دنیا میں ہر وہ آدمی کام یاب و کام ران ہُوا کرتا ہے جو باادب ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
’’باادب بانصیب۔ بے ادب بے نصیب‘‘ آج کی یہ تحریر آداب مسجد کے بارے میں ہے۔
’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘
مسجد جانے کا ارادہ کرتے ہوئے نیت پاک اور دل صاف ہو، قلب، دنیاوی گندگی سے پاک اور منزّہ ہو، نام و نمود، ریاکاری کا چور دل میں چھپا نہ ہو، بلکہ دل محبتِ مولیٰ سے سرشار اور خشیتِ الٰہی سے معمور ہو۔
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے جماعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اور نیتِ صالحہ کو بتایا کہ یہ ثواب کی زیادتی اس وقت ہے جب اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کے لیے نکلے اور فقط نماز ہی کی نیت سے نکل رہا ہو۔ مسجد جانے سے پہلے گھر ہی میں وضو کرلیا جائے، کیوں کہ سنت طریقہ یہی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے جہاں جماعت کی نماز میں ثواب کی زیادتی کا ذکر فرمایا ہے، وہاں یہ تصریح کی ہے کہ ثواب کی زیادتی اس وجہ سے ہے کہ وضو کیا اور اس کے بعد خالص نیت سے مسجد روانہ ہُوا۔ اور انھی آداب کے ساتھ چلنے پر درجہ کی بلندی اور گناہ کی معافی کی بشارت ہے۔
حدیث میں ہے کہ مرد کی باجماعت نماز اس کی اس نماز سے جو گھر اور بازار میں پڑھی جائے، پچیس گنا بڑھی ہوئی ہے، اور وہ زیادتی اس وجہ سے ہے کہ اس نے وضو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کیا اور محض نماز ہی کی نیت سے نکلا، اس سلسلے میں جو قدم اٹھائے گا اس کے بدلے میں ایک درجہ بلند ہوگا اور اس کا ایک گناہ معاف ہوگا۔ ضرورت بھی ہے کہ دربارِ خداوندی کے لیے پوری تیاری کے ساتھ چلیں، کپڑے بھی صاف ہوں، بدن اور جسم بھی پاک ہو، اور اعضائے وضو جو وہاں جاکر نمایاں طور پر مصروفِ مناجات اور اظہارِ تذلل میں پیش ہوں گے، صاف ستھرے اور پاکیزہ ہوں۔ روانہ ہوتے ہوئے زبان پر مسنون دعا ہو، جو دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہو۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھنے کے لیے نکلتا ہے اور مسنون دعا پڑھتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر فرماتا ہے، جو اس کے لیے فراغتِ نماز تک دعا کرتے ہیں۔ مسنون دعا پڑھنے کا کتنا بڑا اجر رکھا گیا ہے۔ محنت معمولی اور مزدوری اتنی بڑی! اس پر بھی ہمارے دل اثر پذیر نہ ہوں تو حیرت کی بات ہے۔
مسجد روانہ ہوتے ہوئے ایک نظر اپنی ظاہری ہیئت پر بھی ڈال لی جائے، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہم ایک عظیم المرتبت دربار کو جا رہے ہیں، اتنا عظیم المرتبت کہ اسے دنیا کی جنت سے تعبیر کیا جائے تو مبالغہ نہیں، تو ادب یہ بھی ہے کہ ظاہری ہیئت عمدہ ہو، ایسی عمدہ جو شریعت کی نظر میں خراجِ تحسین حاصل کرسکے۔
مسجدجاتے ہوئے یہ خیال رہے کہ ہم ایک بڑی عبادت کے لیے بڑے گھر کی طرف جا رہے ہیں، اس لیے رفتار میں پورا وقار، اعتدال اور سکینت نمایاں ہو، ایسی رفتار ہرگز نہ اختیار کی جائے جس سے دیکھنے والا ہلکا پن محسوس کرے اور عام نظروں میں مضحکہ خیزی کی حد تک پہنچ جائے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ نماز کا ارادہ کرنا بھی نماز ہی کے حکم میں ہے۔ لہٰذا راستہ میں چلتے ہوئے لہو و لعب، ہنسی مذاق اور ناجائز چیزوں پر نظر سے پرہیز کیا جائے، نگاہ نیچی، دل میں محبت و خشیّت اور امید و بیم کی کیفیت طاری ہو، چہرہ پر تواضع اور ندامت کے آثار ہوں، مگر یہ سب کسی اور کے لیے ہرگز نہ ہو، محض رب العالمین کے لیے ہو۔
مسجد پیدل چل کر آنا چاہیے، بغیر عذرِ شرعی سواری سے آنا اچھا نہیں، تاکہ ہر قدم کا اجر نامۂ اعمال میں لکھا جائے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
