وحید الرحمن خان سے صرف ایک ملاقات ہے۔ ذہین آنکھیں رکھنے والا نوجوان۔ بڑے اطمینان سے، نیلے رنگ کی ایک کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔ اندازہ نہیں تھا کہ ناول لکھتے ہیں یا افسانہ نگار ہیں یا شاعری فرماتے ہیں۔ حسب عادت کتاب، کو اپنی اسٹڈی میں رکھ کر بھول گیا۔
ایک دو دن پہلے نظر پڑی تو ٹائٹل پر ’’خامہ خرابیاں‘‘ درج تھا اور نیچے برادرم وحید کی ایک شوخ سی تصویر تھی۔ معلوم پڑا کہ وہ تو مزاح نگار ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بلا کا مزاح لکھتے ہیں۔ آج کے حددرجہ پرآشوب اور مصنوعی دور میں، طنز ومزاح کی جانب رجوع کرنا، ہر خاص وعام کا کام نہیں۔ کتاب پڑھنی شروع کی تو ایک جہان حیرت وا ہو گیا۔ زبان پر مکمل عبور ہونے کے ساتھ ساتھ حددرجہ شائستہ تحریر سامنے آئی۔
ادنیٰ پن کا سایہ تک اس خوبصورت کتاب پر نہیں پڑنے دیا گیا۔ یقین فرمایئے اس کتاب کے مضامین پڑھنے کے بعد طبیعت شگفتہ سی ہو گئی۔ زوال تو خیر پورے معاشرے کو جکڑ چکا ہے۔ بالکل اسی طرح ادب بھی کافی حد تک مشکلات کا شکار ہے۔ ہزاروں شاعر، موجود ہیں۔ مگر اچھا شعر سنے ہوئے عرصہ گزر جاتا ہے۔ چند پرانے صاحبان ہیں، جو عرصہ دراز پہلے لکھی ہوئی نظموں اور غزلوں کی داد سمیٹ رہے ہیں۔ چلئے یہ بھی غنیمت ہے۔ مگر مزاح نگاری کا ادب تو بہت زیادہ سمٹ چکا ہے۔ اس فکری قحط میں برادرم وحید ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔
اب ذرا کتاب کے بارے میں عرض کرتا چلوں۔ چند اقتباسات پیش کر دوں۔
درپیش لفظ: یہ مضامین بنیادی طور پر ’’تبصرۂ کتب‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں لیکن ان میں مصنّفین کتب کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ یوں اس تصنیف میں بہت سی دیگر خامہ خرابیوں کے علاوہ خاکہ مستی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ ان تحریروں میں کہیں کہیں تنقید کے سنجیدہ نمونے بھی آ گئے ہیں جنھیں اگر سنجیدگی سے نہ پڑھا جائے تو پرلطف نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
لیلیٰ کی سہیلی:صوفیہ بیدار کے متعلق لکھتے ہیں: رنگریز صوفیہ بیدار کا اولین افسانوی مجموعہ ہے اور اس میں انھوں نے لیلیٰ کا افسانہ سنایا ہے۔ میں نے یہ افسانہ بہت دلچسپی سے سنا ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں:
سنتا ہوں بڑے شوق سے ’’افسانۂ لیلیٰ‘‘
کچھ اصل ہے، کچھ خواب ہے، کچھ طرز ادا ہے
صوفیہ بیدار نے بہت شوق سے لیلیٰ کی محبت کا افسانہ پیش کیا ہے، ہمیں لیلیٰ کے احساسات سے آشنا کیا ہے اور لیلیٰ کے جذبات کو زبان دی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ہجر میں لیلیٰ پر کیا صدمے گزرے ہیں اور وصل میں کیسے کیسے اندیشے ستاتے ہیں۔ صوفیہ نے کان لگا کر لیلیٰ کے دل کی دھڑکنوں کو سنا ہے اور اس صدائے دل کو ہمیں بھی سنایا ہے۔
شہر سے بڑا آدمی: اسلم انصاری تخلیق کے سفر میں قید مقام سے گزر گئے تھے۔ انھوں نے فارسی میں سخن وری کی اور فرنگ کی زبان میں بھی۔ انھوں نے انگریزی زبان میں بھی ایک شعری مجموعہ تخلیق کیا اور یوں اپنا ایک ذہنی وتخلیقی رشتہ مغرب کی شعری وعلمی روایت سے قائم کیا۔
