ججز تقرری کیلئے عدلیہ سے مشاورت لازمی، جوڈیشری کی آزادی متاثر کرنے والا قانون باطل تصور ہو گا: جسٹس بابر
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز کی تقرری سے متعلق ایک اہم آئینی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اسلام آباد میں ججز کی تقرری کے لئے ایگزیکٹو کو عدلیہ سے مشاورت لازمی طور پر کرنا ہو گی۔ جسٹس بابر ستار نے 73 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ججز کی سروس کی شرائط میں آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور بیرونی دبائو سے آزاد ہو کر اختیارات کا استعمال شامل ہے اور وفاقی حکومت ججز کی تقرری یا برطرفی کے اختیارات اسلام آباد ہائی کورٹ سے مشاورت کے بعد ہی استعمال کرے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ دوسرے صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر لائے گئے ججز اسلام آباد کی عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ عدالتی افسران کی تقرری، مدت ملازمت اور برطرفی سے متعلق قوانین میں ترمیم کرے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جب تک ترمیم نہیں کی جاتی، حکومت کوئی بھی تقرری، تبادلہ یا برطرفی سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ کی مشاورت سے ہی کرے۔ بغیر مشاورت کی گئی کوئی بھی تقرری، تبادلہ یا برطرفی غیرقانونی تصور ہو گی۔ عدالت نے وزارت قانون و انصاف اور کابینہ ڈویژن کو فیصلے کی نقول بھجوانے کا حکم دیا۔ فیصلے میں واضح کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 اور 25 کے تحت شہریوں کو انصاف تک رسائی بنیادی اور ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔ ریاست کے تینوں ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور کسی کو دوسرے پر بالادستی حاصل نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ کوئی بھی قانون یا انتظامی عمل جو عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرے، آئین سے متصادم اور باطل تصور ہو گا اور یہ کہ ماتحت عدلیہ بھی اسی آئینی تحفظ کی مستحق ہے جو اعلی عدلیہ کو حاصل ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
27ویں ترمیم، آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی،جسٹس منصورکا چیف جسٹس کو خط
چیف جسٹس پاکستان بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں، آپ اس ادارے کے اینڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں،عدلیہ اگر متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے متاثرہوں گے
یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے، ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جاسکتا ہے،میری گزارش اختلاف نہیں، ادارہ جاتی یکجہتی کی اپیل ہے یہ خط کسی فرد کے خلاف نہیں، متن
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے27ویں آئینی ترمیم پر چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو ایک اور لکھتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ اگر متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے دونوں متاثرہوں
گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو لکھے گئے اپنے خط میں مجوزہ آئینی ترمیم پرعدلیہ سے باضابطہ مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔خط میں جسٹس منصور کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں، واضح کریں آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی، آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جاسکتا ہے۔خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا ہے کہ آپ اس ادارے کے اینڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ عدلیہ اگر متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلے دونوں متاثرہوں گے۔خط میں چیف جسٹس پاکستان سے تمام آئینی عدالتوں کے جج صاحبان کا اجلاس بلانے کی سفارش کی گئی ہے۔خط میں سپریم کورٹ،ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت سے باضابطہ مشاورت کی تجویز دی گئی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ خط نے کہا ہے کہ میری گزارش اختلاف نہیں، ادارہ جاتی یکجہتی کی اپیل ہے یہ خط کسی فرد کیخلاف نہیں،آئین کی سربلندی اور عدلیہ کی خودمختاری کے حق میں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آئین پرخاموشی اختیارکرنا آئینی حلف کی روح کو مجروح کریگا، آئندہ نسلوں کے لئے خودمختار اور باوقار عدلیہ کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