Jasarat News:
2025-11-13@22:11:23 GMT

اعلیٰ عدلیہ اور 27 ویں آئینی ترمیم

اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251114-03-2

 

مجلس شوریٰ کے ایوان بالا سینیٹ کے بعد ایوان زیریں قومی اسمبلی نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء میں اتفاق رائے سے منظور شدہ آئین میں 27 ویں ترمیم کی منظوری دے دی۔ اس ترمیم میں ترامیم کا سلسلہ بھی آخری دم تک جاری رہا اور ابھی شاید اگلے مرحلہ میں جلد بازی میں منظوری کی تھی اس ترمیم کو قابل عمل اور قابل قبول بنانے کے لیے مزید ترامیم کے لیے 28 ترمیم لانا بھی ضروری ہو جائے۔ بدھ کے روز مجلس شوریٰ کے ایوان زیریں میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا سے منظور شدہ 27 ویں ترمیم کا بل، چار شقیں منہا کرنے اور چار مزید شقیں شامل کرنے کی ترامیم کے ساتھ پیش کیا۔ ان نئی ترامیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جلد بازی میں تیار کیے گئے ترمیم کے مسودہ میں بہت سے ابہام رہ گئے تھے جس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مسودہ کو ایوان بالا میں پیش کرنے سے قبل اس بات کا شدت سے اہتمام کیا گیا کہ کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہونے پائے چنانچہ جب ایوان بالا سے منظوری کے بعد ترمیم کی تفصیلات سامنے آئیں تو خود حکومت کے حامی ماہرین آئین و قانون اور غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے اس میں موجود بہت سے سقم اُجاگر کیے گئے اور ان کی وجہ سے ترمیم کی منظوری کے بعد پیش آمدہ ممکنہ آئینی و قانونی اور عملی پیچیدگیوں کی نشاندہی کی گئی جس کے بعد ایوانِ زیریں، قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل ہنگامی طور پر بل میں ترامیم کرنا پڑیں۔ قومی اسمبلی نے حزب اختلاف کے شدید احتجاج اور واک آئوٹ کے باوجود ستائیسویں آئینی ترمیم کے اس بل کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی ترمیم کے حق میں 234 ووٹ اور مخالفت میں صرف جمعیت علماء اسلام کے چار ووٹ ڈالے گئے حزب اختلاف کے دیگر ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ایوان بالا اگرچہ پہلے سے 27 ترمیم کی منظوری دے چکا ہے مگر ترمیم میں کی گئی ترامیم کے باعث اب اسے ایک بار پھر سے ایوان بالا میں پیش کیا گیا ہے جہاں حکومت کو دوبارہ دو تہائی اکثریت کی ضرورت پیش آئے گی جسے قبل ازیں جمعیت علماء اسلام (ف) اور تحریک انصاف کے ایک ایک رکن کو پارٹی پالیسی سے انحراف کروا کر پورا کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے سبب یہ دونوں ارکان سینیٹ کی رکنیت سے محروم ہو سکتے تھے اس لیے تحریک انصاف کے منحرف رکن نے حکومت کی جانب سے دوبارہ منتخب کروانے اور بعض دیگر یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے 27 ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے فوری بعد ایوان بالا سے استعفا دے دیا تھا مگر قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل میں آٹھ نئی ترامیم کی وجہ سے پیدا شدہ نئی صورت حال میں حکومت کو ایک بار پھر ان کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے کیونکہ عین ایوان بالا میں 27 ترمیم پیش کیے جانے کے روز حکومت کو اپنے ایک سینیٹر عرفان صدیقی کی وفات سے بھی دھچکا اور عددی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ تازہ ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے تحریک انصاف کے منحرف اور مستعفی رکن سیف اللہ ابڑو کے استعفے پر کارروائی روک دی ہے، چیئرمین سینیٹ نے ان کے استعفے پر دستخط بھی نہیں کیے اور آئین کی دفعہ 63۔ الف کے تحت ان کے خلاف ریفرنس بھی نہیں بھجوایا جا سکا۔ اس طرح حکومت ان کا ووٹ ایک بار پھر اپنے حق میں استعمال کر سکے گی۔ غالب امکان ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک حکومت دوبارہ ایوان بالا سے 27 ویں ترمیم کے حق میں دو تہائی ارکان کی رائے سے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی اور اس کا حلیہ بگاڑنے کا اپنا مشن مکمل کر چکی ہو گی۔

ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بجا طور پر عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ عدلیہ کو بے دست و پا کرنے کی کوشش ہے جیسا کہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بھی لاہور بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور پھر ملتان بار ایسوسی ایشن اور اسلامک لائرز موومنٹ کے ارکان اور عہدیداران سے خطابات کے دوران کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں 27 ویں ترمیم سے عدلیہ اقلیت اور حکومت اکثریت میں آ گئی ہے اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو سرنگوں رکھنے کا پورا بندوبست کیا گیا ہے یہ لوگ پہلے بھی عدلیہ کو نہیں مانتے تھے، اب بے توقیر کر کے عدلیہ کے مکمل خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے ہیں۔ صدر، چیف آف اسٹاف یا کوئی بھی بڑا محاسبے سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے اور کسی صورت بھی قابل قبول نہیں، ہماری تاریخ روشن اور تابناک ہے، محاسبہ کا نظام اس قدر ضروری ہے کہ خود نبی اکرمؐ نے بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا۔ نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا، پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو پکڑ لیتے اور امیروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس ضمن میں مفتی تقی عثمانی بھی فتویٰ دے چکے ہیں کہ اسلام میں کوئی بھی احتساب سے بالاتر اور مستثنیٰ نہیں حتیٰ کہ خلفائے راشدین خلیفہ ہوتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے عدالتوں کے روبرو پیش کرتے رہے۔ بلاشبہ اس ترمیم کے ذریعے ملک کے عدالتی نظام کو تباہی سے دو چار کرنے کا پورا سامان کیا گیا ہے اسے واضح طور پر انتظامیہ کے تابع کر دیا گیا ہے اور ملک کی عدالت عظمیٰ سے بالا تر ایک اور عدالتی نظام بٹھا دیا گیا ہے سوال یہ ہے ایک بالاتر عدالت کے ہوتے ہوئے عدالت عظمیٰ ’’سپریم‘‘ کیسے رہے گی ؟؟ یہ امر قدرے اطمینان بخش ہے کہ ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد حزب اختلاف نے بھی کروٹ لی ہے اور بدھ کے روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں حزب اختلاف کے اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ اس ترمیم کی بنیاد پر جمعہ سے حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا، ہم حکومت کا جینا دوبھر کر دیں گے اور تمام غیر ملکی سفیروں کو خطوط لکھیں گے کہ اس حکومت سے جو بھی معاہدے کیے ہیں وہ ختم کر دیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر خاں اور حزب اختلاف کے ارکان کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں نامزد قائد حزب اختلاف محمود خاں اچکزئی نے حکومت کو خبردار کیا کہ دنیا کے خطرناک ممالک ہمیں لڑانا چاہتے ہیں، ہمیں جنگ کا راستہ روکنا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا آئین بالادست ہو گا، طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہو گی، تمام صوبوں کی معدنیات پر پہلا حق اس صوبے کا ہو گا۔ اسپیکر کی جانب سے حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت کے جواب میں محمود خاں اچکزئی کا کہنا تھا کہ جو بھی مذاکرات کرنا ہیں ہم تیار ہیں، مذاکرات اس بات پر ہوں گے کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ انہوں نے عدلیہ کے ججوں سے درخواست کی کہ آپ اپنے قلم سے ترامیم کی اس تمام کارروائی کو فارغ کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ ذکر نا مناسب اور بے جا نا ہوگا کہ عدالت عظمیٰ کے بعد عدالت عالیہ لاہور میں بدھ کے روز 27 آئینی ترمیم کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ درخواست میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم آئین کی بنیادی روح سے متصادم ہے۔ دیکھنا یہ ہے ملک کی اعلیٰ عدالتیں اس ضمن میں کب اور کیا فیصلہ سناتی ہیں؟

 

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ویں ا ئینی ترمیم تحریک انصاف کے ایوان بالا سے حزب اختلاف کے قومی اسمبلی کیا گیا ہے ویں ترمیم حکومت کو ترمیم کے ترمیم کی میں پیش نے بھی کے روز کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اپوزیشن رہنماؤں کی پریس کانفرنس: 27ویں ترمیم سے ججز کے تبادلوں کے اختیارات حکومت کو مل گئے

پارلیمنٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اسے آئین، عدلیہ اور جمہوری اداروں پر براہِ راست حملہ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرام راجہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت سے پیش ہو کر آئے ہیں اور آج سے ہی جج صاحبان کے رویے میں واضح تبدیلی دیکھی ہے۔