حال ہی میں ان کا فارسی دیوان ’’گلبانگ آرزو‘‘ نقش ہائے رنگ کے لیے ظاہر ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک وہند میں علامہ اقبال کے بعد اسلم انصاری فارسی شاعری کے سب سے اہم شاعر ہیں۔ ان کے فارسی کلام کی خوش بو شہر ملتان سے شیراز کے گلستان تک جا پہنچی ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی، شہر سے بڑا ہو جاتا ہے۔ اسلم انصاری صاحب بھی اپنے شہر سے بڑے ہو گئے تھے۔ یہ شہر طلسمات، ان کے شہر دل میں بستا تھا۔ اسی لیے تو انھوں نے کہا تھا:
وسعت عالم ایک طرف، ملتانِ معلی ایک طرف
سچ پوچھو تو ہم لوگوں کو شہر ہمارا کافی ہے
سرمایۂ افتخار: ساہیوال کی صرف گائے ہی نہیں، شاعر بھی مشہور ہیں۔ خدا نے دونوں کو مختلف کام سونپے ہیں۔ گائے دودھ دیتی ہے، شاعری نہیں کر سکتی جب کہ شاعر شعر کہتے ہیں لیکن دودھ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ساہیوال میں ہونے والی شاعری خالص دودھ کی طرح شیریں ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس شہر کی شعری روایت کی تشکیل میں مجید امجد جیسے بلند پایہ نظم نگار شامل رہے ہیں۔ اب یہ روایت نوجوان شاعروں تک آ پہنچی ہے جن میں ایک نام افتخار شفیع کا بھی ہے۔ ایک ماہ قبل اس کی اولین شعری تصنیف نیلے چاند کی رات کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اور ہمیں اس عنوان سے معلوم ہوا کہ چاند ’’نیلا پیلا‘‘ بھی ہوتا ہے۔
پست قامت شاعر: طارق ہاشمی سے دوستی کی ایک وجہ شاعری تھی۔ وہ شاعر تھا اور میں ایک صابر اور ہمدرد سامع، چنانچہ ان بے گناہ کانوں نے زبانِ شاعر سے بہت سا تازہ اور باسی کلام سماعت کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ شنیدہ غزلیں اب کتاب کی شکل میں شائع ہو گئی ہیں۔ ’’دل دسواں سیارہ ہے‘‘ طارق ہاشمی کا نیا شعری مجموعہ ہے، جس میں میری کئی پسندیدہ غزلیں شامل ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
ہم نفس! قریۂ پرنور کے رہنے والے!
ایک مدھم سا دیا ہو، ترے کس کام کا ہوں
چھیڑ یار سے چلی جائے اسد: جمیل احمد عدیل نے کتاب کے آغاز میں ’’سرائے کالم گیر میں پہلا پڑاؤ‘‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ دیباچہ بھی تحریر کیا ہے۔ دیباچہ میں انھوں نے پرلطف پیرائے میں اپنی کالم نویسی کے آغاز کا قصہ بھی بیان کیا ہے۔ یہ قصہ جمیل کی زبانی سنتے ہیں: ’’رفیق دیرینہ، عطر فتنہ اشفاق احمد ورک نے جب کالم نگاری کا ڈول ڈالا تو ہم نے اسے طعنہ دیا ’’بالآخر تم بھی گالم گلوچ پر اتر ہی آئے۔‘‘ اس کا بے ساختہ قہقہہ ہمارے نوکیلے فقرے کا تریاق ثابت ہوا۔ ایک روز کہنے لگا ’’تمہارے اندر اتنی وِٹ (Wit) ہے، کالم کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ ہم سادہ خاطر کہ اس کے ’’کلمہ توصیفی‘‘ سے دھوکہ کھا گئے اور فوراً ہامی بھر لی۔‘‘
جوہر آباد کا جوہر قابل:
اس سے بڑھ کر اور کیا ہم پر ستم ہو گا منیر
مشورہ مانگا ہے اس نے فیصلہ کرنے کے بعد
صاحبو، یہ خوبصورت شعر منیر نیازی کا نہیں، بدر منیر کا ہے۔ یقینا آپ کو تجسس ہو گا کہ یہ کون ذاتِ شریف ہیں؟ تو ہم تعارف کرائے دیتے ہیں کہ بدرمنیر جوہر آباد کے جوہر قابل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اب تک ’’شانِ کئی‘‘ سے محروم ہیں۔ بدر منیر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
