ستائیسویں ترمیم؟ ایسی کیا وجوہات تھیں کہ اتنی عجلت میں ستائیسویں ترمیم پیش کی گئی اور پاس بھی کردی گئی؟ بلاول بھٹو نے ایک ٹوئٹ کیا، وزیرِاعظم شہباز شریف ان کے دروازے تک جا پہنچے، بہت سی ترامیم کی بات کی گئی مگر بقول بلاول بھٹوکہ انھوں نے بہت کم ترامیم پر اپنی رضامندی دی اور چونکہ آئینی عدالت کا وعدہ بے نظیر بھٹو نے بھی کیا تھا، سو اس وعدے کو پورا کیا گیا۔
کیا یہ ممکنات میں سے ہے کہ سینتالیس صفحوں پر مبنی، ستائیسویں ترمیم دونوں جماعتوں کے مابین صرف چند ملاقاتوں میں طے پا گئی۔
سیلاب آنے کے بعد مریم نواز نے جس طرح سے سندھ حکومت کے لیے بیانیہ بنایا، اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان حکومتی اتحاد شاید چند دنوں تک ہی قائم رہے گا اور پھر وجوہات کیا ہیں کہ ان تمام تر تلخیوں اور نااتفاقی کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے اور اسی رازکی پردہ داری ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی مخالفت نے اس اتحاد کو جوڑا ہوا ہے۔ بانی پی ٹی آئی آج کل انقلابی سیاست کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ ایک سابق وزیراعظم اس حد تک جا چکے ہیں اور پسِ آئینہ ایک اور حقیقت بھی ہے نومئی واقعات کا ٹرائل ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے اور اس فیصلے کا اعلان بھی جلد ہی متوقع ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کی آئینی پٹیشن، آئینی بینچ کے فل کورٹ میں سنی جا رہی ہے اور اس پٹیشن کو وہ لوگ سن رہے ہیں جو خود چھبیسویں ترمیم سے مستفیض ہوئے ہیں۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کا کیس یہ ہے کہ یہ ترمیم آئین کی روح کے منافی ہے، اس سے عدلیہ کی آزادی ختم ہوتی ہے اور یہ بھی کہ یہ ترمیم آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ چھبیسویں ترمیم بھی عدلیہ سے متعلق تھی اور ستائیسویں ترمیم کا آدھا حصہ بھی عدلیہ کے ہی متعلق ہے۔
اس ترمیم کا مزید آدھا حصہ آرٹیکل 243 کے متعلق ہے ۔ مجھے ابھی ان تمام ترامیم کا بغور مطالعہ کرنا ہے اور اس کے بعد کوئی حتمی رائے دی جا سکتی ہے ۔
آئین کے آرٹیکل 175 میں ترمیم کرکے آئینی عدالت بنائی گئی ہے۔ اس ترمیم نے ایک سال کے اندر ہی چھبیسویں ترمیم کے بہت سے حصوں کو ختم کر دیا ہے۔
اب بظاہر چارٹر آف ڈیموکریسی کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے امریکا کے نظام کی طرح آئینی بینچ کو سپریم کورٹ سے الگ کرکے، آئینی عدالت بنا دی گئی ہے۔ توکیا یہ عدالتیں، صوبائی سطح پر ہائی کورٹ سے ایک الگ حیثیت اختیارکریں گی؟
ابھی یہ بھی دیکھا جائے گا۔ وفاقی آئینی عدالت میں تمام جج صاحبان، جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر آئیں گے جہاں اس وقت حکومتی اتحاد کا کوئی مسئلہ نہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس نے سوموٹو کے زور پر اور وکلاء تحریک کے زور پر، حکومت کو مجبورکیا کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کو وہ چلنے نہیں دیں گے، اگر انیسویں ترمیم کر کے عدلیہ کے ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ رول کو ختم نہیں کیا گیا۔
بلآخر انیسویں ترمیم لائی گئی اور اس ترمیم کے توسط سے چیف جسٹس صاحبان عدلیہ کی آزادی کے نام پر اپنی مرضی کے ججز لے کر آئے جیسا کہ جسٹس ثاقب نثار، جسٹس بندیال اور بہت سے ججز جن کے فیصلے ہم سب کے سامنے ہیں، جنھوں نے اپنے فیصلے لکھتے ہوئے خود آئین کو تحریرکیا۔ پھر ان جج صاحبان کے خلاف انقلاب تو لازمی آنا تھا۔
جنرل مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں جن ججز کو ہٹانے کی کوشش لیکن وکلاء تحریک نے اس تبدیلی کو ناکام بنایا۔ 2007 جنرل مشرف کے دور میں جن جج صاحبان کی تقرریاں ہوئیں، ان کو معزول چیف جسٹس نے بحالی کے بعد قلم کی جنبش نے چلتا کیا۔
چھبیسویں ترمیم کا کیس، جس کی سماعت اس وقت آئینی بینچ میں ہو رہی ہے وہ ادھوری رہ گئی۔ تحریک انصاف اور ان کی جماعت کے وکلاء اچھا کام کر رہے تھے اور اس حوالے سے ایک مجموعی رائے پیدا ہو رہی تھی۔
کورٹ کی تمام پروسیڈنگ براہِ راست نشرکی جا رہی تھی، مگر یہی کام پی ٹی آئی، پارلیمنٹ میں نہیں کرپائی کہ اس پر ایک بحث ہوتی کہ یہ ترمیم آئین کی روح کے منافی ہے۔
