جڑواں شہروں میں گندم اور آٹے کے بحران کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
جڑواں شہروں میں گندم اور آٹا کا بحران پیدا ہورہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سرپرست اعلی ایسوسی ایشن شیخ طارق، چئیرمین ریاض اللہ اور رضا احمد شاہ نے 10 نومبر سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں آٹا کی سپلائی بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ فلور ملز کو گندم کی ترسیل اور گندم پرمٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ فلور ملز نے راولپنڈی اسلام آباد کے آٹا ڈیلرز کریانہ شاپس کے آٹا آرڈرز منسوخ کرنا شروع کر دئیے۔
ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ راولپنڈی، اسلام آباد کو فوری گندم ترسیل شروع پرمٹ بحال کئے جائیں۔
راولپنڈی میں نان بائیوں کی ہڑتال کا آج چوتھا دن
مطالبات کی منظوری کے لئے راولپنڈی میں آج چوتھے دن میں تنور مکمل بند ہیں جس کی وجہ سے نان روٹی روغنی نان کے کاروبار شدید متاثر ہیں۔
صدر نان بائی کا کہنا تھا کہ ہڑتال غیر معینہ مدت تک ہے۔ سوموار سے دائرہ کار پنجاب تک بڑھ جائے گا۔ آٹا سرخ 10500 روپے بوری، میدہ 12 ہزار روپے بوری ہوگیا ہے۔
پولیس کے نان بائیوں کے گھروں میں چھاپے گرفتاریاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ نان بائیوں کی تمام قیادت گرفتاریوں سے بچنے کیلئے روپوش ہوگئی ہے۔
نان بائیوں نے مزاکرات کی پیشکش بھی مسترد کر دی ہے۔ تنوروں کی بندش سے چھوٹے چھوٹے خوانچہ فروشوں نے گھروں کی روٹیاں لانا شروع کر دیں ہیں جبکہ شہر بھر میں چپاتیوں کی فروخت بڑھ گئی ہے اور بیکریوں پر بن ڈبل روٹی کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نان بائیوں
پڑھیں:
پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری میں شدید کمی کے بحران سے دوچار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں شدید کمی کے بحران سے دوچار ہے، جس کی بنیادی وجوہات معاشی بدحالی اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال ہیں۔ متعدد بین الاقوامی کمپنیاں یا تو اپنے حصص فروخت کر رہی ہیں یا مکمل طور پر پاکستانی مارکیٹ سے نکلنے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔ قطر کے الثانی گروپ نے بھی اپنی 49 فیصد حصص فروخت کرنے کا عندیہ دیا ہے، جو 1,320 میگاواٹ پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ میں اس کے ملکیتی شیئر ہیں۔ وفاقی حکومت کے ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ باضابطہ طور پر حکومت کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔پورٹ قاسم پاور پراجیکٹ میں دو 660 میگاواٹ کے سپر کرٹیکل کول یونٹس شامل ہیں جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت تعمیر کیے گئے تھے۔ 2.09 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ 330.7 ایکڑ پر محیط ہے اور کراچی سے تقریباً 37 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ یہ منصوبہ قطر کی کمپنی المرقب کیپیٹل اور چین کی پاور کنسٹرکشن کارپوریشن (جو سینوہائیڈرو ریسورسز لمیٹڈ کی ذیلی کمپنی ہے) کے اشتراک سے مکمل ہوا۔ الثانی گروپ نے اس منصوبے میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔دیگر نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کی طرح پورٹ قاسم پاور پلانٹ کی انتظامیہ بھی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ (سی پی پی اے-جی) کی جانب سے واجبات کی ادائیگی میں مسلسل تاخیر پر شدید تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ سی پیک کے چینی منصوبہ ساز ادارے اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں، جن کی مجموعی رقم تقریباً 400 ارب روپے بتائی جا رہی ہے۔حال ہی میں پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی (پی کیو ای پی سی) کی انتظامیہ نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر سی پی پی اے-جی نے معاہدے کے تحت واجبات ادا نہ کیے تو پلانٹ کی کارکردگی معطل ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پورٹ قاسم پاور پلانٹ سے سرمایہ نکالنے کے ارادے کا نوٹس باضابطہ طور پر متعلقہ حکام کو پہنچا دیا گیا ہے۔ جب کمپنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے واضح کیا کہ آئندہ کسی بھی ملاقات یا رابطے کا انتظام اسی سرکاری چینل کے ذریعے کیا جائے گا جس کے ذریعے اصل خط موصول ہوا تھا۔دوسری جانب پاکستان میں گزشتہ چار برسوں میں نو بین الاقوامی کمپنیاں ملک سے جا چکی ہیں۔ ان میں چار پیداواری کمپنیاں تھیں تین دواساز ادارے (فائزر، سینوفی ایونٹس اور ایلی للی) اور ایک کنزیومر گڈز کمپنی (پروکٹر اینڈ گیمبل)۔ باقی پانچ کمپنیاں سروسز سیکٹر سے تعلق رکھتی تھیں، جن میں شیل، ٹوٹل، ٹیلی نار، اور اوبر/کریم شامل ہیں۔