ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
ظہران ممدانی کی جیت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، اس کے پس منظر، خاندان اور اس کی بیوی کے حوالے سے بھی۔ مگر جس پہلو پر کم گفتگو ہوئی، وہ ہے ظہران کی انتخابی مہم کا تخلیقی بیانیہ، اس کا کہانی سنانے کا ہنر، اور اس ہنر کے ذریعے عوام سے جڑنے کی صلاحیت۔ یہی وہ عنصر ہے جو ہماری سیاست میں شاذ و نادر دکھائی دیتا ہے۔
اپنی جیت کی تقریر میں جواہر لعل نہرو کا حوالہ دینے والا یہ نوجوان نیویارک شہر کی 130 سالہ تاریخ کا کم عمر ترین، پہلا مسلمان اور پہلا جنوبی ایشیائی نژاد میئر ہے۔ نیویارک کے 111ویں میئر کے طور پر اس کی جیت تاریخی تھی۔ 1969 کے بعد سب سے زیادہ عوامی ٹرن آؤٹ اسی انتخاب میں ہوا۔ یہاں تک کہ اسے اپنے حمایتیوں سے کہنا پڑا کہ اب چندے بھیجنا بند کریں، کیونکہ مہم کے تمام اخراجات پورے ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے
یہ وہی ظہران ممدانی ہے جو سال کے آغاز میں انتخابی دوڑ میں بالکل صفر پر کھڑا تھا، نہ سرمایہ، نہ اثر و رسوخ، اور اوپر سے وہ تمام شناختی ’لیبلز‘ جو نیویارک جیسے شہر میں کسی امیدوار کو کمزور بنا دیتے ہیں۔ مگر ظہران کی سیاست دراصل اُس نئے شہری بیانیے کی نمائندہ ہے جو نسل، مذہب یا قومیت سے آگے بڑھ کر تعلق، شناخت اور شمولیت کو مرکز بناتا ہے۔ اس نے امریکی سیاست کے اُس بیانیے کو چیلنج کیا جس میں طاقت، سرمایہ اور سفید فام شناخت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
ظہران ممدانی کے خلاف مخالفین اور طاقت ور طبقے کی طرف سے ایک نفرت انگیز، نسلی امتیاز پر مبنی مہم چلائی گئی۔ اونچے طبقے نے اسے اُنھی الزامات کا نشانہ بنایا جو وہ ہمیشہ تارکینِ وطن پر لگاتے ہیں۔ مگر ظہران نے اس نفرت آمیز پروپیگنڈے کو سمجھداری سے اپنا ہتھیار بنا لیا۔ جب مخالفین اس کی شناخت پر سوال اٹھا رہے تھے اور بین الاقوامی مسائل میں عوام کو الجھا رہے تھے، وہ صرف نیویارک کے باسیوں کی بات کر رہا تھا۔
اس نے اپنی شناخت کی کمزوری کو طاقت بنایا۔ اس نے سوشل میڈیا کو صرف بیانیہ پیش کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اپنی مہم کو ہی ایک کہانی میں بدل دیا، ایسی کہانی جس میں وہ خود ہیرو نہیں تھا۔ عام طور پر سیاستدان صرف اپنی کہانیوں کے ہی نہیں بلکہ عوام کی کہانیوں کے بھی ہیرو خود بننے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ظہران نے اُلٹا راستہ اختیار کیا۔ اُس نے خود کو عوام کی کہانیوں میں ضم کر دیا۔ اس کی ہر کہانی کا ہیرو وہ مزدور طبقہ ہے جو کرایوں کے دباؤ، صحت کی خرابی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے، اور ظہران اس کہانی میں صرف ایک معاون کردار ہے، ہیرو کا دوست۔
یہ بھی پڑھیں:جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
ظہران کی مہم اپنے لہجے اور عوامی انداز میں لندن کے میئر صادق خان اور امریکی سیاست دان الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز کی یاد دلاتی ہے، مگر اس میں جنوبی ایشیائی جذباتیت اور نیویارک کی ثقافتی روانی کا اپنا منفرد رنگ ہے۔ وہ کبھی عربی میں بات کرتا، کبھی اردو میں، کبھی ہسپانوی میں۔ کبھی کسی عوامی ریپر یا سڑک کنارے بینڈ کے ساتھ گاتا، کبھی بولی ووڈ کے مکالمے دہراتا۔
ایک ویڈیو میں وہ پوچھتا ہے:
’کیا تم نے کبھی کسی کو ووٹ دیا ہے؟‘
اور سامنے سے ہجوم گونجتا ہے: ’نہیں یں ں!‘
یہ منظر فوراً قرض فلم کے رشی کپور کی یاد دلاتا ہے، جو کچھ ایسے ہی سوال ہجوم سے کرتا ہے۔ یعنی ظہران بغیر محسوس کرائے عوام کی فلم میں معاون اداکار سے ہیرو بن جاتا ہے۔
ظہران نے اپنی انتخابی مہم کو ایک تھیٹر میں بدل دیا۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر وہ کبھی سمندر کنارے کھڑا سنگین مسائل پر بات کرتا ہے، پھر انگریزی میں کہتا ہے:
’ Let’s indulge in the details.
