مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ مکالمہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-08-22
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں سول سروس رولز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے ججز اور وکلاء میں مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم پر دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس آج ختم ہو جائے گا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے خیال سے آج شاید کیس ختم نہ ہو پائے۔ دوران سماعت، وکیل فیصل صدیقی نے نام لیے بغیر 27 آئینی ترمیم کا تذکرہ کیا۔ وکیل فیصل صدیقی میری درخواست ہے کہ کیس کا آج فیصلہ کیا جائے، میں وفاقی شرعی عدالت کی بلڈنگ میں کیس پر دلائل دینا نہیں چاہتا، بلڈنگ ہی لے لینی تھی تو وفاقی شرعی عدالت کی کیوں؟ بلڈنگ لینی تھی تو ساتھ والی عمارت لے لیتے۔ وکیل فیصل صدیقی کے بات پر آئینی بینچ کے ججز مسکرا دیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رات آپ کے حق میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے کوئی شبہ نہیں عدالت عظمیٰ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر یہی ایمان ہے تو پھر فکر کی کیا بات ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کے پابند ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کیوں بنائی گئی تھی؟، آپ ججز اس کمرہ عدالت میں کتنے گرینڈ لگتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عمارت کے تبدیل ہونے سے اختیارات کم نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سول سروس رولز سے متعلق کیس سماعت کے لیے فکس تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وکیل فیصل صدیقی نے
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم، مجوزہ آئینی عدالت، 7 ججز، 68 سال ریٹائرمنٹ، ’’ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز‘‘ کا نیا عہدہ متعارف کرانے پر غور
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ابتدائی طور پر سات ججز ہوں گے، اور اس حوالے سے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملک کے عدالتی ڈھانچے میں اصلاحات کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔
باخبر ذرائع کے مطابق، آئینی عدالت کے قیام کا سب سے پہلے خیال میثاقِ جمہوریت میں پیش کیا گیا تھا جس پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے 2006ء میں دستخط کیے تھے۔
یہ تجویز ایک مرتبہ پھر وسیع تر آئینی اصلاحاتی پیکیج کے حصے کے طور پر بحال کی گئی ہے اور اس پر اتحادی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
مجوزہ پلان کے مطابق، آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68؍ برس ہوگی، یہ حد سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر سے تین سال زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز 65؍ برس کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر ہوتے ہیں۔
توقع ہے کہ جسٹس امین الدین خان آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس ہوں گے۔ یہ عدالت سپریم کورٹ میں نہیں لگے گی، اس کی بجائے اس کی جائے وقوع کے حوالے سے دو آپشنز پر بات ہو رہی ہے۔ ایک تجویز ہے کہ یہ عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں ہوگی اور ایسا ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کو اپنی پرانی جگہ یعنی سیکٹر G-9 میں منتقل کیا جائے گا۔
دوسرے آپشن کے امکانات زیادہ ہیں جس کے تحت آئینی عدالت فیڈرل شریعت کورٹ کی عمارت میں قائم کی جائے گی۔ اس صورتحال کے پیش نظر وفاقی سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) کو اسی عمارت کی پہلی منزل پر منتقل کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی عدالت کے سات ججوں میں سے پانچ کو موجودہ سپریم کورٹ بینچ سے منتخب کیا جائے گا۔ جسٹس امین الدین خان متوقع طور پر نئی عدالت کے سربراہ ہوں گے۔ مزید یہ کہ بعض ہائی کورٹس کے ججز (خصوصاً بلوچستان ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ سے) کو بھی نئی عدالت میں تقرری کیلئے زیرِ غور لایا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق، مجوزہ آئینی عدالت صرف آئینی معاملات سے نمٹے گی، جس سے سپریم کورٹ کا بوجھ کم ہوگا اور آئینی تنازعات کے تیز تر فیصلے ممکن ہوں گے۔ یہ وہ تصور ہے جو میثاقِ جمہوریت میں طے کیا گیا تھا، لیکن اس پر اب تک عمل نہیں ہو سکا تھا۔
دریں اثناء ذرائع نے بتایا ہے کہ اہم دفاعی اصلاحات کے حصے کے طور پر، “کمانڈر آف ڈیفنس فورسز” کا عہدہ متعارف کرانےپر غور کیا جا رہا ہے۔یہ نیا عہدہ آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کے تحت زیرِ غور ہے، جس کا مقصد تینوں مسلح افواج کے مابین زیادہ ہم آہنگی اور متحدہ کمانڈ کو یقینی بنانا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ اقدام حالیہ پاک بھارت جنگی منظرناموں سے حاصل کیے گئے اسباق اور جدید جنگ کی بدلتی ہوئی نوعیت سے متاثر ہے، جو مربوط آپریشنل ردعمل کا تقاضا کرتی ہے۔
انصار عباسی