آئینی ترمیم کی منظوری پر سپریم کورٹ کے رکن لا اینڈ جسٹس کمیشن مخدوم علی خان مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
آئینی ترمیم کی منظوری پر سپریم کورٹ کے رکن لا اینڈ جسٹس کمیشن مخدوم علی خان مستعفی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان بطور رکن لا اینڈ جسٹس کمیشن مستعفی ہوگئے۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے اپنا استعفی چیف جسٹس پاکستان کو بجھوا دیا جس میں انہوں ںے کہا کہ میں ایسے ادارے کا رکن بن کر نہیں رہ سکتا جو قانون کی اصلاح کے وعدے پر قائم ہو مگر خود آزاد عدلیہ سے محروم ہو۔
استعفی کے متن میں کہا گیا ہے کہ آزاد عدلیہ کے بغیر کوئی قانون اصلاح نہ ممکن ہے نہ مثر، ان حالات میں جاری رہنا خود فریبی کے مترادف ہوگا۔ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے مزید لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم نے آزاد عدلیہ کا جہاز مکمل ڈبو دیا۔
انہوں نے استعفی میں شاعر مصطفی زیدی کا شعر لکھا:
لٹ گئی شہر حوادث میں متاعِ الفاظ اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرقومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2025 منظور کرلیا قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2025 منظور کرلیا ججز کے استعفے کئی حوالوں سے غیر آئینی اقدامات کہے جا سکتے ہیں: حکومتی رد عمل آرمی چیف اب چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہونگے، عہدے کی مدت 5 سال ہوگی :نئی ترمیم کی تفصیلات آرمی چیف اب چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہونگے،عہدے کی مدت 5 سال ہوگی: قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج:سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفی دے دیا جسٹس امین الدین کو آئینی عدالت کا سربراہ بنائے جانے کا امکانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مخدوم علی خان سپریم کورٹ کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ مستعفی
فوٹو: فائلسپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استعفیٰ دے دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا، انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے، 27ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا ہے، 27ویں ترمیم نے ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی مستعفی ہوگئے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استعفیٰ صدرِ پاکستان کو بھجوادیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ 11 سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد اسی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا، مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر حلف اُٹھایا۔
انہوں نے مزید تحریر کیا کہ تمام حلفوں کے دوران میں نے ایک ہی وعدہ کیا آئین سے وفاداری کا، میرا حلف کسی فرد یا ادارے سے نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان سے تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم سے قبل، میں نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا، خط میں اس ترمیم کے ممکنہ اثرات پر آئینی تشویش ظاہر کی تھی، اُس وقت کے خدشات، خاموشی اور بے عملی کے پردے میں آج حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں کہا کہ ہمارے فیصلے پر چیف جسٹس کے لکھے دونوں نوٹس ہمیں نہیں دیے گئے، چیف جسٹس نے اپنا نوٹ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں پڑھا، جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر مجاز فورم نہیں تھا۔
اس سے قبل 10 نومبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں مجوزہ آئینی ترمیم پرعدلیہ سے باضابطہ مشاورت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ اگر متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے دونوں متاثر ہوں گے، تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں، آئین کی سر بلندی کے لیے کھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا کہ آپ اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈر شپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔
خط میں چیف جسٹس پاکستان سے تمام آئینی عدالتوں کےجج صاحبان کا اجلاس بلانے کی سفارش کرتے ہوئے سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت سے باضابطہ مشاورت کی تجویز دی گئی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس واضح کریں آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی، آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے معاملے پر اعلیٰ ججوں میں اختلافات کی دستاویزات پبلک کر دی گئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ آپ اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈر شپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ کا ادارہ جاتی مؤقف تحریری طور پر حکومت اور پارلیمان کو بھجوایا جائے، جب تک مشاورت مکمل نہ ہو، حکومت کو ترمیم پیش نہ کرنے سے آگاہ کیا جائے، میری گزارش اختلاف نہیں، ادارہ جاتی یکجہتی کی اپیل ہے۔