سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-01-4
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ بار کے صدر ہارون الرشید اور سیکرٹری ملک زاہد اسلم نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی، جس میں عدالتی کارکردگی میں بہتری اور وکلا کی سہولت کے امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ سپریم کورٹ بار کی جانب سے ایڈووکیٹس آن اسپیشل کاز کو کیس فائل کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی، جسے چیف جسٹس نے منظور کرتے ہوئے متعلقہ دفتر کو عملدرآمد کے احکامات جاری کر دیے۔ بار کے اعلامیے کے مطابق، پبلک فسیلیٹیشن سینٹر میں سروسز بہتر بنانے کے لیے ڈپٹی رجسٹرار تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی رجسٹرار روزانہ مخصوص اوقات میں خدمات فراہم کریں ۔ مزید یہ کہ نئے ضمانت کے مقدمات دو ہفتوں میں سماعت کے لیے مقرر کیے جائیں گے، جبکہ پرانے مقدمات کی سماعت ترجیحی پالیسی کے مطابق جاری رہے گی۔ چیف جسٹس نے یقین دہانی کرائی کہ بار روم کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، مستقل پیش ہونے والے وکلا کو سینئر ایڈووکیٹ آف سپریم کورٹ کا درجہ دینے کی تجویز بھی زیر غور لائی گئی۔ ملاقات میں عدالتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور وکلا کی سہولت کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ چیف جسٹس
پڑھیں:
مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ مکالمہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-08-22
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں سول سروس رولز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے ججز اور وکلاء میں مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم پر دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس آج ختم ہو جائے گا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے خیال سے آج شاید کیس ختم نہ ہو پائے۔ دوران سماعت، وکیل فیصل صدیقی نے نام لیے بغیر 27 آئینی ترمیم کا تذکرہ کیا۔ وکیل فیصل صدیقی میری درخواست ہے کہ کیس کا آج فیصلہ کیا جائے، میں وفاقی شرعی عدالت کی بلڈنگ میں کیس پر دلائل دینا نہیں چاہتا، بلڈنگ ہی لے لینی تھی تو وفاقی شرعی عدالت کی کیوں؟ بلڈنگ لینی تھی تو ساتھ والی عمارت لے لیتے۔ وکیل فیصل صدیقی کے بات پر آئینی بینچ کے ججز مسکرا دیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رات آپ کے حق میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے کوئی شبہ نہیں عدالت عظمیٰ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر یہی ایمان ہے تو پھر فکر کی کیا بات ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کے پابند ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کیوں بنائی گئی تھی؟، آپ ججز اس کمرہ عدالت میں کتنے گرینڈ لگتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عمارت کے تبدیل ہونے سے اختیارات کم نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سول سروس رولز سے متعلق کیس سماعت کے لیے فکس تھا۔