آنحضرت ﷺ کا دستور بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ پیدل مسجد آنا باعثِ کفارۂ گناہ ہے، جیسا کہ ایک طویل حدیث میں پورا واقعہ مذکور ہے کہ جس میں آ نحضرت ﷺ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رؤیت غنودگی کی حالت میں میسر آئی، رب العزت نے مجھ سے ملائے اعلیٰ کے بارے میں سوال کیا، میں نے اپنی لاعلمی ظاہر کی، آخر کار اس نے اپنا دستِ قدرت مجھ پر ڈالا جس کا اثر میں نے محسوس کیا۔ اس کے بعد رب العزت کی طرف سے پھر وہی سوال ہوا، اب میں نے کہا کہ فرشتے کفاراتِ گناہ میں جھگڑ رہے ہیں، یعنی کون ایسے عمل ہیں جو گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتے ہیں، میں نے تفصیلی جواب دیا۔ اسی حدیث میں پہلا جملہ یہ ہے: جماعت کے لیے پاؤں پاؤں چلنا۔ (باعثِ کفارۂ گناہ ہے)
راستہ اس طرح طے کر کے جب مسجد کے دروازے پر پہنچ جائیں تو داخل ہوتے ہوئے مسجد میں پہلا دایاں پاؤں رکھیں، پھر بایاں۔ اور فارغ ہو کر جب نکلنے لگیں تو اس کے خلاف کریں، یعنی پہلے بایاں پیر نکالیں پھر دایاں، مگر جوتا وغیرہ پہلے داہنے ہی پیر میں پہنیں کہ طریقۂ مسنونہ یہی ہے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ سنت ہے کہ جب مسجد میں تو داخل ہو تو پہلے دایاں پاؤں ڈال اور جب نکلے تو پہلے بایاں پیر نکال۔ صحابۂ کرام ؓ کا اسی پر عمل رہا، اور ادب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نسبتاً دائیں کو بائیں پر فضیلت ہے۔
دایاں پاؤں رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھی جائے، مفہوم:
’’اے اﷲ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
اور جب نکلیں تو بایاں پاؤں پہلے نکالیں، اور یہ دعا پڑھتے ہوئے:
’’اے میرے اﷲ! تجھ سے تیرے فضل و بخشش کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘
موقع ہو تو پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز تحیۃ المسجد پڑھیں، وقتی نماز کا وقت ہو یا کوئی اور وقت ہو، البتہ اوقاتِ مکروہ میں سے کوئی وقت نہ ہو، جیسے آفتاب کے طلوع و غروب کا وقت یا زوال کا۔ حضرت کعب بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی مسجد میں جب داخل ہو تو اس کو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
اگر کوئی اوقاتِ مکروہہ میں یا صبح و مغرب میں تحیۃ المسجد کی تلافی کرنا چاہے، تو اس کو چاہیے کہ قبلہ رُو بیٹھ کر ایک ساعت ذکر و تسبیح و تہلیل میں گزارے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں آداب مسجد کے سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسجد کے ں پاو ں کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی آبادکاروں نے مغربی کنارے میں مسجد کو آگ لگادی، 25 فلسطینی گرفتار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں نے ایک مسجد کو آگ لگا دی جبکہ اسرائیلی فورسز نے مختلف علاقوں میں چھاپوں کے دوران 25 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔
عالمی میڈیا رپورٹ اور فلسطینی خبر رساں ادارے کے مطابق واقعہ مغربی کنارے کے شہر سلفیت کے قریب پیش آیا، جہاں اسرائیلی آبادکاروں نے مسجد کے دروازے پر آتش گیر مواد چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ رپورٹ کے مطابق آبادکاروں نے مسجد کی دیواروں پر نسل پرستانہ نعرے بھی لکھے۔ تاہم مقامی شہریوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آگ پر قابو پا لیا۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں تازہ کارروائیوں کے دوران 25 فلسطینی شہریوں کو گرفتار کیا۔ رپورٹ کے مطابق طولکرم کے قریب دیر الغصون کے علاقے میں تین نوجوانوں کو گھروں پر چھاپے مار کر حراست میں لیا گیا۔
اسی طرح الخلیل کے قریب دورا کے علاقے میں 18 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ جنوبی الخلیل میں بزرگوں سمیت کئی شہریوں سے فیلڈ انویسٹی گیشن بھی کی گئی۔ مزید برآں نابلس کے جنوب میں بیتا اور قریوت کے علاقوں سے چار افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔
فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے چھاپے اور گرفتاریاں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں، جنہیں عالمی برادری نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