data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: صدر مملکت آصف زرداری نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کر لیے ہیں، یہ استعفے گزشتہ روز 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے کے پیش نظر دئیے گئے تھے،  دونوں ججز نے اپنے استعفے صدر مملکت کو ارسال کیے تھے، جنہیں ایوان صدر نے باضابطہ طور پر منظور کر لیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایوان صدر کے اعلامیے میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے دونوں ججز کے استعفے منظور کر لیے ہیں اور آئندہ عدالتی کارروائی کے لیے متعلقہ اقدامات کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق عدالت میں ان کے جانے کے بعد متبادل انتظامات پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد اور عدالت کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔

خیال  رہےکہ  جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ رات سپریم کورٹ کے ساتھی ججز سے الوداعی ملاقاتیں کیں اور اپنے چیمبرز میں جا کر انہیں اپنا فیصلہ بتایا،  ساتھی ججز نے انہیں استعفیٰ نہ دینے کی تلقین کی اور آخری وقت تک دونوں کو اپنے عہدے پر رہنے پر قائل کرنے کی کوشش کی، تاہم دونوں ججز اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے، ملاقات کے بعد دونوں ججز نے استعفیٰ دیا اور سپریم کورٹ سے روانہ ہو گئے۔

 عدالتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ساتھی ججز کی جانب سے متعدد بار کی گئی قائل کرنے کی کوشش کے باوجود منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ نے استعفیٰ دینے سے انکار نہیں کیا، جس سے عدالتی ماحول میں ہنگامی کیفیت رہی۔

واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے 27ویں ترمیم کے تحت بننے والے سیاسی اور آئینی ماحول کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔ اس ترمیم کے بعد عدلیہ اور آئین کی صورتحال پر ملک بھر میں بحث جاری رہی تھی اور دونوں ججز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ اس پس منظر میں کیا۔

اس واقعے کے بعد عدالتی حلقوں اور قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ کے عدالتی فیصلوں اور سپریم کورٹ کے آئینی کردار پر اس استعفے کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،  یہ اقدام عدلیہ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، جس کے اثرات طویل مدت تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے کے استعفے کے بعد

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے ججز منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ مستعفی

میرا ضمیر صاف اور دل میں پچھتاوا نہیں ،27 ویں ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ، میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو،جسٹس منصور
حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ اور دفاع کا حلف دیا تھا اب موجود نہیں رہا(جسٹس اطہر من اللہ)دونوں ججوںنے صدر مملکت کو استعفا بھجوادیا

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھیج دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ میں نے ادارے کی عزت، ایمانداری اور دیانت کے ساتھ خدمت کی۔جسٹس منصور نے اپنے استعفیٰ میں مزید لکھا ہے کہ میرا ضمیر صاف ہے اور میرے دل میں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔انہوں نے 27 ویں آئینی ترمیم کو آئین پاکستان پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ترمیم سے انصاف عام آدمی سے دور اور کمزور طاقت کے سامنے بے بس ہو گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم سے ملک کی ماہر اعلیٰ ترین عدالت کو منقسم اور اس کی آزادی پامال کر کے ملک دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ ایک ہی سپریم کورٹ رہی اور یہ ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔ 27 ویں ترمیم نے اس ڈھانچے کو توڑ کر سپریم کورٹ کے اوپر آئینی عدالت قائم کر دی۔جسٹس منصور نے یہ بھی کہا کہ 27 ویں ترمیم کو بغیر مشاورت اور بحث یا عدلیہ کی رائے کے ایوان سے منظور کیا گیا۔ اس ترمیم کا واحد مقصد حکومت کو اپنی مرضی کے ججز لگانے کا اختیار دینا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے مزید کہا کہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں حکومت میں قانون کی حکمرانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور جہاں عدالتی آزادی کو مقدس امانت کی طرح محفوظ رکھا گیا ہو۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفی میں لکھا کہ 11 سال قبل میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پھر اسی عدالت کے چیف جسٹس اور مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، تو اس پورے عرصہ کے دوران جو بنیادی وعدہ میں نے کیا تھا وہ ایک ہی تھا۔ یہ کسی آئین کا نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان کا حلف تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے پہلے میں نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا کہ چیف جسٹس پاکستان کو خط میں مجوزہ شقوں پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ ہماری آئینی ساخت کیلیے کیا معنی رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس خاموشی اور بے عملی کے اس ماحول میں میرے خدشات حقیقت بن چکے۔ اپنے حلف کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا سب سے بڑا اعزاز حاصل رہا ہے اور آج اسی حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ اور دفاع کا حلف دیا تھا اب موجود نہیں رہا۔جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ میں اس جھوٹ کے ساتھ نہیں جی سکتا کہ اب جو نئی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں وہ اسی آئین کی بقا پر کھڑی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ باقی رہ گیا ہے، وہ صرف ایک سایہ ہے۔ اب آئین میں نہ اس کی روح ہے اور نہ ہی وہ عوام کی آواز جس کے لیے یہ آئین وجود میں آیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ آئندہ نسلوں نے مختلف نظر سے دیکھنا ہے تو پھر ہمارا مستقبل ماضی کی غلطیوں کی تکرار نہیں ہونا چاہیے۔ ان ہی امیدوں کے ساتھ آج میں یہ جبّہ ہمیشہ کے لیے اتار رہا ہوں اور سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے اپنا باضابطہ استعفیٰ فوری طور پر پیش کرتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کر لیے
  • صدرمملکت نے جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس اطہر من اللّٰہ کے استعفے منظور کر لیے
  • سپریم کورٹ کے جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور
  • صدر آصف زرداری نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے استعفے منظور کر لیے
  • صدرِ مملکت نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کر لیے
  • صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے جسٹس منصور شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کرلیے
  • جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے مستعفی ہونے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • سپریم کورٹ کے ججز منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ مستعفی
  • سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ مستعفی