اور یہ کہہ کر سوٹ پہنے سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ لوگ ہنستے ہیں، اور اسی ہنسی میں ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
ظہران کی مہم میں توانائی، تحرک اور تاثر تینوں موجود تھے۔ وہ کبھی بھاگتا، کبھی کسی بس میں بیٹھ کر بات کرتا، کبھی ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ تصویر کھنچواتا۔ جب وہ بہتر ٹرانسپورٹ پالیسی کی بات کرتا تو کسی اسٹوڈیو میں نہیں بلکہ بس کے اندر سفر کرتے ہوئے۔ یہ سب علامتی اشارے تھے کہ وہ انہی میں سے ہے، ان ہی کے بیچ سے آیا ہے۔
جہاں دوسرے سیاست دان جلسوں میں دور سے ہاتھ ہلا رہے تھے، وہاں ظہران عوام کے بیچ گھوم رہا تھا، ان کی زبان بول رہا تھا، ان کے دکھ درد کو روز مرہ مناظر میں پیش کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں خوشی بھی تھی، غصہ بھی، درد بھی اور امید بھی۔
اس کی انسٹاگرام پوسٹس محض اعلانات نہیں بلکہ بیانیے کی توسیع تھیں۔ ایک پوسٹ میں وہ نیویارک کے بڑھتے کرایوں، سست بس سروس، مہنگی چائلڈ کیئر اور کرپشن پر بات کرتا ہے، مگر انداز ایک وکیل یا لیڈر کا نہیں بلکہ ایک عام شہری کا ہے:
‘The cost of living is the real crisis… a mayor could change this. And that’s why I’m running… Because this is New York. We can afford to dream.’
ظہران کی سیاست یہ ثابت کرتی ہے کہ جب سیاست کہانی بن جائے تو لوگ منشور نہیں بلکہ احساس کے رشتے میں جڑتے ہیں۔ اس نے سیاست کو پھر سے انسانی شکل دی، اور یاد دلایا کہ اگر کہانی سنانے کا فن ایمانداری، حساسیت اور تخلیقی جرات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو صرف ووٹ نہیں، دل بھی جیتے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان
البتہ سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کو کہانی بنا دینا اس کے پیچیدہ حقائق کو سادہ نہیں کر دیتا؟ کیا ظہران کی مہم جذباتی وابستگی کے بعد عملی گورننس میں بھی وہی تازگی برقرار رکھ سکے گی؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: قصہ گو نیوریارک نیویارک میئر نہیں بلکہ ظہران کی کی سیاست بات کرتا رہا تھا کے ساتھ بات کر
پڑھیں:
آر ایس ایس اور بی جے پی نے کبھی اپنے دفاتر میں "وندے ماترم" نہیں گایا، کانگریس
ملکارجن کھرگے نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے قومی تحریک میں ہندوستانیوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا، 52 سال تک قومی پرچم نہیں لہرایا اور ہندوستان کے آئین کا غلط استعمال کیا۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ کانگریس پارٹی قومی گیت "وندے ماترم" کی فخریہ پرچم بردار رہی ہے۔ قومی گیت "وندے ماترم" کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر ملکارجن کھرگے نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو نشانہ بنایا۔ ملکارجن کھرگے نے دعویٰ کیا کہ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ آج قوم پرستی کے خود ساختہ محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے کبھی اپنی شاخوں یا دفتروں میں وندے ماترم نہیں گایا۔ کھرگے نے طنزیہ انداز میں کہا کہ یہ انتہائی ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ آج قوم پرستی کے خود ساختہ محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، آر ایس ایس اور بی جے پی نے اپنی شاخوں یا دفاتر میں کبھی وندے ماترم یا ہمارا قومی ترانہ "جن گان من" نہیں گایا۔ اس کے بجائے وہ "نمستے سدا وتسلے" گاتے رہتے ہیں، جو قوم کا نہیں بلکہ ان کی تنظیموں کی تعریف کرنے والا گانا ہے۔
کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے یہ بھی کہا کہ آج تک کانگریس کی ہر میٹنگ میں وندے ماترم فخر اور حب الوطنی کے ساتھ گایا گیا ہے۔ کھرگے نے ایک بیان میں کہا کہ کانگریس وندے ماترم کی قابل فخر پرچم بردار رہی ہے۔ 1896ء میں کلکتہ میں کانگریس کے اجلاس کے دوران، اس وقت کے کانگریس صدر رحمت اللہ سیانی کی قیادت میں، گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے پہلی بار عوامی طور پر وندے ماترم گایا تھا۔ اس لمحے نے جدوجہد آزادی میں نئی جان ڈال دی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس سمجھتی ہے کہ برطانوی سلطنت کی جانب سے "تقسیم کرو اور حکومت کرو"، مذہبی، ذات پات اور علاقائی شناختوں کا استحصال کرنے کی پالیسی ہندوستان کے اتحاد کو توڑنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس کے خلاف وندے ماترم ایک حب الوطنی کے گیت کے طور پر ابھرا جس نے مادر ہند کی آزادی کے لئے تمام ہندوستانیوں کو متحد کیا۔
ملکارجن کھرگے نے کہا کہ 1905ء میں بنگال کی تقسیم سے لے کر ہمارے بہادر انقلابیوں کی آخری سانسوں تک، وندے ماترم پورے ملک میں گونجتا رہا۔ یہ لالہ لاجپت رائے کے پرکاشن (اشاعت) کا عنوان تھا، جرمنی میں لہرائے گئے بھیکاجی کاما کے جھنڈے پر کندہ تھا اور یہ پنڈت رام پرساد بسملی کی مشہور برطانوی تنظیم گیمرلی کے نام سے مشہور وندے ماترم میں بھی پایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دل کی دھڑکن بن چکی تھی۔ کانگریس کے صدر ملیکارجن کھرگے کے مطابق 1915ء میں مہاتما گاندھی نے لکھا تھا کہ تقسیم کے دور میں بنگال میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وندے ماترم سب سے زیادہ طاقتور جنگ بن گیا تھا اور یہ ایک سامراج مخالف نعرہ تھا۔ ملکارجن کھرگے نے نوٹ کیا کہ 1938ء میں پنڈت نہرو نے لکھا کہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے، یہ گانا براہ راست ہندوستانی قوم پرستی سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے عوام کے گیت کسی پر مسلط نہیں کئے جاتے، وہ اپنی مرضی سے بلندیاں حاصل کرتے ہیں۔
کانگریس صدر نے کہا کہ یہ ایک مشہور حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے قومی تحریک میں ہندوستانیوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا، 52 سال تک قومی پرچم نہیں لہرایا، ہندوستان کے آئین کا غلط استعمال کیا۔ کانگریس صدر نے کہا کہ انہوں نے مہاتما گاندھی اور بھیم راؤ امبیڈکر کے پتلے جلائے اور سردار پٹیل کے الفاظ میں گاندھی جی کے قتل میں شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف، کانگریس پارٹی وندے ماترم اور جن گنا من دونوں پر بہت فخر کرتی ہے۔ دونوں گیت کانگریس کے ہر اجلاس اور تقریب میں عقیدت کے ساتھ گائے جاتے ہیں، جو ہندوستان کے اتحاد اور فخر کی علامت ہیں۔ کھرگے نے کہا کہ کانگریس کی ہر میٹنگ میں وندے ماترم کو حب الوطنی کے جذبے سے گایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کانگریس کی ہر میٹنگ میں وندے ماترم فخر اور حب الوطنی کے ساتھ گایا گیا ہے۔