دنیا بھر میں ایک تہائی افراد سر درد کا شکار ہیں، تحقیقی رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
واشنگٹن(ویب ڈیسک)اگر آپ کو بھی پابندی سے آدھے سر کا درد (مائیگرئن) ہوتا ہے، تو پھر آپ تنہا نہیں آپ کو ایسے بہت سے لوگوں کی کمپنی میسر آئے گی۔
معروف طبی میگزین دی لانسیٹ نیورولوجی کے دسمبر کے شمارے میں محققین ایک رپورٹ جاری کریں گے جس کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک شخص سر درد کے عارضے میں مبتلا ہے اور اس بیماری سے تین ارب افراد متاثر ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال خاص طور پر خواتین کے لیے زیادہ سنگین ہے، کیونکہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انہیں مردوں کے مقابلے میں اپنی زندگی میں سر درد سے متعلق صحت کے مسائل دو گنا سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس تحقیقی ٹیم کے انویسٹی گیٹر اور یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوا لیوایشن میں تحقیقی سائنس دان یووین ژو نے کہا کہ خواتین میں سر درد سے متعلق معذوری کی سطح مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہوتی ہے کیونکہ انہیں سر درد زیادہ مرتبہ اور طویل دورانیے تک رہتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کا پتہ لگانا دنیا بھر میں سردرد کی بیماریوں کی روک تھام اور ان کے مؤثر انتظام کو بہتر بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 18 ممالک کے تقریباً 42,000 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تاکہ سال 2023 میں سر درد سے پیدا ہونے والے عالمی صحت کے مسائل کا اندازہ لگایا جاسکے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دنیا کے 16ممالک میں شدید خوراک کی کمی، لاکھوں افراد کو قحط کا خطرہ، اقوام متحدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (FAO) اور عالمی خوراک پروگرام (WFP) نے مشترکہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے 16 علاقوں میں شدید غذائی قلت بڑھ رہی ہے اور نومبر 2025 سے مئی 2026 کے دوران لاکھوں افراد قحط کا شکار ہو سکتے ہیں۔
عالمی رپورٹس کے مطابق زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں بھوک کی بنیادی وجہ جنگ اور تشدد ہیں، اور سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں ہائٹی، مالی، فلسطین، جنوبی سوڈان، سوڈان، اور یمن شامل ہیں جہاں آبادی کو فوری طور پر شدید غذائی قلت کا سامنا ہے، افغانستان، کانگو، میانمار، نائجیریا، صومالیہ اور شام کو انتہائی خطرہ والے علاقے قرار دیا گیا، جبکہ برکینا فاسو، چاڈ، کینیا اور بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین بھی شدید حالات سے دوچار ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کے لیے فنڈز انتہائی کم ہیں۔ اکتوبر کے آخر تک صرف 10.5 ارب ڈالر وصول ہوئے ہیں جبکہ 29 ارب ڈالر کی ضرورت تھی، جس کی وجہ سے خوراک کی تقسیم کم کی گئی اور غذائی و اسکول فیڈنگ پروگرام معطل کر دیے گئے۔
ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل QU Dongyu نے کہا کہ دنیا کے الرٹ سسٹمز کام کر رہے ہیں، لیکن ہمیں بحران کے بعد ردعمل دینے کے بجائے پہلے سے روکنے پر توجہ دینی چاہیے، قحط کی روک تھام صرف اخلاقی فرض نہیں بلکہ طویل مدتی امن اور استحکام میں سرمایہ کاری ہے، امن خوراک کی حفاظت کے لیے بنیادی شرط ہے اور خوراک تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے۔
WFP کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر Cindy McCain نے کہا کہ ہم ایک مکمل طور پر قابلِ روک بھوک کے بحران کے دہانے پر ہیں جو کئی ممالک میں وسیع پیمانے پر قحط کا سبب بن سکتا ہے۔
رپورٹ میں فوری فنڈنگ، سیاسی عزم اور انسانی ہمدردی کے لیے بغیر رکاوٹ رسائی کی اپیل کی گئی ہے تاکہ وقت سے پہلے قحط کی روک تھام کی جا سکے۔