اس جماعت کا رویہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر انارکی طرزکا ہے اورآج جو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ ہے۔ حزبِ اختلاف کی نشستوں پر اگر وہ جمہوری انداز میں بیٹھتے جس طرح سے بے نظیر بھٹوکو مجبورکرکے ستائیس سیٹوں کے ساتھ بٹھایا گیا تھا، مگر وہ یہ اپوزیشن نہ کرسکی۔
انھوں نے جو طرزِعمل اپنایا اس نے نہ صرف جمہوریت بلکہ آئین کو بھی سنگین نقصان پہنچایا۔ جس طرح وکلاء تحریک کے بعد لاہور پر ایک مخصوص گروہ کے اثرات کو زائل کرتے کرتے ہمیں اپنی عدلیہ کی آزادی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا، اسی طرح تحریک انصاف نے جو انارکی پھیلائی، حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ کر آج جو تبدیلیاں آئی ہیں، اس میں ان حالات کا بھی حصہ ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
(میر تقی میر)
اب آئین ہمارے سامنے ہے۔ بقول ایک سینٹر کے کہ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ اب ان کی باتیں اور بھی سنجیدگی سے سنی جائیں گی۔
صدر مشرف معزول کیے گئے ججوں کو بحال نہیں کرنا چاہتے تھے اور کچھ خاص لوگ ان ججوں کی بحالی چاہتے تھے، لہٰذا وکلا تحریک کے ذریعے جنرل مشرف کو مجبور کیا گیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔
اس عمل جن کو فائدہ ہوا، ان کا علم سب کو ہے، انھی قوتوں کی پیداوار ہیں عمران خان۔ جسٹس ثاقب نثارکے فیصلوں اور جنرل فیض حمید کی محبتوں نے ان کو لیڈر بنایا۔ پاکستان کی اٹھہتر سالہ تاریخ میں تیسرا اہم موڑ آ رہا ہے۔
پہلا تھا سردجنگ کا تسلسل،آئین سے انحراف اور مشرقی پاکستان جو سیاسی اعتبار سے ہم سے بہت آگے تھا، وہاں مڈل کلاس قیادت تھی۔ وہاں جمہوریت کو مضبوط رکھنے کے لیے دانشوروں، شاگردوں اور مزدوروں کا اہم کردار تھا۔ یہ وہ ہی لوگ تھے جن کو لیاقت علی خان نے مسلم لیگ سے نکال دیا تھا۔
شہید سہروردی کی وفات کے بعد یہ لوگ شیخ مجیب کے ساتھ ہوئے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی تاریخ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جب جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ جمایا، مگر اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کو چھبیس سال بعد ایک جامع اور متفقہ آئین دے گئے۔
جنرل ضیاالحق نے اس ملک کو امریکا ، عالمی کیپٹلسٹ پاورز اور افغانستان کے رائٹسٹوں، شاہ پرستوں اور مذہبی انتہاپسندوںکی ایما پر افغان جہاد میں دھکیل دیا اور اب تیسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے، جہاں ہم چالیس سال بعد افغان پالیسی سے جان چھڑا رہے ہیں۔
یہ تبدیلیاں ایک ڈاکٹرائن کے پسِ منظر میں ہوئی ہیں۔ اس ڈاکٹرائن کی شروعات یا اختتام کہاں سے ہوا ہے، یہ میں نہیں جانتا۔ افغانستان کے حوالے سے اس ملک کی ایک بہت بڑی سرجری ہونے جا رہی ہے ۔14 اگست1947 کی جو صبح طلوع ہوئی تھی، اس وقت جو بادل پاکستان پر منڈلا رہے تھے، اٹھہتر سال گزر جانے کے باوجود وہ اب بھی منڈلا رہے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ستائیسویں ترمیم چھبیسویں ترمیم ا ئینی عدالت ہے اور اس ترمیم کا رہے ہیں کے بعد
پڑھیں:
سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری
اسلام آباد:قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
گزٹ نوٹیفکیشن سینیٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کیا گیا، ایوان زیریں اور بالا سے 56 ترامیم منظور کی گئیں۔
واضح رہے کہ آئینی ترمیم میں عدلیہ، عسکری قیادت اور وفاقی و صوبائی اختیارات سمیت کئی اہم آئینی دفعات سے متعلق تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔
ججز کے تبادلے کی اختیار میں تبدیلی، عسکری سربراہی ڈھانچے میں ترمیم، اور ایک نئے وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر غور کیا گیا تھا۔
آئینی ترمیم کا مسودہ سب سے پہلے وفاقی کابینہ سے منظور کیا گیا تھا۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تینوں سروسز چیفس اور عدلیہ سے متعلق قوانین میں ترمیم کی منظوری دی گئی تھی۔