Express News:
2025-11-15@22:21:35 GMT

بدلتی ہوئی مسلم دنیا اور پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT

اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ یہ دینی اداروں اور مدارس کے دنیا کے سب سے بڑے نیٹ ورک کا گھر ہے۔ اس کے باوجود اس نے ریاست اور معاشرے کی اصلاح کے بارے میں مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی بحث میں نسبتاً چھوٹا کردار ادا کیا ہے۔ اب مسلم ریاستوں بالخصوص خلیجی عرب ممالک میں سیاسی اور بنیادی تبدیلی کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مسلم ریاستوں اور معاشروں کو اس وقت جیواسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل توازن، جمہوری اصلاحات اور سماجی، سیاسی اور نظریاتی تبدیلی کے راستے پر بہت سے چیلنجزکا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ اقدامات ریاستوں کو تیزی سے اصلاحات کی طرف لے جا رہے ہیں۔

عالمی سطح پر ان ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سافٹ امیج تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جس کا آغاز آج سے پانچ سال قبل 13 اگست 2020 کو ہوا تھا، اسرائیل، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور امریکا نے سہ فریقی معاہدے کا اعلان کیا تھا، جسے ’’ ابراہیم ایکارڈز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے بعد 15 ستمبر 2020 کو بحرین اور اسرائیل کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا۔ بحرین، متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ، اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حتمی معاہدے پر دستخط کیے جس سے اسرائیل اور دونوں خلیجی ریاستوں کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔

پاکستان 40,000 مدارس، 500 سرکاری اور نجی مذہبی اداروں، مذہبی گروہوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایک وسیع نیٹ ورک والا ملک ہونے کے باوجود ایسے ذہن پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلم معاشروں میں موجودہ بحثوں میں حصہ لے سکیں۔

ایک پختہ یقین ہے کہ مذہبی اداروں میں استعمال ہونے والے طریقے، ان کے تنظیمی ڈھانچے اور سخت سوچ کی وجہ سے جدیدیت کے عمل میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم، یہ ایک بہت گہرا مسئلہ ہے جس کے لیے ریاست اور معاشرے میں اس حوالے سے گہرائی سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ مسلم دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور علمی اور نظریاتی بحثیں کس طرح ریاست اور معاشرے کو تبدیل کر رہی ہیں۔

سعودی عرب اسلام کی جائے پیدائش ہے اور مسلم ممالک اور جہادی تنظیموں کا بڑا معاشی حامی رہا ہے، جہاں اسکالرز اب بحث کر رہے ہیں کہ آیا اسلامی قانون کے تحت مرتد کی سزا موت ہو یا نہ ہو۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حتمی فیصلے جاری کرنے کے اختیار کے ساتھ خود کو ولی العمر یا ریاست کا سرپرست یا محافظ قرار دیا ہے۔

کچھ مغربی مبصرین نے مذہبی رسومات کے خاتمے کے لیے ان کے جرات مندانہ اقدامات کے لیے انھیں مصطفیٰ کمال اتاترک سے تشبیہ دی ہے، لیکن اب تک پاکستان ایسے ذہنوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلم معاشروں میں موجودہ بحث میں حصہ لے سکیں۔

تب سے انڈونیشیا اسلامی فقہ پر جاری بحث میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ندوۃ علماء، دنیا کی سب سے بڑی سول سوسائٹی کی تحریک، خلافت کے تصور کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک قومی ریاست کے تصورکی وکالت کرتی رہی ہے۔

اس نے اسلامی فقہ سے کافر کے تصور کو ختم کرنے اور اسے شہریت کے تصور سے تبدیل کرنے کا فتویٰ یا حکم بھی جاری کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ ندوۃ علماء نے سخت گیر ہندو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے بھی بات چیت شروع کر دی ہے جس میں ہندوستانی مسلم تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

تیونس میں اسلام پسند جماعت ’’ انھادہ‘‘ کو اکثر پوسٹ اسلامسٹ تحریک کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس نے سیاسی سوچ میں بڑی تبدیلی کی ہے۔ پارٹی خاص طور پر خواتین کے حقوق سمیت انفرادی آزادیوں کی حامی ہے۔

اس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی مخالفت کرے گا جو کسی خاص مذہبی طرز زندگی کو مسلط کرتے ہیں۔ اس کے رہنما، غنوچی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ لوگوں کو زیادہ مذہبی بنانے کی کوشش کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

