26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا‘ آزاد عدلیہ کے بغیر انصاف ممکن نہیں‘ لطیف کھوسہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پی ٹی آئی رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ آزاد عدلیہ کے بغیر معاشرے میں انصاف ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا۔ وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ فسطائیت نے نظام مکمل طور پر خراب کردیا ہے۔ 26ویں ترمیم میں بھی اسی طرح شب خون مارا گیا تھا۔ کس طرح آدھی رات کو حالات بدلے گئے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے چیف جسٹس عبد الرشید نے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات سے معذرت کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ملاقات کا اثر کیسز کے نتائج پر نہ مرتب ہو۔انہوں نے کہا کہ جس قوم کو انصاف ملتا ہے وہ قوم کبھی شکست نہیں کھاتی۔ 8 فروری 2024ء کو عوام نے مینڈیٹ تحریک انصاف کو دیا اور پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان بلا ہی چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود عوام نے من پسند نمائندوں کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا۔ ہمارے فارم 45 کے تحت 180 اور ن لیگ کو 17 سیٹیں ملی۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ الیکشن کی ہار تسلیم کرتی تو سیاست پر مثبت اثر پڑتا۔ اگر مخصوص نشستوں پر بھی ہمیں ملتی تو ہمیں 230 نشستیں ملتیں،عوام کے ووٹوں پر آج بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہیں۔ لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں ترمیم کرکے من پسند ججز کو نظام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقصد یہ کہ فیصلوں کے نتائج تحریک انصاف کے خلاف آئیں۔قانون کہتا ہے فراڈ کی بنیاد پر کوئی عمارت نہیں ٹھہر سکتی۔ حکومت نے 26ویں ترمیم میں جے یو آئی کو بھی دھوکا دیا تھا۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے زیر اثر آئینی بینچ بنایا گیا۔ ہمیں بتائیں کہ اس آئینی بینچ نے کون سا بڑا فیصلہ سنایا۔ جسٹس منصور علی شاہ ایک جید قسم کے جج ہیں۔ ان کا ایک عالمی مقام ہے۔ 17 ججز کے آئینی بینچ سے فیصلہ ریورس کروایا گیا۔ اس آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ ان مخصوص نشستوں کی بھی ہم نے بندر بانٹ دیکھی۔ ان کو مخصوص نشستیں دے دی گئیں، جن کا حق ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو جید ججز ہیں، ان کو بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ من پسند فیصلے کروانے کے لیے اب پیراشوٹر ججز کی تعیناتی کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف عدالتوں کے بعد اب اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی قبضے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ آئینی بینچ کے بننے کے بعد ایک بھی فیصلہ عوامی مفاد کے حق میں نہیں آیا۔ آئینی بینچ کے زیادہ فیصلوں میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو ریورس کرتے دیکھا گیا ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری پارٹی سرے سے ختم کردی اور حکومت کے لیے گراونڈ کو کلیئر کیا۔ ان فیصلوں کے بعد حکومت کے لیے بھی آسانی ہوگئی کہ جس رہنما کو چاہیں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری، وزیراعظم نے حکومتی، اتحادی سینیٹرز کو عشائیے پر بلا لیا
سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی، وزیراعظم نے حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کو آج عشائیے پر مدعو کرلیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ عشائیے کا مقصد آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پارلیمانی حکمت عملی کو حتمی شکل دینا اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہے۔
وزیراعظم اس موقع پر سینیٹرز کے تحفظات بھی دور کریں گے، وزیراعظم کی جانب سے تمام حکومتی اور اتحادی سینیٹرز کو دعوت نامے موصول ہو گئے ہیں۔
عشائیہ آج شام ساڑھے 6 بجے وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا۔
27ویں ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی کے سپرد
27ویں آئینی ترمیم کا بل ہفتے کے روز سینیٹ میں پیش کر دیا گیا تھا، اور اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا تھا، کچھ دیر قبل ہی وفاقی کابینہ نے اس کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
تقریباً دوپہر کو سوا ایک بجے کچھ تاخیر سے شروع ہونے والے سینیٹ اجلاس کا آغاز ہوا تو وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سوال و جواب کے سیشن اور دیگر کارروائی معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اراکینِ سینیٹ کو ترمیم سے آگاہ کر سکیں۔
وزیرِ قانون نے بل ایوانِ بالا میں پیش کیا، جس پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اسے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو جائزے اور غور کے لیے بھیج دیا تھا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ ایوان میں پیش کیا گیا بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر تفصیلی غور کرے، پارلیمانی روایت اور آئینی ترامیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین اور اراکین کو بھی مدعو کرے تاکہ وہ اس عمل میں شریک ہو سکیں اور اپنی تجاویز دیں۔
انہوں نے مزید کہاتھا کہ دونوں کمیٹیاں مشترکہ اجلاس منعقد کر سکتی ہیں اور تفصیلی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی۔
اجلاس کے دوران تحریکِ انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ جب اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی ہے تو آئینی ترمیم پر بحث مناسب نہیں، حکومت اور اتحادی جماعتیں بل کو جلد بازی میں منظور کرانا چاہتی ہیں۔
علی ظفر نے کہا تھا کہ میں یہ مشورہ دوں گا کہ اسے کمیٹی میں بھیجنے کے بجائے پورے سینیٹ کو ہی کمیٹی تصور کیا جائے تاکہ تمام اراکین بحث میں حصہ لے سکیں, اپوزیشن کو آج ہی بل کا مسودہ ملا ہے اور اب تک انہوں نے اسے پڑھا بھی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایسی چیز پر بحث نہیں کر سکتے جو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