مقامی کالج میں اردو کے استاد ہیں۔ شہر میں سیکڑوں شاگرد اپنے سینوں پر ان کا داغِ تلمذ نشانِ حیدر کی طرح سجائے پھرتے ہیں۔ کالج کے استاد کے لیے ایم اے کی حد تک تعلیم کافی ہوتی ہے لیکن بدر منیر نے علم کی طلب میں ایم فل کا ہفت خواں بھی طے کر ڈالا۔ اس اضافی تعلیم نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ بال تک بیکا نہیں ہوا۔ وہ نہ سر سے گنجے ہوئے اور نہ ان کی بینائی کمزور ہوئی۔ ورنہ عام طور پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کی راہوں کے مسافر جوانی ہی میں بڈھے کھوسٹ ہو جاتے ہیں… نہ منہ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت! لیکن بدر منیر کے ساتھ ایسا کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
شعیب احمد… ’’سوغات‘‘ بدست: شعیب احمد ایک ایسا ہی مترجم ہے جو تخلیقی تجربے کی لذت اور کرب سے آشنا ہے۔ وہ اردو کا ایک عمدہ شاعر ہے اور افسانہ نگار بھی، گویا… ایک کریلا، دوسرا نیم چڑھا! فارسی میں ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے: دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را! بہرحال نیم یا کریلے کا ذائقہ ہو یا مجنوں کی زندگی… سب میں تلخی ضرور پائی جاتی ہے لیکن شعیب احمد کا نباتات یا مجنوں کی ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی شخصیت میں تلخی یا ترشی کا شائبہ تک نہیں۔ وہ ایک شیریں اطوار شخص ہے اور کیوں نہ ہو کہ فارسی جیسی شیریں زبان کا استاد ہے۔
شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ ’’استادی‘‘ نے بھی اس کی مترجمانہ صلاحیتوں کو خوب نکھارا ہے، اسی لیے تو ڈاکٹر معین نظامی نے لکھا ہے: ’’شعیب احمد میں وہ تمام ’’فنی خرابیاں‘‘ بہ یک وقت موجود ہیں جن کا کسی ایک شخص میں پایا جانا نادر الوقوع ہے۔ ان میں سے آدھی خصوصیات بھی اگر کسی میں ہوں تو وہ اچھا خاصا کامیاب ترجمہ نگار بن سکتا ہے۔‘‘ شعیب احمد اپنی ’’فنی خرابیوں‘‘ کے باعث سوغات کے نام سے تراجم کی ایک عمدہ کتاب تصنیف کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے کی ایک ہے اور کیا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
کیا مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین کی جگہ لے لے گی؟
اسلام ٹائمز: یاد رکھیئے کہ دینی تعلیم اور دینی تحقیق کا مقصد ایسے انسان پیدا کرنا ہے، جو فکر میں وسیع، جذبے میں خالص اور عمل میں سنجیدہ ہوں۔ علم ِدین اسوقت نور بنتا ہے، جب وہ انسان کو ظاہر سے باطن تک لے جائے اور تعلیم اسوقت تربیت بنتی ہے، جب وہ لفظ سے آگے عمل کا سفر طے کر لے۔ پس آنیوالے عہد میں وہی دینی مسلح یا دینی محقق کارگر ثابت ہوگا، جو اے آئی سے استفادہ کرنے کا ہُنر جانتا ہوگا۔ یوں انسانی مستقبل کی ٹریجڈی یہ نہیں ہوگی کہ مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین یا ایک دینی محقق کی جگہ لے لے گی بلکہ اگر ہم نے آج سے اے آئی کو سیکھنے کی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ یہ ٹریجدی جنم لے گی کہ ایک عالمِ دین اے آئی سیکھنے میں پیچھے رہ جائے گا اور یوں وہ ایک مرتبہ پھر دوسروں کی امامت و رہبری کرنے کے بجائے دوسروں کے پیچھے کھڑا نظر آئے گا۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
