data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 73 سرگودھا میں ضمنی الیکشن روکنے سے متعلق درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

درخواست پاسبان وطن پاکستان پارٹی کے سربراہ شیخ مختار کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روکا گیا۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی کوشش کی، مگر الیکشن کمیشن نے اجازت نہیں دی۔ حلقے میں ستمبر میں آنے والے سیلاب کے باعث ضمنی الیکشن ملتوی ہوا تھا، لیکن نئے انتخابی شیڈول کے اعلان پر امیدوار کو دوبارہ کاغذات جمع کرانے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

جسٹس خادم حسین سومرو نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ حلقے کی نشست کیوں خالی ہوئی؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے وضاحت دی کہ پی پی 73 سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ اسمبلی انصر اقبال ہرل کو 9 مئی کے واقعات میں سزا کے باعث نااہل قرار دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں نشست خالی ہوئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری ہوچکا ہے، انتخابی نشان الاٹ کیے جا چکے ہیں اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی مکمل ہوچکی ہے۔ ان کے مطابق انتخابی عمل کے اس مرحلے پر کسی ایک فرد کی درخواست پر الیکشن روکنا نہ صرف غیر عملی بلکہ قانونی طور پر نامناسب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاسبان وطن پارٹی 20 اکتوبر کو رجسٹرڈ ہوئی، جب کہ اگر یہ 13 اکتوبر تک رجسٹرڈ ہو جاتی تو امیدوار کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوتا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ  اب بہتر یہ ہے کہ درخواست گزار آئندہ الیکشن کا انتظار کریں، کیونکہ اس وقت انتخابی عمل کو روکنا وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع ہوگا۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جو آئندہ چند روز میں سنایا جائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

بلوچستان ہائیکورٹ، ایمل ولی کی سینیٹ رکنیت کیخلاف دائر درخواست خارج

ایمل ولی خان کیخلاف دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ وہ بلوچستان کے رہائشی نہیں ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ایمل ولی نے آئینی تقاضے پورے کئے۔ اسلام ٹائمز۔ عدالت عالیہ بلوچستان نے صوبے سے سینیٹ الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء ایمل ولی خان کی امیدواری کے خلاف دائر آئینی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کی نامزدگی اور بطور سینیٹر انتخاب مکمل طور پر آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس کامران خان ملاخیل اور جسٹس گل حسن ترین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے محمد علی کنرانی اور حضرت علی کاکڑ ایڈووکیٹ کی دائر کردہ آئینی درخواست پر سنایا۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ایمل ولی خان کی بلوچستان سے سینیٹ جنرل نشست پر نامزدگی اور بعد ازاں ان کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے، کیونکہ وہ نہ تو بلوچستان کے رہائشی ہیں اور نہ ہی صوبے کے ووٹر ہیں۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ مدعا علیہ نے بلوچستان میں ووٹر کے طور پر جھوٹا اندراج کرایا اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 110 کی خلاف ورزی کی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایمل ولی خان کے وکلاء نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی قانون کے مطابق جانچ پڑتال کے بعد منظور کیے گئے۔ اس مرحلے پر کسی امیدوار یا شہری کی جانب سے کوئی اعتراض دائر نہیں کیا گیا، جبکہ آئینی طور پر انتخابی نتائج کو صرف الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، آئینی درخواست کے ذریعے نہیں۔ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا کہ ایمل ولی خان کا قومی شناختی کارڈ ارباب ہاؤس، خدائداد روڈ، قلعہ کاسی، کوئٹہ کے پتہ پر جاری ہوا ہے۔ ان کا نام کوئٹہ کے حلقے کی ووٹر فہرست میں موجود ہے، اور الیکشن کمیشن نے 15 مارچ 2024 کو ان کے ووٹر اندراج کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ ایمل ولی خان کا ووٹر اندراج یا شناختی پتہ غیرقانونی طریقے سے حاصل کیا گیا ہو۔

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 26 اور 27 کے مطابق کسی شخص کو اس حلقے کا رہائشی سمجھا جاتا ہے، جہاں اس کے شناختی کارڈ پر مستقل یا عارضی پتہ درج ہو، اور ووٹر لسٹ میں اس کا نام موجود ہو۔ لہٰذا ایمل ولی خان کے پاس بلوچستان سے سینیٹ الیکشن لڑنے کی مکمل اہلیت موجود تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایک بار جب انتخابی عمل مکمل ہو جائے اور امیدوار کا نوٹیفکیشن جاری ہو جائے، تو اس کی اہلیت سے متعلق اعتراض صرف الیکشن ٹربیونل کے ذریعے ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 225 کے مطابق ایسے معاملات میں آئینی درخواست ناقابل سماعت ہوتی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایمل ولی خان نے آئین کے آرٹیکل 62 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 110 کے مطابق اپنے کاغذات جمع کرائے اور کسی نااہلی کے زمرے میں نہیں آتے۔ لہٰذا ان کی سینیٹ کے لیے نامزدگی اور کامیابی کو آئینی اور قانونی طور پر درست قرار دیا گیا۔ عدالت نے آئینی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر، معاملہ الیکشن کمیشن میں سماعت کیلیے مقرر
  • اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر، معاملہ الیکشن کمیشن میں سماعت کیلئے مقرر
  • بلوچستان ہائیکورٹ، ایمل ولی کی سینیٹ رکنیت کیخلاف دائر درخواست خارج
  • ای سی پی کا اسلام آباد بلدیاتی الیکشن کا کیس 13 نومبر کو سننے کا فیصلہ
  • الیکشن کمیشن کے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر اہم فیصلے
  • الیکشن کمیشن نے اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ :سابق سی ای او پی آئی اے مشرف رسول اور وقاص احمد کے تنازعہ کیس کی سماعت ‘ پولیس پر شدید برہمی، فیصلہ محفوظ
  • پمز برن سینٹر میں پلاسٹک سرجن کی تعیناتی چیلنج، اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین سے جواب طلب کرلیا
  • عوام نے موجودہ نظام سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا ، قدسیہ ناموس