لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ہوئی ہے، خود پی ٹی آئی کے کسی رکن نے اس ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں کیا۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دو درجن کے قریب جج حضرات ہیں، ہائیکورٹس کے ججز حضرات کو شامل کیا جائے تو تعداد سیکڑوں بن جاتی ہے، ان میں سے صرف دو جج حضرات نے اعتراض کیا ہے۔ایک اعتراض یہ ہے کہ آئین کو ختم کر دیا گیا، دوسرا اعتراض ہے سپریم کورٹ کے ٹکڑے کر دیئے گئے، ان دونوں اعتراضات سے دیگر ججز اختلاف کرتے ہیں؟، کسی دوسرے جج نے ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں 64 اراکین نے کھڑے ہو کر ووٹ دیا، اختلاف میں کوئی کھڑا نہیں ہوا، کسی نے اختلاف نہیں کیا تو یہی کہیں گے کہ ترمیم اتفاق رائے سے کر دی گئی ، جمعرات کے روز جو ترمیم ہوئی اس سے صرف 3 لوگوں نے اختلاف کیا جو جے یو آئی (ف)کے تھے۔سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ آئین میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کو ہے، یہ ہمارا آئینی حق ہے، خود سپریم کورٹ کے ججز بھی آئین کی پیداوار ہیں، چارٹر آف ڈیموکریسی میں آئینی عدالت کا وعدہ تمام جماعتوں نے کیا تھا، پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے تھے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: نے کہا

پڑھیں:

قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم کی تمام 59 شقیں شق وار منظور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے بدھ کو 27 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل مکمل کرتے ہوئے تمام 59 شقیں منظور کر لیں،  اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے خدوخال سینیٹ میں پہلے ہی منظور کیے جا چکے تھے تاہم مسودے میں معمولی کمی بیشی کی وجہ سے اسے دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنا ضروری تھا۔

 انہوں نے وضاحت کی کہ قانون اور آئین میں ترامیم ایک ارتقائی عمل ہیں اور اس ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی ہی چیف جسٹس پاکستان رہیں گے۔

ترمیم پر شق وار ووٹنگ کے دوران 233 ارکان نے حمایت میں جبکہ صرف 4 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا،  جمعیت علمائے اسلام نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا،  حکومت کے بینچز پر موجود 233 اراکین میں سے 224 ارکان کی حمایت ترمیم کے لیے ضروری تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کی پوزیشن مستحکم ہے۔

ذرائع کے مطابق سینیٹ سے بل کی منظوری کے بعد معمولی ترامیم کے بعد دوبارہ قومی اسمبلی میں منظوری سے ترمیم کا قانونی اور آئینی عمل مکمل ہو گیا ہے  اور اب عدلیہ کی سربراہی کے حوالے سے واضح پالیسی نافذ العمل ہو جائے گی۔

27 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب صدر مملکت کو طویل عرصے تک اہم قومی اور آئینی فیصلوں میں رہنمائی فراہم کرنے اور چیف آف آرمی اسٹاف کو آئینی دائرہ اختیار کے مطابق فوجی امور کی سربراہی کے لیے واضح قانونی استحقاق حاصل ہوگا۔

خیال رہےکہ اپوزیشن جماعتوں نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر ضروری اور سیاسی بنیادوں پر مبنی قرار دیا ہے،  جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ ترمیم سے عدلیہ اور فوج کے اختیارات پر غیر ضروری اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور یہ آئینی توازن کو متاثر کرنے کی کوشش ہے،  انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ملک کے آئینی اور قانونی امور میں یکطرفہ فیصلے کرنے کی بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر سنگین حملہ ہے، علامہ باقر زیدی
  • پی ٹی آئی کے کسی رکن نے آئینی ترمیم کیخلاف ووٹ نہیں کیا: پرویز رشید
  • ججوں کا فرض انصاف دینا ہے، ڈانٹ ڈپٹ نہیں، پرویز رشید
  • ججوں کا کام ٹکر بنوانا، کسی کو رسوا کرنا یا ڈانٹا نہیں بلکہ انصاف دینا ہے، پرویز رشید
  • پی ٹی آئی کے کسی رکن نے آئینی ترمیم کیخلاف ووٹ نہیں کیا: سینیٹر پرویز رشید
  • نگران وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کیلئے اتفاق رائے ہو گیا، سرکاری ذرائع کا دعویٰ، اپوزیشن لیڈر کی تردید
  • گالی گلوچ نہیں، اختلاف اپوزیشن کا حق، ملکی خوشحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا: شہباز شریف
  • 18ویں ترمیم کسی کاباپ بھی ختم نہیں کرسکتا:بلاو ل زرداری
  • قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم کی تمام 59 شقیں شق وار منظور