اے آئی کا ظہور ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ ایک ایسا عہد جس میں عقلِ انسانی اپنی توسیعِ ذات کو ایک غیر انسانی ذہن میں مجسم دیکھ رہی ہے۔ آج کا دور انسانی ذہن کی توسیع کا عہد بھی ہے اور اس توسیع کی آزمائش کا زمانہ بھی۔ اس کی مثال ایک ایسے آئینے کی سی ہے کہ جو صرف چہروں کو نہیں دکھاتا بلکہ چہروں کے پیچھے پوشیدہ ذہنی نقوش کو بھی منعکس کرتا ہے مگر پھر بھی خود انسان کی آنکھ نہیں بن پاتا۔ اے آئی تحقیق کے عمل کو زیادہ سریع، وسیع اور منظم بنا دیتی ہے۔ یہ مصادر و منابع کو لمحوں میں کھول دیتی ہے، معلومات اور دلائل کے درست راستے شناخت کر لیتی ہے اور پیچیدہ ڈیٹا کو آسانی سے ترتیب دے دیتی ہے، مگر انسانی محقق کی نیّت، اندرونی جستجو، تخلیقی تشنگی اور انسانی ضمیر و وجدان سے اٹھتے ہوئے حقیقی سوالات کا متبادل پیش نہیں کرسکتی۔ اے آئی تحقیق کا سارا سامان تو آمادہ کر لیتی ہے لیکن محقق کا خلا پُر کرنے سے عاری ہے۔
ایک دینی طالب علم اپنی تحقیق صرف معلومات کی جمع آوری کے لیے انجام نہیں دیتا بلکہ اپنی تحقیق کے نتائج کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتارنے اور اپنے آپ کو عقائد کے قالب میں ڈھالنے کیلئے انجام دیتا ہے۔ جس طرح ایک دینی مصلح انسان کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، اس طرح اے آئی انسان کے داخلی جہان کی باریکیوں کو چھونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اے آئی کا اوزار انسانی ہاتھ اور معلومات کی قوت کو ناقابلِ یقین حد تک بڑھاتا ہے، نیز اس سے انسانی ذہن کا کینوس وسیع تر ہو جائے گا۔ انسان اب تک اگر کسی میدان میں اپنی سوچ کا ایک شعبہ کھولتا ہے تو اے آئی سے اس شعبے کے کھلنے کے ہزار در ہزار امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ ذہنی افزائش اور تعلیم و ترقی کی ایک بے مثال قوت بن جائے گی۔
چنانچہ اے آئی ایک دینی طالب علم یا دینی محقق کی جگہ لینے سے قاصر رہے گی، چونکہ ایک دینی محقق کی جگہ وہ لے سکتا ہے، جسے انسانی تجربے اور انسان کے اندرونی و وجدانی تضادات کا ادراک ہو اور جس کے سوالات ضمیر کی بےچینی سے اٹھتے ہوں اور جس کے نتائج اس کے عقیدے کے سفر کا حصہ ہوں۔ اے آئی نہ نیّت رکھتی ہے، نہ عقیدہ، اسے نہ کوئی بےچینی ہے اور نہ کوئی اضطراب اور نہ ہی اس کے پاس وہ وہم، وسواس اور اندیشے ہیں، جو تخلیقِ تحقیق کا پہلا محرک ہوتے ہیں، جبکہ انسان تو عبارت ہی وہم، وسواس، اضطراب، بے چینی، تڑپ اور نیت و ارادے سے ہے۔ انسان جب سوچتا ہے تو اپنے زمانے، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور اپنے مسائل و دکھوں کے بوجھ کے ساتھ سوچتا ہے۔ یہی بوجھ علم کو تحقیق کی آنچ دیتا ہے۔ اے آئی تحقیق تو کرسکتی ہے اور کرتی رہے گی، لیکن وہ تحقیق کی وہ حرارت پیدا نہیں کرسکتی، جو ایک دینی محقق یا عالمِ دین پیدا کرتا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بلاشبہ اے آئی نئے اور جدید محققین کی نئی علمی پیدائش اور ان کے تحقیقی انداز میں جِدّت کا ذریعہ بنے گی۔ یہ جِدّت افکار اب ضروری بھی ہے، چونکہ انسان کا ذہن اب ایک ایسا افق پا چکا ہے کہ جہاں وہ اپنی فکری کمزوریوں اور عقائد کی غلطیوں کو اے آئی کے علم کے سہارے سے ٹھیک سکتا ہے اور اپنی علمی طاقت کو غیر انسانی ذہانت کی مدد سے کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔ ایک طالب علم کا اور علم دین کا مستقبل انسانی اور مصنوعی ذہانت کے اسی باہمی تعلق میں پوشیدہ ہے۔ ایک ایسا تعلق جہاں ایک مضطرب انسان سوال اُٹھاتا ہے اور اے آئی اس کیلئے جوابی امکانات کا آسمان کھول دیتی ہے، مگر سوال اور جستجو کا اصل نور اب بھی انسان کی اندرونی دنیا سے پھوٹتا ہے اور شاید ہمیشہ وہیں سے پھوٹتا رہے گا۔
