Jasarat News:
2025-11-14@21:08:15 GMT

کون اللہ میاں

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251115-03-6

 

شرَفِ عالم

میں: ہم نے ایک موقع پر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی منصوبہ بند نسل کشُی پر دستاویزی ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اس حوالے سے سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والوں میں کوئی خوف ِخدا نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم کو کس طرح روا رکھے ہوئے ہیں، ان تہذیب کے علم برداروں کے نزدیک معصوم ومظلوم انسانی جانوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ کیوں کہ ظلم کرنے والے ان ممالک کے حکمرانوں کا مذہب کوئی بھی ہو لیکن ان میں سے بیشتر مذاہب کی تعلیمات میں حیات بعدالموت اور آخرت میں جواب دہی کا عقیدہ ضرور پایا جاتا ہے۔

وہ: جہاں تک اسرائیل کی بات ہے تو ان کے نزدیک تو یہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر شاید ان کے سب سے بڑے فریضے کی تکمیل ہے۔ اب اس عقیدے کے جھوٹے یا سچے ہونے کی بحث کو فی الحال یہیں چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ کسی بھی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کسی دیرینہ خواہش یا فریضے کی ادائیگی میں کسی دوسرے مذہبی عنصر یا افراد کی رکاوٹ جیسی صورت حال میں کم وبیش تمام ہی مذاہب کے پیروکار بعض اوقات انسانیت کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ تمہیں یاد ہوگا ۱۹۹۲ء میں جب لاکھوں انتہا پسندوں ہندوئوں نے ایودھیا انڈیا میں تقریباً پانچ سو سال قبل تعمیر کی گئی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ جبکہ اس جگہ رام کی جنم بھومی ہونے کے دعوے کی تصدیق آج تک نہیں ہوسکی۔ اسی طرح حال ہی میں پہل گام مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں معصوم جانوں کی ہلاکتوں کو کوئی بھی مسلمان کیسے حق بجانب کہہ سکتا ہے۔

میں: لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ کوئی بھی انسان یا گروہ اپنے مذہبی عقیدے کی پاسداری یا حصولِ حق کے لیے بے گناہ انسانوں کی جان کا پیاسا کیسے ہوسکتا ہے، کیا تمہیں انسانوں کے اس رویے میں تضاد نظر نہیں آتا، کہ ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان اور شرک کے غلُوکے ساتھ خدا اور بھگوان کا تصور لیے دیگر مذاہب کے پیروکار اس بنانے والے کے احکام پر کتنے عمل پیرا ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ آج کی دنیا میں مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کے بغیر ہمارا انفرادی اور مجموعی سماجی رویہ خدا اور اس کے احکامات سے بے پروائی کی گواہی دے رہاہے۔ خدا کے منکروں کو کیا کہنا ایمان والے بھی اپنی زبان سے نہ سہی مگر عمل سے اسی کا پرچار کررہے ہیں کہ ’’میں ہوں، میں ہوں اور صرف میں ہوں اور میری اس زندگی میں یہ اللہ میاں کہاں سے آگئے! کون اللہ میاں‘‘۔

وہ: تم نے ایک ایسے نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس وقت پوری انسانیت کے لیے لمحہ ٔ فکر ہے اور اگر انسان اس بات کو سمجھتے ہوئے ادراکِ ذات کے رستے پر چل کر رب کائنات کی پہچان کرلے تو ہر پل یہی کہتا نظرآئے۔ ’’اللہ ہے، اللہ ہے اور صرف اللہ ہے اور اللہ کی دی ہوئی اس زندگی میں یہ میں کہاں سے آگیا! کون میں‘‘۔ اس موقع پر ابن عربی کا وہی قول یاد آرہا ہے جو شاید ہم نے اس سے پہلے بھی اپنی کسی گفتگو میں شامل کیا ہے۔ ’’جس انسان کو اپنی تخلیق پر حیران ہوکر خود پر سوال اٹھانا چاہیے تھا اس نے اپنے پیدا کرنے والے اپنے خالق کی ہستی پر سوالیہ نشان لگادیا‘‘۔