یہ مسلم معاشروں میں جاری مباحث کی چند مثالیں ہیں۔جو مذہبی سوچ کو بدل رہے ہیں۔ یہ بحثیں مذہب کی ’’ سیکولرائزیشن‘‘ کی طرف لے جا سکتی ہیں، لیکن اس عمل کو مغربی اثرات سے اسلامی فکر کو پاک کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اٹھارویں صدی میں شروع ہوا اور اس نے سیاسی اسلام کی تحریکوں کو جنم دیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے جنھوں نے اپنے نظریات کی اصلاح پر بحث شروع کی تھی وہ زیادہ مذہبی ہوتے جا رہے ہیں لیکن سیاسی نظریات کے بوجھ سے خود کو آزاد کر رہے ہیں، وہ اب بھی ریاست کو ایک مذہب کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ یہاں پیش کی گئی مثالیں ظاہر کرتی ہیں، عرب ممالک نے خاص طور پر ریاست، سول سوسائٹی اور سیاسی تحریک کے بارے میں بحث شروع کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی بحث شروع کرنا اب بھی مشکل ہے۔

آئینی طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق اس کے زیادہ تر قوانین اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ مذہبی جماعتیں اب بھی ملک میں شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔

ملک کی سیاسی معیشت ان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کی بنیاد ’’خلافت‘‘ ریاست کا تصور ہے۔ ایسی بہت سی جماعتیں ایک مسلم معاشرہ کا تصور بھی نہیں کر سکتیں جو مکمل یا جزوی طور پر ایک قومی ریاست کے ماڈل پر چل رہی ہو۔

کیا پاکستانی علماء آر ایس ایس کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور ہندو مت کے اندر بدلتی تقسیم کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے؟ پاکستانی اور ہندوستانی مسلم اسکالرز کے درمیان ان کے مشترکہ راستوں اور الہام کے ذرائع کے باوجود بہت کم تعامل ہے۔

رفتہ رفتہ دونوں ممالک کے مذہبی ادارے اپنی اپنی سیاسی مجبوریوں اور ریاستی دباؤ کے تحت ایک دوسرے سے ہٹ گئے ہیں۔ ریاستی اداروں نے اپنے نظریات کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس نے پاکستان میں مذہبی قوم پرستی کو جنم دیا۔

مسلم دنیا میں تبدیلیاں صرف مذہبی اداروں میں ہونے والی تبدیلیوں اور اندرونی سماجی تبدیلیوں تک محدود نہیں ہیں۔ اب ان کی عکاسی ریاستوں کی خارجہ پالیسیوں میں ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام۔ اسے ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔

اب یہ ممالک اصلاحات کی راہ پر گامزن ہیں، اپنی عالمی مصروفیت کے آپشنز کو لچکدار بنا رہے ہیں۔ جو ممالک لچکدار نہیں ہیں وہ نہ صرف مشکلات کا شکار ہیں بلکہ اب وہ غیر متعلقہ ہوتے جا رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں میں بیک وقت سیاست، معاشرت اور مذہبی نظریات میں اصلاحات ہو رہی ہیں۔ ہمیشہ ابتدا میں ایسی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ تو آتی ہے لیکن آخرکار یہ اصلاحات ناگزیر ہو جاتی ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جا رہے ہیں کے درمیان کے طور پر کے تصور کے لیے اور اس رہا ہے

پڑھیں:

دنیا کشمیریوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام

ریاض احمدچودھری

حریت لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ دنیا میں عدم مساوات دن بدن بڑھتا جارہا ہے ،دنیا میں نسل کشی کا نیا قانون بنا اور اس نسل کشی کو روکنے میں دنیا ناکام ہوگئی ہے۔ انسانی حقوق کونسل نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی ہے ، اس نمائش میں آرٹسٹس نے اپنی تصاویر کے ذریعے اظہار یک جہتی کیا ہے۔ دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ غزہ میں براہ راست نسل کشی ہورہی ہے ،اسرائیلی فورسز وہاں مظالم ڈھا رہی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں جاری نسل کشی پر دنیا خاموش ہے۔
یاسین ملک کو پھانسی گھاٹ کی طرف لیجایا جارہا ہے ، تہاڑ کے ڈیتھ سیل میں ہی ان کی عدالت لگائی جارہی ہے ، افضل گورو کو بھی اسی طرح پھانسی دی گئی تھی اور لاش بھی نہیں دی گئی۔ حریت قیادت کو بھی بھارت قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔اس وقت دنیا میں بڑی تباہی کے ہتھیار ہیں دنیا دوسری جنگ عظیم کو بھول جائے گی،دنیا کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کیلئے پورا ہفتہ اس پر آواز اٹھائیں گے ، انسانوں کی آزادی کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں قابض بھارتی فوجیوں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل،بلاجواز گرفتاریاں، تشدد اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں روز کا معمول ہے۔ کشمیری عوام کو اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کیلئے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ دیرینہ تنازعہ کشمیر کو عالمی ادارے کی قراردادوں کے مطابق حل کرے۔
بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی ایک عدالت نے اپنے مادر وطن پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو چیلنج کرنے پر ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری عاشق حسین کو اشتہاری مجرم قرار دے دیاہے۔ واضح رہے مودی حکومت جدوجہد آزادی سے وابستہ تمام افراد کو اشتہاری مجرم قرار دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام پر ان کی جائیدادیں ضبط کی جاسکیں۔ادھر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سرینگر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے میں حالات معمول کے مطابق ہونے کے بھارتی حکام کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیا کہ اگر مقبوضہ علاقے کے حالات میں واقعی بہتری آئی ہے تو ہزاروں کشمیری سلاخوں کے پیچھے کیوں ہیں۔فاروق عبداللہ نے قابض بھارتی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں پر ظلم وستم بند کرے اور جیلوں میں بند کشمیریوں کو رہا کر کے انہیں عزت ووقار کے ساتھ زندگی گزارنے دے۔حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے بھارتی حکومت کالے قانون افسپا پر نظرثانی کرنے اور منسوخ کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ یہ قانون بھارتی فوجیوں کو وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔ اس قانون کے تحت گزشتہ طویل عرصے سے بھارتی فوج بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔
بھارت گزشتہ 75 سال سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کا بے دریغ خون بہا جا رہا ہے’ لیکن اپنے اپنے مفادات کی اسیر عالمی طاقتیں اس سے صرف نظر کئے ہوئے ہیں۔ اس مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کی اصل ذمہ داری برطانیہ پر عائد ہوتی ہے جس کے نمائندے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بھارت نواز رویئے کے باعث یہ مسئلہ پیداہوا۔ انگریز گورنر جنرل قانوناً اور اخلاقاً اس بات کا پابند تھا کہ وہ تقسیم ہند کے ریاستوں کے بارے میں فارمولے پر عمل کراتا۔ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد بھی برطانیہ نے اس ضمن میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کا فرض بنتا تھا۔ بعد میں یہ مسئلہ عالمی سیاست کا شکار ہو گیا۔ اب جس طرح دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے دوران اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کیلئے انسان دوست اور آزادی پسند حلقوں نے کوشش کی ہے’ اگر ایسی کوششیں اسی شدومد اور جذبے سے جاری رکھی گئیں تو یقینا ہمارے کشمیر کاز کو تقویت پہنچے گی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے گلگت بلتستان کے ڈوگرہ راج سے آزادی کے جشن کی تقریب سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی انتہا کو پہنچ چکی ہے وادی کی آزادی وقت کی ضرورت ہے۔ تقسیم ہند کے وقت کشمیر تقسیم کے فارمولے اور اپنے جغرافیائی اور ثقافتی تعلق کی بنا کر پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر کانگریس نے برطانوی راج سے گٹھ جوڑ کر کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کی سازش رچی جس کے نتیجے میں وادی میں ڈوگرا راج کے خلاف بغاوت شروع ہوئی اور مجاہدین نے مقبوضہ علاقے آزاد کرانے شروع کر دیے مجاہدی سرینگر کے قریب پہنچ چکے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا عالمی برادری کے سامنے وعدہ کیا۔
بھارتی حکومت کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ کشمیر کے عوام کسی صورت بھی بھارت کی غلام قبول نہیں کریں گے یہی وجہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں طول دینے کے بعد بھارتی حکمران کشمیریوں سے پاکستان سے وفاداری کا انتقام لے رہے ہیں اور نسل کشی انتہا کو پہنچ چکی ہے کشمیری لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر بھی الحاق پاکستان کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہو رہے ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پر زور طریقے سے اٹھانے کے ساتھ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو مالی اخلاقی مدد کرے تاکہ کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات مل سکے۔

متعلقہ مضامین

  • بہار الیکشن؛ مودی نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا؛ اپوزیشن کے 11 مسلم امیدوار کامیاب
  • ریاست بہار کے الیکشن میں شکست کیوں ہوئی؟ جائزہ لینے کے لیے کانگریس رہنماؤں کا اجلاس
  • صدر مسلم لیگ ن نواز شریف ایک بار پھر لندن روانہ
  • غزہ میں عالمی فورس کی تعیناتی؛ پاکستان سمیت اہم مسلم ممالک کی امریکی قرارداد کی حمایت
  • آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ہوئی: پرویز رشید 
  • جامعات،ریاست اور گورننس کا نظام
  • دنیا کشمیریوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام
  • تہران میں پانی کا شدید بحران، صدر نے شہر خالی کرنے کا عندیہ دے دیا
  • متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیر انتظام بابا گورو نانک دیو جی کے556ویں جنم دن کی تقریبا ت