اے آئی اور دینی طالب علم کے باہمی تعلق کو سمجھنے کیلئے دینی تعلیم کے مقصد اور دینی مدارس کے دائرہ کار سے آشنائی بھی لازمی ہے۔ ان کی غرض و غایت ذخیرہ ِالفاظ یا ذہنوں کو پراگندہ مطالب سے بھرنے کے بجائے انسانوں کو عقائد کے قالب میں ڈھال کر انہیں الہیٰ انسان بنانا ہے۔ صرف درست معلومات کو جمع کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، انسان کی اصل ضرورت تو درست عقیدے میں ڈھلنا ہے۔ اس میں ڈھلے بغیر کوئی انسان ایک نظریاتی شخص اور قابلِ اعتماد انسان نہیں بن سکتا، اسی طرح اگر انسانی تربیت عقیدے سے جنم نہ لے تو انسان نفسانی دباو اور خرافات کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لحاظ سے ایک حقیقی دینی درسگاہ یا دینی مدرسہ وہ تربیتی مرکز ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی عقل کو ایمان اور عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور پرکھنے کا تجربہ کرتا ہے۔
عقل اور عقیدے کی ہم آہنگی کے کیلئے زبان یعنی اظہار کی قوت ہی پہلا وسیلہ ہے۔ بلاشبہ اظہار کی قوت ہی فہم کی گہرائی پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ معانی کے در وا کرنے کیلئے دینی طلباء کو جہاں عربی کی بلاغت سکھائی جاتی ہے، وہیں فارسی و اردو کی نزاکتوں کے زاویے بھی اُن پر عیاں کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں پر بین الاقوامی برادری کے ساتھ افہام و تفہیم کی خاطر انگریزی زبان کی وسعتِ بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ زبان کا جمال فکر و احساس کو لطیف بناتا ہے اور اس کے بعد علمِ کلام کی مباحث کا اثر دلوں تک پہنچتا ہے۔ خطابت، تحریر اور مکالمے کی مشق طالب علم کو ایسا معلم بناتی ہے کہ جس کی بات کی عقل قدر دانی کرتی ہے اور دل اسے قبول کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل عہد اور مصنوعی ذہانت نے دینی مدارس کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ قلم اب سکرین پر چلتا ہے اور مکالمہ مائیک و کیمرے کے سامنے ہوتا ہے۔ اس دور میں دینی طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید ذرائعِ ابلاغ کے استعمال اور ان کی زبان سے آگاہ ہو۔ گرافک ڈیزائن، ویڈیو اور آڈیو مواد کی تیاری اور سوشل میڈیا پر علمی اظہار وہ راستے ہیں، جن سے دینی طلباء و علمائے دین کے پیغام کو مقبولیتِ عام ملتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی علم جب جدید اسلوب اختیار کرتا ہے تو تبھی وہ زندہ بھی رہتا ہے۔ اب اس پر آجائیے کہ تحقیق علمِ دین کی روح ہے۔ عام مطالعہ نہیں بلکہ تحقیق کی خاطر کیا جانے والا مطالعہ جب سوال میں ڈھلتا ہے تو فہم کی زمین زرخیز ہوتی ہے۔ دینی تعلیم جہاں روایت کا تسلسل ہے، وہیں تجدید کا شعور بھی۔ حوالہ، تجزیہ اور تنقیدی مطالعہ وہ اوزار ہیں، جن سے طالب علم روایت کی گہرائی میں اتر کر اس کے جوہر کو دریافت کرتا ہے۔ یعنی دماغوں کیلئے علم کی تازہ غذا اسی وقت آمادہ ہوتی ہے کہ جب انہیں تحقیق کی آنچ پر رکھ کر حرارت دی جائے۔