میں: کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ انسان کی یہ بے خدائی گزشتہ چند صدیوں پر محیط جدیدیت کی اس سوچ کا پیش خیمہ ہے جس کے زیر اثر انسان نے اپنے گزرے ہوئے کل کو یکسر فراموش کردیا، سرمایہ داریت کے لبادے میں لپٹے مغربی نظریات کے سامنے تمام پرانے خیالات اور بیانیے دقیانوسی قرار پائے اور اس سوچ کا منطقی انجام یہ ہوا کہ انسان نے مادی اشیاء کے حصول کے ذریعے نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بناتے ہوئے خدا کے ساتھ صدیوں سے جڑے اپنے اس رشتے کو بھی پرانا سمجھ کر توڑ دیا جو خواہشات کے پورا ہونے پر ہی نہیں، نہ ہونے پر بھی مقام شکر اور اس کا واحد سہارا ہوا کرتا تھا۔

وہ: تمہاری بات سو فی صد درست ہے، اس خدا لامرکزیت کی وجہ سے انسان نے خود اپنی ذات کو اپنا مالک ومختار بنا لیا اور نتیجتاً مذہب اور اس کے احکامات چند ظاہری عبادات اور کسی حد تک محض سماجی مجبوری بن کے رہ گئے۔ اور یوں دنیا کے کم وبیش ہر سماج نے کہیں احساس کمتری کی وجہ سے، کہیں اپنے ماضی پر شرمندہ ہوکر اور کہیں عقل کی کسوٹی پر پورا اُترتے سائنسی علوم کو معاشرتی ترقی کی واحد بنیاد بنا کر مِن وعن اختیار کرلیا۔ وہ دل جس کے کسی نہ کسی گوشے میں خدا موجود تھا نت نئی خواہشات اور مادی اشیا کے حصول کی آماج گاہ بن کر رہ گیا۔

میں: لیکن اگر صرف مسلمانوں کے حوالے سے بات کی جائے تو آج روزہ، نماز، اعتکاف، حج وعمرہ کرنے والوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

وہ: شاید تعبیر کی یہی وہ غلطی ہے جسے سب کچھ مان کر ہم نے سجود وقیام، ذکرو اذکار کا ہر سامان تو اپنے لیے میسر کرلیا، مگر ہم بحیثیت ایک فرد اور ایک امت دنیا کے کسی بھی سماج کے لیے میسر نہ ہوسکے۔ کسی دوسرے سماج کے لیے مفید ہونے کا سوال تو بعد میں اُٹھے گا پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ہم صرف اپنے سماج کے لیے بھی کسی طرح سود مند ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاںکسی کی نیت اور ایمان پر اپنی رائے دینے اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے کا مجھے اور تمہیں کیا کسی کو بھی کوئی حق حاصل نہیں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آج کا مسلمان، مسلمان دکھنا چاہتا ہے، بننا نہیں چاہتا۔ من حیث القوم اور امت جن خرابیوںکی نشاندہی اقبالؔ ایک صدی قبل کرگئے تھے وہ مسلمانوں میں پہلے سے کہیں زیادہ راسخ ہوگئی ہیں، یہ ہمارے رویوں اور عادات وخصائل میں ایسے نفوذ کرگئی ہیں کہ اب شاید واپسی کا دروازہ تقریباً بند ہوچکا ہے۔

میں: واپسی کا دروازہ بند ہونے سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر ربّ کی بارگاہ میں توبہ کرنے کی بات ہے تو اللہ میاں نے یہ دروازہ تو ہمیشہ کھلا رکھا ہے۔

وہ: واپسی سے مراد اللہ میاں کی واپسی ہے۔ ہمارے بنجر دلوں میں، سُونے گھروں میں، انصاف کے کٹہرے میں، قانون سازی کے احاطے میں، سیاست کے میدان میں، منصف کے قلمدان میں، ہماری صبح اور شام میں، روزانہ کے ہر کام میں۔۔۔ جب اللہ میاں پھر سے لوٹ آئیںگے تو مظلوم کو زبان ملے گی، ہنرمند کو پہچان ملے گی، ہر چوراہے پر احترام انسانیت کی نئی داستان ملے گی، ہر غریب کو مشکل میں بھی زندگی آسان ملے گی۔

