اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان بطور رکن لاء اینڈ جسٹس کمیشن مستعفی ہوگئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے اپنا استعفیٰ چیف جسٹس پاکستان کو بجھوا دیا جس میں انہوں ںے کہا کہ میں ایسے ادارے کا رکن بن کر نہیں رہ سکتا جو قانون کی اصلاح کے وعدے پر قائم ہو مگر خود آزاد عدلیہ سے محروم ہو۔

استعفی کے متن میں کہا گیا ہے کہ آزاد عدلیہ کے بغیر کوئی قانون اصلاح نہ ممکن ہے نہ مؤثر، ان حالات میں جاری رہنا خود فریبی کے مترادف ہوگا۔

ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے مزید لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم نے آزاد عدلیہ کا جہاز مکمل ڈبو دیا۔

انہوں نے استعفی میں شاعر مصطفیٰ زیدی کا شعر لکھا: 

لٹ گئی شہر حوادث میں متاعِ الفاظ     اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مخدوم علی خان

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے دو بڑے ججز نے استعفیٰ دے دیا ،

آج، سپریم کورٹ کے دو ججز، منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ اقدام تب سامنے آیا جب 27th Constitutional Amendment کو قانون کی شکل دی گئں ۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی استفعائی خط میں کہا کہ یہ ترمیم “پاکستان کے آئین پر سنگین حملہ” ہے، جس نے سپریم کورٹ کی اختیارات کو ختم کیا، عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کر دیا، اور ہمارا آئینی نظام کمزور کر دیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ وہ اس آئین کے تحت حلف اٹھا کر آئے تھے جسے انہوں نے “کوئی روح اور معنی نہیں بچا” کہہ کر مسترد کیا۔دونوں نے بتایا کہ انہوں نے اس مسئلے کے متعلق چیف جسٹس کو قبل از وقت آگاہ کیا تھا، مگر ان کا فیڈبیک نہ ملا، اور ترمیم کا نفاذ ہوچکا ہے۔27ویں آئینی ترمیم کے تحت ایک نیا ادارہ، Federal Constitutional Court (FCC) قائم کیا گیا ہے، جو آئینی معاملات کی سماعت کرے گا، جس سے سپریم کورٹ کی مرکزی حیثیت کم ہوئی ہے۔فوجی کمانڈ کے ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں آئیں، جن میں آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے، اور دیگر شاخیں ان کے ماتحت آئیں گی۔اس ترامیم کا سب سے بڑا اثر یہ ہو گا کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سنجیدہ سوالات اٹھے ہیں — اگر ججز استعفیٰ دے رہے ہیں تو یہ اشارہ ہے کہ وہ آئینی تحفظ کی جگہ کمزور سمجھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ استعفیٰ محض دو ججز کا عمل نہیں، ہمارے لیے ایک علامتی موڑ ہے — عدلیہ، حکومت اور عوامی حقوق کے مابین تعلق کی نئی تصویر بنتی نظر آ رہی ہے۔اب ممکن ہے کہ عدلیہ میں مزید تبدیلیاں آئیں گی ، یا سپریم کورٹ کی حیثیت مزید محدود ہو۔اس استعفے نے نہ صرف دو انفرادی ججز کی جدوجہد کا عکس دکھایا ہے، بلکہ پورے آئینی نظام پر سوال اٹھائے ہیں۔ اگرچہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ واقعہ کس سمت میں جائے گا، یہ واضح ہے کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں آج کا دن اہمیت رکھتا ہے — سمجھیے گا یا نظرانداز، یہ ایک نیا آئینی کردار کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے دو بڑے ججز نے استعفیٰ دے دیا ،
  • 27ویں ترمیم کی منظوری: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ مستعفی
  • آئینی ترمیم کی منظوری پر سپریم کورٹ کے رکن لا اینڈ جسٹس کمیشن مخدوم علی خان مستعفی
  • سینئر قانون دان مخدوم علی خان لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی رکنیت سے مستعفی
  • لا اینڈ جسٹس کمیشن کے رکن مخدوم علی خان مستعفی ہوگئے
  • لا اینڈ جسٹس کمیشن کے رکن مخدوم علی خان بھی مستعفی
  • ’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر
  • سابق لا کلرکس کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی ’تباہی کا پیش خیمہ‘ قرار
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