دینی درسگاہوں کو اپنے طلباء کے اندر تعلیم کے ذریعے وہ صفات پیدا کرنی ہوتی ہیں کہ جو اجتماعی نظم، مشاورت، دیانت اور خدمت کا شعور دیں۔ المختصر یہ کہ دینی تعلیم کا مقصد یہی ہے کہ علم، عمل اور اخلاق ایک وحدت میں پروئے جائیں۔ اس زاویے سے مالی بصیرت بھی دینی تعلیم کا ناگزیر پہلو ہے۔ اب دینی مدارس اگر فنانشل لٹریسی کے میدان میں پیچھے رہ جائیں تو اس میں اے آئی کا کوئی قصور نہیں۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ خود کفالت ایک عالمِ دین کے وقار کو بڑھاتی ہے۔ اسلامی مالیات، شفافیت اور امانت کے اصول طلباء میں عملی ذمہ داری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اے آئی ان اصولوں کو سمجھنے اور اپنانے کیلئے بہترین معاون، مشیر اور رہنماء ہے۔ جس طالب علم کے اندر اے آئی کی وساطت سے معیشت کی سوجھ بوجھ پیدا ہو جائے گی، وہ آنے والے زمانے میں نہ کسی کا محتاج بنے گا اور نہ موقع پرست۔
اس حقیقت کو درک کیجئے کہ جب ذہن مقصدِ وجود پر غور کرتا ہے تو اس میں بصیرت جنم لیتی ہے۔ اے آئی کی تعلیم ایک دینی طالب علم کو یہ سمجھ عطا کرتی ہے کہ اختلاف ِرائے کسی بھی شکل میں ہو، وہ تنوع کی علامت اور نوآوری کی ضرورت ہے۔ اختلاف رائے سے ڈرنے کے بجائے اختلاف کا حل سیکھنا علم ِدین کی روحانی پہچان ہے۔ جو دلوں کے زخم سمجھ لیتا ہے، وہ نفوس کی اصلاح کا اہل ہوتا ہے۔ اختلاف کو تہذیب سے سلجھانے اور دوسروں کے احساس کو سمجھنے کی صلاحیت علم کو اخلاق کا لباس عطا کرتی ہے۔ اس میدان میں ایک دینی طالب علم کیلئے اے آئی ایک بہترین معاون اور رہنماء ہے۔ عملی اور فنی مہارتیں وحی پر مبنی دینی تعلیم کو زمینی حقیقت سے جوڑتی ہیں۔ ترجمہ، تدوین اور تعلیمی مواد کی تیاری وہ ہنر ہیں، جو علم کو عمل میں ڈھالتے ہیں۔ جب دینی طالب علم اپنے علم کو اے آئی کی طاقت سے سماج میں خدمت کا ذریعہ بنائے گا تو یہی معاصر عہد میں علم نافع کی واضح شکل بھی ہوگی۔
اسی طرح جب ایک دینی طالب علم مختلف تہذیبوں اور ادیان کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ فہمِ غیر دراصل خود فہم کی پہلی شرط ہے۔ دینی تعلیم اسی وقت کامل ہوتی ہے، جب وہ انسان کو اپنے دائرے سے نکل کر عالمِ انسانیت کے وسیع منظر سے روشناس کرائے۔ اے آئی ایسے مطالعے کی ایک وسیع دنیا فراہم کرتی ہے۔ آخر میں یاد رکھیئے کہ دینی تعلیم اور دینی تحقیق کا مقصد ایسے انسان پیدا کرنا ہے، جو فکر میں وسیع، جذبے میں خالص اور عمل میں سنجیدہ ہوں۔ علم ِدین اس وقت نور بنتا ہے، جب وہ انسان کو ظاہر سے باطن تک لے جائے اور تعلیم اس وقت تربیت بنتی ہے، جب وہ لفظ سے آگے عمل کا سفر طے کر لے۔ پس آنے والے عہد میں وہی دینی مسلح یا دینی محقق کارگر ثابت ہوگا، جو اے آئی سے استفادہ کرنے کا ہُنر جانتا ہوگا۔ یوں انسانی مستقبل کی ٹریجڈی یہ نہیں ہوگی کہ مستقبل میں اے آئی ایک عالمِ دین یا ایک دینی محقق کی جگہ لے لے گی بلکہ اگر ہم نے آج سے اے آئی کو سیکھنے کی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ یہ ٹریجدی جنم لے گی کہ ایک عالمِ دین اے آئی سیکھنے میں پیچھے رہ جائے گا اور یوں وہ ایک مرتبہ پھر دوسروں کی امامت و رہبری کرنے کے بجائے دوسروں کے پیچھے کھڑا نظر آئے گا۔