میں: میری سمجھ میں تمہارا اصل مدعا ابھی بھی پوری طرح نہیں آیا۔

وہ: بات فقط اتنی سی ہے کہ آج کی سائنسی ترقی اور زندگی میں سماجانے والی ٹیکنالوجی کو اس کی تمام حشر سامانیوں کو اختیار کرنے کے باوجود بھی اللہ میاں کے احکامات اور اس کے نظام کو اپنے سماج، اپنی سیاست، اپنی معیشت، اپنی عدالت اور اپنی پوری زندگی میں شامل کرکے انسان خود اپنا اور اس پوری دنیا کا قبلہ سیدھا کرسکتا ہے۔ مجھے اس موقع پر مغربی تہذیب کے خلاف اردو کے پہلے مزاحمتی شاعر اکبر الہ آبادی یاد آگئے جسے ہم نے محض ایک مزاحیہ شاعربنا کر کھڈے لین لگادیا۔

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

شرَفِ عالم.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: زندگی میں اللہ میاں ہے کہ ا گی میں ملے گی اور اس کے لیے

پڑھیں:

آئینی دور

حضرت عمر فاروقؓ کا عہد خلافت تاریخ اسلام کا سنہری دور حکومت کہلاتا ہے۔ انھوں نے جہاں ایک طرف فتوحات حاصل کر کے اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع کیا، وہیں انھوں نے ایسا نظام حکومت تشکیل دیا جہاں ہر فرد کے حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔ عدل، انصاف اور احتساب کا ایسا مثالی نظام بنایا کہ آج تک اس کی کوئی نظیر دنیا کا کوئی دوسرا حکمران پیش نہ کر سکا۔

دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم ہر دو مورخین نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ایک یہودی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب "The Hundred" میں تاریخ انسانی کی 100 عظیم ترین شخصیات میں حضرت عمر فاروقؓ کی خدمات کو نمایاں طور پر لکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں ہر فرد کو تنقید اور طلب حقوق کی آزادی دے رکھی تھی۔ ایک دفعہ آپؓ نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ’’ لوگو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں، تو کیا کرو گے؟‘‘ یہ سنتے ہی ایک شخص نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور کہا ’’ تمہارا سر اڑا دوں گا۔‘‘ آپؓ نے آزمانے کے لیے اسے ڈانٹ کر کہا’’ تو امیرالمومنین کی شان میں گستاخی کر رہا ہے۔ تجھے پتا نہیں کہ تُو کس سے بات کر رہا ہے؟‘‘ اس شخص نے اسی جرأت سے جواب دیا’’ ہاں، ہاں میں آپ سے مخاطب ہوں۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’رب کا شکر ہے کہ اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں گے۔‘‘

تاریخ کے اوراق میں ایک مشہور واقعہ ملتا ہے کہ ایک دفعہ آپ مسلمانوں سے خطاب کرنے اٹھے تو ایک بدو کھڑا ہوا اور کہا کہ ’’ میں نہ آپؓ کی بات سنتا ہوں اور نہ ہی اطاعت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے استفسار کیا کہ ’’کیوں؟‘‘ بدو بولا ’’ یمن سے جو چادریں آئی تھیں اس میں سے ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی تھی، اور اس ایک چادر سے آپؓ کی قمیص نہیں بن سکتی، مگر آپؓ نے اس چادر کی قمیص زیب دن کی ہوئی ہے، یقینا آپ نے اپنے حصے سے زائد کپڑا لیا ہے‘‘ اس کا جواب میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ’’ اس کا جواب میرا بیٹا دے گا۔‘‘ آپؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ’’واقعی میرے ابا جان کی قمیص ایک چادر میں نہیں بنتی تھی، (آپؓ خاصے قدآور تھے) میں نے اپنے حصے کی چادر انھیں دی تھی، اس طرح ان کی قمیص بنی۔‘‘

