مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومت کی جانب سے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) اور 199 کے تحت عدالتی جائزے کے اختیارات آئین کا بنیادی ستون ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی جائزے کے اختیارات کو ختم، معطل یا متوازی نظام سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست کا مقصد 27ویں ترمیم سے پہلے اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محفوظ بنانا ہے۔ ترمیم منظور ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس آئینی معاملات نہیں سن سکیں گی۔
عدالت عظمیٰ میں سینئر وکیل بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مجوزہ ترمیم سے عدالتی نظام مفلوج اور عدالتیں غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اپنے اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا تحفظ کرے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ترمیم کے دیگر حصے بعد میں جائزے کے لیے رہ سکتے ہیں، مگر عدالتی خودمختاری متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ عدالتی اختیار کا تحفظ عالمی جمہوری اصول ہے ۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست میں بین الاقوامی عدالتی مثالیں بھی شامل کی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئینی ترمیم کے خلاف درخواست میں سپریم کورٹ گیا ہے کہ
پڑھیں:
امیرِ جماعت اسلامی کراچی نے ای چالان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان اور دیگر رہنماؤں نے ای چالان نظام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کیمروں اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے خودکار نظام کے تحت شہریوں کو ٹریفک خلاف ورزیوں پر چالان بھیجے جارہے ہیں، جو قانونی اور انتظامی خامیوں کے باعث غیرمنصفانہ ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل عثمان فاروق نے عدالت کو بتایا کہ خودکار نظام گاڑی کے حقیقی ڈرائیور کے بجائے مالک کو چالان بھیجتا ہے، حالانکہ اکثر گاڑیاں اوپن لیٹرز پر چل رہی ہیں، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں بدانتظامی اور کرپشن کے باعث گاڑیوں کی ملکیت کا بروقت اندراج ممکن نہیں ہوتا، جس سے شہری بلاوجہ جرمانوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ کراچی میں سڑکوں کا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، زیبرا کراسنگ اور اسپیڈ لمٹ سائن بورڈز موجود نہیں، جبکہ بعض مقامات پر ترقیاتی منصوبوں کے دوران ٹریفک پولیس خود رانگ وے ٹریفک چلاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بھاری جرمانے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور واضح قوانین کے بغیر مصنوعی ذہانت پر مبنی چالان سسٹم کو غیرقانونی قرار دیا جائے اور بھاری جرمانوں کو غیرمنصفانہ اقدام تسلیم کیا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا کہ ای چالان کے نام پر شہریوں پر ریاستی نااہلی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، صرف ایک ہفتے میں 30 ہزار سے زائد شہریوں کو جرمانے کیے گئے ہیں، جبکہ شہر میں ٹوٹی سڑکیں، ناقص سائن بورڈز اور زیبرا کراسنگ کی عدم موجودگی انتظامیہ کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے شہریوں کو سزا دے رہی ہے، جسے جماعتِ اسلامی کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