ان کے مطابق عدالتی نظام عملاً ختم ہو چکا ہے۔ عوام نے مسلم لیگ (ن) کو صرف 16 نشستیں دی تھیں، لیکن انہیں پیپلز پارٹی کی مدد سے دو تہائی اکثریت میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم صدرِ مملکت کو تاحیات استثنیٰ دے کر قانون سے بالاتر بنا رہی ہے۔ پرویز مشرف جیسے آمر کو بھی عدالت نے آئین شکنی پر سزائے موت سنائی تھی، لیکن آج کے حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھ رہے ہیں۔

سلمان اکرام راجہ کا کہنا تھا کہ کل سینیٹ سے 27ویں ترمیم 64 ووٹوں سے منظور کی گئی، اور سب جانتے ہیں کہ سینیٹ کی موجودہ تشکیل 26ویں ترمیم کے بعد کس طرح ممکن ہوئی تھی۔ آج عدلیہ کے ججوں کے چہرے مایوس اور دل بجھے ہوئے ہیں۔

سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی انتقال کر گئے تھے، تو حکومت نے دعا کرنے کے بجائے عجلت میں 27ویں آئینی ترمیم منظور کر لی۔

’اس ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس کی حیثیت بھی ختم کر دی گئی، عدلیہ پر قبضہ کر لیا گیا اور ججز کے تبادلوں کے اختیارات حاصل کر لیے گئے۔ جو جج ان کے خلاف فیصلہ دے گا، اس کی ٹرانسفر کر دی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم میں عدلیہ کو کمزور کیا گیا اور اب 27ویں ترمیم سے چند افراد کو مزید طاقتور بنا کر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ’عوام بھیڑ بکریاں نہیں، عوام جاگ چکی ہے اور جلد ان حکمرانوں کا احتساب کرے گی۔‘

سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹرعلامہ راجہ ناصر عباس نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اب بے آئین ہو چکا ہے، جس صدر کی تاریخ سب کے سامنے ہے، اسے تاحیات استثنیٰ دے دیا گیا ہے، یہ آئین نہیں بلکہ چند طاقتوروں کا منشور ہے۔

’جس بھٹو نے اس ملک کو آئین دیا، اس کی حکومت ایک جنرل نے گرائی تھی، اور اب انہی ترامیم سے چار خدا بنا دیے گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ آئین میں صاف درج ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لیکن آج ذاتی مفاد کے لیے آئین کو مسخ کر کے چند افراد کو نوازا گیا ہے۔

’عوام ان چہروں کو پہچانیں جو ووٹ کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ اب ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘

وائس چیئرمین تحریک تحفظ آئین، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 2 ججز کا خط سامنے آیا، تاہم یہ معاملہ اب محض خط لکھنے کے مرحلے سے آگے بڑھ چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے ذریعے وہ ستون منہدم کیا جا رہا ہے جو پاکستان کی عدلیہ کی آزاد حیثیت اور عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے مزید کہا کہ پاکستان کی عدلیہ، سیاسی جماعتیں، اپوزیشن کے قائدین اور عوام اس ترمیم پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، آزاد عدلیہ ہر شہری کا حق ہے۔

ججز کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ عوامی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے تمام ذمے دار ادارے اپنا کردار ادا کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم پریس کانفرنس پی ٹی آئی تاحیات استثنیٰ سلمان اکرم راجہ سینیٹ علامہ راجہ ناصر عباس لطیف کھوسہ مجلس وحدت مسلمین

متعلقہ مضامین

  • آج اس ایوان نے قومی اتحاد کو فروغ دیا، وزیراعظم کی آئینی ترمیم کی منظوری پر ارکان کو مبارکباد
  • اعلیٰ عدلیہ کے ردعمل کے بعد مجوزہ 27ویں ترامیم میں تبدیلی زیرِ غور، کیا بل واپس سینیٹ جائے گا؟
  • 27ویں آئینی ترمیم میں تکنیکی غلطی کوئی نہیں ہے،قومی اسمبلی کے ایوان میں دو تین اچھی تجاویز دی ہیں اس پر بات ہو رہی ہے،اعظم نذیر تارڑ
  • پاکستان کا ایوان بالا …… امن، سلامتی اور ترقی کے لیے عالمی پارلیمانوں کو یکجا کرنے والا اہم فورم
  • 27ویں ترمیم، آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی،جسٹس منصورکا چیف جسٹس کو خط
  • اپوزیشن رہنماؤں کی پریس کانفرنس: 27ویں ترمیم سے ججز کے تبادلوں کے اختیارات حکومت کو مل گئے
  • قومی اسمبلی اجلاس شروع، حکومت 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظوری کے لیے تیار
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
  • 26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا‘ آزاد عدلیہ کے بغیر انصاف ممکن نہیں‘ لطیف کھوسہ