ہمارے دین اسلام کی آفاقی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ حاکم وقت اپنی رعایا کے حقوق کا محافظ ہے، ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنا حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول صادق ہے کہ’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی مرا تو عمرؓ سے اس کا سوال کیا جائے گا۔‘‘ گویا اسلام میں کسی حکمران اور صاحب اختیار حکومتی عہدیدار کو کسی بھی حوالے سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

بعینہ ایک عام شخص بھی حکمرانوں سے باز پرس کر سکتا ہے اور اس کے قول و عمل کے حوالے سے سوال اٹھا سکتا ہے اور حکمران کو ہر صورت جواب دینا پڑے گا۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں قائد اعظم کے متعدد فرمودات ریکارڈ پر ہیں کہ جب بھی ان سے سوال کیا جاتا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو آپ کا جواب ہوتا کہ ’’ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کا دستور بنانے والا، ہمارا دستور تو 13 سو سال پہلے بن گیا، پاکستان میں جو بھی آئین ہوگا قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن و سنت کے دستور کی عملی شکل نافذ کردی ہے جس کے مطابق کسی سرکاری عمال کو اپنے ہر عمل کا عوام کو جواب دینا ہوگا، کوئی سرکاری اہلکار قانون سے مبرا نہیں، بلا تفریق سب کا احتساب قرآن و سنت کی روح کے مطابق لازم و ملزوم ہے اور سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے کوئی قانون سے بالا نہیں اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کا عہد خلافت ہمارے لیے مثال، قرآن و سنت ہمارا دستور اور قائد اعظم کے فرمودات ہمارے پیش نظر لیکن قائد کے پاکستان میں آج کے زعما بڑی شدت سے تاحیات اپنے اعمال کی گرفت سے استثنیٰ کے طلب گار ہیں۔ کیا انھیں نبی کریمؐ کی وہ حدیث یاد نہیں کہ ’’ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ جب ان کا کوئی امیر چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔‘‘

لگتا ہے اکابرین حکومت اسلام کی آفاقی تعلیمات بھول گئے، قرآن و سنت کو مساجد و مدرسوں تک محدود کردیا اور قائد اعظم کے فرمودات کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اسی جلد بازی میں بحث و مباحثہ کے بغیر ایوان بالا سے 27 ویں آئینی ترمیم جبری پاس کروا لی، اب قومی اسمبلی سے بھی منظور کروا لی گئی ہے۔ اپوزیشن کا احتجاج بے معنی اور بعض آئینی و قانونی ماہرین کے اعتراضات اور سوالات تشنہ تعبیر رہیں گے۔

78 سالوں سے وطن عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے، طاقتوروں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے تحفظ کے لیے آئین میں من مانی ترامیم کیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا، کہا جا رہا ہے کہ 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہو گئی ہے۔ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔ تاحیات استثنیٰ سے احتساب کا تصور ختم ہو جائے گا۔ کیا آنے والے حکمران اسے قبول کر لیں گے یا ایک نیا آئینی پنڈورا باکس کھل جائے گا؟ کاش کہ ہمارے حکمران اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سمجھ لیتے اور حضرت عمرؓ کے عہد زریں سے رہنمائی حاصل کر لیتے۔

متعلقہ مضامین

  • صدرمملکت نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کر لیے
  • یوٹیوب اسٹار شام ادریس اور ان کی اہلیہ سحر کے ہاں تیسری بیٹی کی پیدائش
  • کیا مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین کی جگہ لے لے گی؟
  • آئینی دور
  • مستعفی ججز اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں، رانا ثنا اللہ
  • ٹرمپ کی H-1B ویزا حمایت پر اپنی ہی جماعت میں مخالفت کی لہر
  • عرفان صدیقی اعلیٰ شخصیت کے حامل انسان تھے، انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا، رانا ثنااللہ
  • سینیٹر افنان اللہ کی نواز شریف سے ملنے کی کوشش، پنجاب پولیس کا DSP بیچ میں آگیا، روکنے کی کوشش، نواز شریف کا اظہار ناپسندیدگی
  • میری جلد پاکستان کی مٹی کے رنگ کی ہے:مس یونیورس پاکستان روما ریاض کا ناقدین کو دوٹوک جواب