کیا طالبان افغانستان کو مزید برباد کرنا چاہتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
بنگلہ دیش کے بھارت کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مودی حکومت سخت تذبذب کا شکار تھی کہ اس کی یہ ناکامی اس کی انتخابی مہم جوئی پر اثرانداز ہو کر اس کی عوامی حمایت کو کم نہ کر دے۔ ایسے میں مودی نے طالبان کا انتخاب کیا کہ وہ بی جے پی کی ڈوبتی ہوئی ساکھ کو بچا سکتے ہیں۔
کہاں تو مودی ہی کیا تمام ہی بی جے پی کے رہنما طالبان کو قاتل، جاہل اور دہشت گرد قرار دیتے تھے اورکہاں انھوں نے انھیں اپنے گلے لگا لیا، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے طالبان کے تعلقات پاکستان کے ساتھ روزبروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کو کابل بھیجا گیا جس نے طالبان کو کوئی بڑی لالچ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلوں کو بڑھایا، ساتھ ہی طالبان وزیر خارجہ کو دہلی کا دورہ کرنے کی دعوت دے دی۔
طالبان تو چاہتے ہی یہی تھے کہ پاکستان کے خلاف کوئی ان کی مدد کرے۔ حالانکہ پاکستان ان سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کر رہا تھا اور ان کی تجارت کا راستہ بھی بند کرنا نہیں چاہتا، صرف کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان پر حملے کرنے سے روکنا چاہتا ہے، مگر طالبان کو یہ بات بہت ناگوارگزری، شاید اس لیے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے طالبان کی اوپر سے لے کر نچلی سطح تک کی تنظیموں میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔
اس کے دہشت گرد افغان حکومت میں بھی موجود ہیں، چنانچہ طالبان ان کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں۔ پاکستانی حکومت طالبان سے پہلے بھی کئی دفعہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینے کے لیے کہہ چکی ہے مگر وہاں سے جو جواب آیا وہ بہت ہی حیرت انگیز تھا کہ ٹی ٹی پی نے انھیں کابل میں اقتدار تک پہنچانے میں مدد کی ہے چنانچہ وہ اس کے خلاف کیسے کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔
اس سے تو ظاہر ہوا کہ پاکستان نے مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا کو افغانستان سے نکالنے کے لیے جو کوششیں کی، وہ سب بے کار تھیں۔ اب تو انھیں پاکستان کے بجائے ٹی ٹی پی کی قربانیاں اور ہمدردیاں یاد ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان نے انھیں امریکی چنگل سے نجات دلانے کے لیے امریکا سے بھی مخاصمت مول لی تھی۔
امریکی وزراء برابر پاکستان کے خلاف بیان دیتے رہے حتیٰ کہ خود صدر ٹرمپ نے پاکستان کو طالبان کا ساتھ دینے پر دھمکیاں دیں اور پھر پاکستان کی امداد بھی بند کر دی۔ امریکی حکومت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان کو طالبان کی حمایت سے روکا جائے مگر پاکستان نے امریکا جیسے اہم اور اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر تک کی پرواہ نہیں کی۔
دوسری طرف بھارت مسلسل طالبان کے خلاف کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کی مدد کرتا رہا۔ بھارت ان دونوں حکومتوں کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کراتا رہا۔ اسی زمانے میں ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو پھر زندہ کر دیا گیا۔ پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ پاک افغان بارڈر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
یہ افغانستان کی بدقسمتی ہے کہ وہاں کبھی کوئی پائیدار حکومت قائم نہیں رہی ہے۔ یہاں قائم ہونے والی تمام حکومتیں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کی طفیلی رہی ہیں۔ یہ ماضی میں تیمور لنگ، چنگیزخان، سکندر اعظم وغیرہ کی سلطنتوں کا حصہ رہا ہے۔
اس پر ایرانی بادشاہوں نے بھی قبضہ کیا۔ روس کے زیر تسلط بھی رہا۔ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے سے قبل بھی روسی حکومت افغانستان پر قبضہ کرنے کی خواہاں تھی جسے انگریزوں نے ناکام بنا دیا تھا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ روس افغانستان کے بعد برصغیرکو بھی اپنا ہدف بنا کر ان کا کھیل خراب کر سکتا ہے۔
