Express News:
2025-11-14@23:06:20 GMT

جامعات،ریاست اور گورننس کا نظام

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ آج کی جدید دنیا میں جامعات حکمرانی کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے اور اصلاحات کو عملی طور پر یقینی بنانے کے لیے ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہیں یعنی حکمرانی کے نظام کو چلانے میں جو مشکلات ہمیں پیش آتی ہیں ان کا حل جدیدیت ، علمی،فکری اور تحقیق کی بنیاد پر جامعات اور ان میں موجود ماہرین پیش کرتے ہیں ۔لیکن اس نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں حکومت اور جامعات کے درمیان مسائل کے حل کے تناظر میں کوئی فریم ورک یا میکنزم موجود نہیں ہے جو باہمی رابطہ کاری اور ایک دوسرے سے استفادہ کر سکے ۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی نظام مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی ادارے مسلسل اپنی مختلف نوعیت کی جاری کردہ رپورٹس میں ان نکات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کا انتظامی اور معیشت کا نظام مختلف طرز کے تضادات کا شکار ہے ۔

ان کے بقول پاکستان کا نظام دنیا کے نظاموں میں ہونے والی بہتر تبدیلیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔پچھلے دنوں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے معاشی نظام میں ترقی کرنی ہے تو اسے اپنے پورے نظام بالخصوص بیوروکریسی کے نظام میں جدید تبدیلیوں اور سخت گیر اقدامات کرنا ہوں گے ۔

ان کے بقول ان تبدیلیوں کے بغیر پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوسکے گا۔ عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹرڈاکٹر بولر ماامگابازا نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں نوکریوں اور سکلز یعنی صلاحیتوں سے محروم نوجوان آبادی پاکستان پر بوجھ بن گئی ہے۔پاکستان نے سیلاب اور فضائی آلودگی ،بڑھتی آبادی سمیت دیگر اہم معاملات میں سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو 2050تک جی ڈی پی میں 30فیصد تک کمی ہوگی جو سنگین نتائج پیدا کرے گا۔ان کے بقول صاف پانی ، خوراک کی کمی ،بے روزگاری ،تعلیم اور صحت کے ناقص نظام اور رویوں میں برداشت نہ کرنے جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان کی حکمرانی کے بحران کا بڑا المیہ یہ ہے ایک طرف مرکزیت پر مبنی نظام ہے جو 18ویں ترمیم کے باوجود سیاسی ،انتظامی یا مالی اختیارات نچلی سطح پر مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوںکے نظام کو منتقل کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اسی طرح ہم اپنے قومی مسائل ماہرین کے ذریعے حل کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر حد سے زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔یعنی قومی مسائل کا حل ہم بیوروکریسی کی عینک یا ان کے فریم ورک کی بنیاد پر دیکھتے ہیں یا جو وہ ہمیں دکھاتے ہیں ۔

بیوروکریسی نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اس ملک کے ماہرین جو مختلف جامعات اور تحقیقی اداروں سے وابستہ ہیں، اس مضبوط بیوروکریسی کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں ۔ بیوروکریسی کا نظام ان ماہرین کو نہ تو اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی ان کی سوچ اور فکر کو ریاستی نظام میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں میں شامل کرتا ہے۔ہمارا اعلی تعلیم کا نظام اور جامعات بھی عدم خود مختاری کا شکار ہیں اور اس نظام پر بھی بیوروکریسی کا سخت کنٹرول ہے اور وائس چانسلرز بھی اس مضبوط بیوروکریسی کے سامنے خود کوبے بس محسوس کرتے ہیں۔

دنیا کی جدید ریاستیں مختلف ماہرین،جامعات اور تحقیقی اداروں کی مدد سے اپنے مسائل کے حل کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حکومت کا نظام جامعات اور تحقیق کے اداروں یا افراد پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے اور ان کو جو مسائل درپیش ہیں اس کا علاج تلاش کرتی ہیں۔لیکن یہاں حکومت اور جامعات سمیت تحقیقی اداروں میں ایک واضح خلیج یا بداعتمادی ہے اور اسی بنیاد پر ان اداروں میں حکومت کی سرمایہ کاری بتدریج کم ہورہی ہے اور آج جامعات کا میدان شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے۔

مسئلہ یہاں سرکاری جامعات کا ہی نہیں بلکہ نجی شعبوں میں چلنے والی جامعات کا بھی ہے کہ حکومت کا ان کے ساتھ باہمی تعلق کتنا ہے یا وہاں ہونے والی تحقیق سے کس حد تک فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔جو بھی ریاستیں اپنی ناکامیوں یا خرابیوں سے سیکھ کر بہتری کی طرف آگے بڑھتی ہیں تو ان کی بڑی ترجیحات تحقیق کا میدان ہوتا ہے ۔وہ یا تو خود تحقیق کرتے ہیں یا دنیا میں ہونے والی مختلف نوعیت کی تحقیق سے استفادہ کرتی ہیں۔ یہاں بیانیہ کی جنگ میں بھی علمی اور فکری اداروں بالخصوص جامعات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے ۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ خود جامعات ،وائس چانسلرز اور دیگر ماہرین تعلیم کو سرجوڑ کر جامعات کی اپنی گورننس،جدید تعلیمی تقاضوں اور ڈیجیٹل ترقی کی بنیاد پر ہونے والی نئی تبدیلیوں اور تعلیم کے طور طریقوں پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔جو مسائل اس وقت حکومت کو درپیش ہیں اس پر تحقیق کی بنیاد پر نئے نئے حل سامنے آنے چاہیے اور ان ماڈلز کو بنیاد بنا کر اسے قومی بحث کا حصہ بنانا بھی جامعات اور ان کے سربراہان کی بڑی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔

یہ جامعات کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ جامعات کی سطح پر مختلف ماہرین جو مختلف سوچ اور فکر رکھتے ہیں کو مدعو کرے اور بچوںاور اساتذہ کے درمیان مکالمہ کو فروغ دیں۔اسی طرح جامعات کو قومی مسائل کے تناظر میں اپنی اپنی جامعات کی سطح پر مختلف شعبہ جات کے تھنک ٹینک تشکیل دے اور ان کی تجاویز کو قومی سطح پر تشہیر کیا جائے تاکہ وہ ایک بڑے مکالمہ کا حصہ بن سکے ۔کیونکہ کچھ ذمے داری جہاں ریاست اور حکومت کی ہے وہیں جامعات کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ان تمام فریقوں میں مستقل مکالمہ کا نظام موجود ہو ۔اس وقت ماحولیاتی آلودگی ،گورننس، سیکیورٹی اور دہشت گردی ،بیانیہ کی تشکیل ،معاشی ترجیحات ،نوجوانوں میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رجحانات، ادارہ جاتی اصلاحات، آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاو، آئینی اور قانونی یا حکمرانی کے مسائل،عدالتی نظام اور انصاف پر مبنی معاشرہ،دیہی شہری تقسیم،محروم طبقات کی کمزور سیاست ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے دیگر امور پر ہمیں کیسے باہر نکلنا ہے اس پر علمی اور فکری بیانیہ درکار ہے اور اس میں تعلیمی اداروں کا اہم کردار بنتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی بنیاد پر جامعات اور حکمرانی کے ہونے والی جامعات کی اور تحقیق کرتے ہیں کرتی ہیں کا نظام کے نظام اور اس ہے اور اور ان

پڑھیں:

صدر، وزیراعظم یا کوئی جرنیل، آئین سے کوئی بھی بالاتر نہیں، حافظ نعیم الرحمن

 امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ملتان ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک میں پارٹیاں وراثت پر چلتی ہوں وہاں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کوئی انوکھی بات نہیں، ملک میں آئین اور جمہوریت کے خلاف نظام چل رہا ہے، ہم سب کو بحیثیت قوم جمہوریت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلی صرف اللہ کی ہے۔ کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، 27ویں ترمیم سے عدلیہ اقلیت اور حکومت اکثریت میں آگئی ہے۔ عدلیہ کو زیر اور سرنگوں کرنے کا پورا بندوبست کیا گیا ہے، یہ لوگ پہلے بھی عدلیہ کو نہیں مانتے تھے اب بے توقیر کرکے خاتمے پر کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ صدر، چیف آف سٹاف یا کوئی اور بڑا محاسبے سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے اور کسی صورت بھی قابل قبول نہیں، ہماری تاریخ روشن اور تابناک ہے، محاسبہ کا نظام اس قدر ضروری ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا تھا۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو پکڑ لیتے اور امیروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع  پر سید ذیشان اختر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، ثنا اللہ سہرانی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان، صدر ڈسٹرکٹ بار ملک امجد علی ڈوگر، سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ملک عدنان احمد، صدر اسلامک لائرز موومنٹ اطہر عزیز ایڈووکیٹ اور صدر آئی ایل ایم ملتان رفیع رضا ایڈووکیٹ بھی موجو دتھے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جس ملک میں پارٹیاں وراثت پر چلتی ہوں وہاں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ملک میں آئین اور جمہوریت کے خلاف نظام چل رہا ہے۔ ہم سب کو بحیثیت قوم جمہوریت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ پاکستان میں وکیلوں اور جماعت اسلامی کے انتخابات وقت پر ہوتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنی پارٹیوں میں بھی انتخابات نہیں کرواتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سودی معیشت ہے۔ معیشت کا یہ نظام دولت مندوں کو مزید دولت مند اور غریب کو مزید غریب بنا رہا ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غربت میں کمی ہوئی مگر عالمی بنک کی رپورٹ ہے کہ پچھلے تین سال میں غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا غریب کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ملک میں چینی اور آٹا مافیا کا راج ہے جو کسان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے دیتا۔ گزشتہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقہ نے 500 ارب ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں غریب اور تنخواہ دار طبقہ پر زیادہ، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں پر کم بوجھ ڈالا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کے مسائل کے حل کیلئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر کام کیا جائے، شاداب نقشبندی
  • جامعات میں طالبات کو صنفی تشدد وہراسانی سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کی ہدایت
  • بیوروکریسی کی دشمن بیوروکریسی
  • سادگی میں زیبائی، ایرانی یونیورسٹیوں کا نیا زاویۂ نظر
  • عدلیہ کو زیر کرنے کا پورا بندوبست کیا گیا، کوئی آئین سے بالاتر نہیں: حافظ نعیم 
  • صدر، وزیراعظم یا کوئی جرنیل، آئین سے کوئی بھی بالاتر نہیں، حافظ نعیم الرحمن
  • ریاست شخصیات سے نہیں،نظام سے چلتی ہے
  •  حکومت پنجاب بھر میں ضلع کونسل کو ختم کر کے بیوروکریسی کے ذریعے انتظامی امور چلانا چاہتی ہے، جے یو آئی(ف)
  • ای کورٹس نظام کیلئے لائحہ عمل تشکیل، مقصد کارکردگی بہتر بنانا ہے: چیف جسٹس