطور ہتھیار استعمال ہو سکے گا۔ لیکن یہ تبادلہ کرنے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے۔ وزیر اعظم یا وزیر قانون تو کسی بھی جج کا تبادلہ نہیں کر سکتے۔ معاملہ جیوڈیشل کمیشن میں جانا ہے، فیصلہ وہاں ہونا ہے، وہاں ججز کی اکثریت بیٹھی ہے۔ ججز کی مرضی کے بغیر تبادلہ ممکن نہیں۔ جب اعلیٰ عدلیہ کے ججز بھی کسی جج کے تبادلے پر متفق ہو جائیں تو تب ہی اس کا تبادلہ ممکن ہو سکے گا۔ بہر حال موجودہ آئینی ترامیم نے عدلیہ میں اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ خود بھی اندر اصلاحات کا عمل تیز کرے ورنہ پھر پارلیمان کو اصلاحات کرنی ہوں گی۔ یہ بھی عجیب منطق ہے کہ ہم خود بھی کوئی اصلاحات نہیں کریں گے لیکن پارلیمان کو بھی نہیں کرنے دیں گے۔ بہر حال لوگوں کو جلد انصاف کی فراہمی کی ذمے داری عدلیہ کے ساتھ پارلیمان کی بھی ہے۔ بہر حال ججز اور عدلیہ کے ذمے داران کو یہ با ت سمجھنا ہوگی کہ ان کا کام ملک کے آئین وقانو ن کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ ملک کا آئین وقانون بنانا ان کا کام نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عام ا دمی کے مقدمات پاکستان کی عدلیہ ا ئینی عدالت ہے کہ ا ئینی کرنے کے لیے عدلیہ میں عدلیہ نے کے ا ئین یہ ہے کہ نہیں ہو ہی نہیں ججز کی رہی ہے ہوں گے گئی ہے کے پاس

پڑھیں:

آئین کے آرٹیکل6کی کلاز 2میں تبدیلی کا فیصلہ

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)آئین کے آرٹیکل6کی کلاز 2میں تبدیلی کا فیصلہ کیاگیا ہے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق ذرائع کاکہنا ہے کہ آرٹیکل 6کی کلاز 2میں آئینی عدالت کے لفظ کا اضافہ کیا جائے گا، کلاز2تحت سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعے جائز قرار نہیں دیا جا سکے گا۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ آرٹیکل6کی کلاز 2میں ہائیکورٹ، سپریم کورٹ کے ساتھ آئینی عدالت کے لفظ کا اضافہ کیا جائے گا، آرٹیکل 6میں آئین معطل کرنے اور اس سے کھلواڑ کو سنگین غداری قرار دیا گیا ہے۔

27ویں آئینی ترمیم میں تکنیکی غلطی کوئی نہیں ہے،قومی اسمبلی کے ایوان میں دو تین اچھی تجاویز دی ہیں اس پر بات ہو رہی ہے،اعظم نذیر تارڑ

مزید :

متعلقہ مضامین

  • ججز تقرری کیلئے عدلیہ سے مشاورت لازمی، جوڈیشری کی آزادی متاثر کرنے والا قانون باطل تصور ہو گا: جسٹس بابر
  • سپریم کورٹ اب از خود نوٹس نہیں  لے سکے گی: فاروق ایچ نائیک 
  • آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کی عروج ہے، آج بے نظیر کی روح کو بہت تسکین ملے گی، وزیراعظم
  • آئین کے آرٹیکل6کی کلاز 2میں تبدیلی کا فیصلہ
  • سندھ بارکونسل کا 27ویں ترمیم کی سخت مخالفت کااعلان
  • خط لکھنے والے جج کی تاریخ ذاتی طور پر جانتا ہوں، وزیردفاع
  • 27ویں ترمیم، آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی،جسٹس منصورکا چیف جسٹس کو خط
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
  • 26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا‘ آزاد عدلیہ کے بغیر انصاف ممکن نہیں‘ لطیف کھوسہ