چیف جسٹس نے آئینی ترمیم پر غور کیلئے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
چیف جسٹس نے آئینی ترمیم پر غور کیلئے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا WhatsAppFacebookTwitter 0 13 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس ) 27 آئینی ترمیم پر بات چیت کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحیی آفریدی نے فل کورٹ اجلاس بلا لیا۔ذرائع نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس کل جمعہ نماز سے قبل ہوگا، فل کورٹ اجلاس میں 27 آئینی ترمیم پر بات ہوگی۔سپریم کورٹ کے 3 ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے بعد جسٹس صلاح الدین پنور نے بھی فل کورٹ اجلاس بلانے کے لیے خط لکھا تھا۔یاد رہے کہ اس پیشرفت سے کچھ دیر قبل ہی جسٹس صلاح الدین پنور کا چیف جسٹس یحیی آفریدی کو لکھا خط سامنے آیا تھا جس میں جسٹس صلاح الدین پنور نے فل کورٹ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔
خط کے متن کے مطابق فل کورٹ میٹنگ بلا کر آئینی ترمیم کا شق وار جائزہ لیا جائے، لا اینڈ جسٹس کمیشن اور عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کو بھی مشاورت میں شامل کیا جائے۔خط میں کہا گیا کہ ستائیسویں ترمیم اختیارات کے توازن کو خراب کر سکتی ہے، آئین تقاضا کرتا ہے کہ سپریم کورٹ اس کا تحفظ کرے۔جسٹس صلاح الدین پنور نے اپنے خط میں کہا تھا کہ تاریخ ہماری آسانی نہیں بلکہ ہماری فیصلہ سازی کی ہمت کو یاد رکھے گی، عوامی اعتماد کو بچانے کیلیے فوری فل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپنجاب حکومت کا کالعدم ٹی ایل پی کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم پنجاب حکومت کا کالعدم ٹی ایل پی کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم حکومت کااسلام آباد کو محفوظ بنانے کیلئے سکیور نیبر ہوڈ سروے کا اعلان ’آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جائے‘،سپریم کورٹ کے ایک اور جج نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا اسلام آباد کی تاریخ میں پہلی بار کامیاب روبوٹک سرجری ستائیسویں آئینی ترمیم میں مزید ترامیم سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور اسرائیلی آبادکاروں نے مغربی کنارے میں مسجد کو آگ لگا دی، 25 فلسطینی گرفتارCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: فل کورٹ اجلاس چیف جسٹس
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ مستعفی
فوٹو: فائلسپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استعفیٰ دے دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا، انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے، 27ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا ہے، 27ویں ترمیم نے ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی مستعفی ہوگئے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استعفیٰ صدرِ پاکستان کو بھجوادیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ 11 سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد اسی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا، مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر حلف اُٹھایا۔
انہوں نے مزید تحریر کیا کہ تمام حلفوں کے دوران میں نے ایک ہی وعدہ کیا آئین سے وفاداری کا، میرا حلف کسی فرد یا ادارے سے نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان سے تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم سے قبل، میں نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا، خط میں اس ترمیم کے ممکنہ اثرات پر آئینی تشویش ظاہر کی تھی، اُس وقت کے خدشات، خاموشی اور بے عملی کے پردے میں آج حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں کہا کہ ہمارے فیصلے پر چیف جسٹس کے لکھے دونوں نوٹس ہمیں نہیں دیے گئے، چیف جسٹس نے اپنا نوٹ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں پڑھا، جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر مجاز فورم نہیں تھا۔
اس سے قبل 10 نومبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں مجوزہ آئینی ترمیم پرعدلیہ سے باضابطہ مشاورت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ اگر متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے دونوں متاثر ہوں گے، تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں، آئین کی سر بلندی کے لیے کھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا کہ آپ اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈر شپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔
خط میں چیف جسٹس پاکستان سے تمام آئینی عدالتوں کےجج صاحبان کا اجلاس بلانے کی سفارش کرتے ہوئے سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت سے باضابطہ مشاورت کی تجویز دی گئی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس واضح کریں آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی، آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے معاملے پر اعلیٰ ججوں میں اختلافات کی دستاویزات پبلک کر دی گئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ آپ اس ادارے کے ایڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈر شپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ کا ادارہ جاتی مؤقف تحریری طور پر حکومت اور پارلیمان کو بھجوایا جائے، جب تک مشاورت مکمل نہ ہو، حکومت کو ترمیم پیش نہ کرنے سے آگاہ کیا جائے، میری گزارش اختلاف نہیں، ادارہ جاتی یکجہتی کی اپیل ہے۔