مغلیہ دور میں یہ ہندوستان کا حصہ رہا۔ بابر اور اس کے خاندان کی کئی قبریں کابل میں ہی ہیں۔ انگریز افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اس پہاڑی اور غیرترقی یافتہ علاقے سے خود دست بردار ہو گئے تھے البتہ 1893 میں اس وقت کے افغان منتظم امیر عبدالرحمن سے ایک سرحدی معاہدہ طے کیا جس کے تحت ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ سرحد تسلیم کیا گیا۔
اس معاہدے پر انگریزوں کی جانب سے سیکریٹری خارجہ سر ہنری ڈیورنڈ نے دستخط کیے تھے چنانچہ انھی کے نام سے یہ سرحد مشہور ہو گئی۔ اس کے بعد افغانستان میں کئی حکومتیں بدلیں مگر کسی بھی حکمران نے اس حد بندی کو نہیں چھیڑا۔
جب تقسیم ہند کا مطالبہ زور پکڑا اور پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی تو انگریز رہنماؤں نے افغانستان کے اس وقت کے امیر امان اللہ خان کو ورغلا کر ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑا کردیا، ساتھ ہی پختونستان کا شوشہ بھی چھوڑ دیا جسے سرحدی گاندھی کے ذمے کر دیا گیا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آ گیا مگر افغان حکومت نے پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا شروع کردیا۔ حالانکہ 1948 میں افغانستان نے پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے جس کا مطلب تھا کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ ڈیورنڈ لائن کو بین الااقوامی سرحد بھی تسلیم کر لیا ہے۔
مگر وہ بدستور ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپگینڈا کرتے رہے جس پر 1952 میں دولت مشترکہ کے وزیر مسٹر بیکر نے وضاحت کی کہ ڈیورنڈ لائن ایک مستقل سرحد ہے جو عالمی قوانین کے مطابق ہے اور یہ بھی وضاحت کی گئی کہ نئے ملک کے وجود میں آنے کے بعد تمام سابقہ معاہدے اور ذمے داریاں اسے منتقل ہو جاتی ہیں، اس طرح ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔
1976 میں اس وقت کے افغان حکمران سردار داؤد پاکستان کے دورے پر آئے تو انھوں نے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ سردار داؤد کی اس پیشکش سے ہی ڈیورنڈ لائن کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں کتنی جان ہے۔
بس یہ ایک شوشہ ہے جو پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر طالبان ہی کیا، افغانستان کے تمام رہنما یہ سمجھ لیں کہ اگر وہ اپنے ملک کو یوں ہی کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف استعمال کرتے رہے تو یہ ہمیشہ ہی ایک غیرترقی یافتہ اور دہشت گرد ملک بنا رہے گا، نیز عالمی طاقتیں اور بھارت جیسا مسلم دشمن ملک اسے اپنے مفاد میں بربادی سے دوچارکرتا رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈیورنڈ لائن کو پاکستان کے پاکستان نے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف کے بعد کے لیے
پڑھیں:
افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کن علاقوں میں موجود ہے؟
حالیہ پاک افغان مذاکرات میں پاکستان نے مؤقف اختیار کیا پاکستان میں دہشتگردی افغانستان سے ہو رہی ہے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس حوالے سے شواہد بھی افغان طالبان حکومت کے حوالے کیے گئے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی اور کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں طالبان حکومت کی حمایت کے بغیر افغانستان سے کارروائی نہیں کر سکتیں اور مبینہ طور پر انہیں افغان حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں کن علاقوں میں ہیں؟دفاعی تجزیہ کاروں اور افغان امور کے ماہرین کے مطابق افغانستان اس وقت دہشتگردوں کے لیے انتہائی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جہاں مختلف کالعدم تنظیمیں سرگرم ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی پھیلا رہی ہیں۔
سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر مشتاق یوسفزئی کے مطابق افغانستان میں بعض تنظیموں کو طالبان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کے مطابق پاکستان مخالف کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں نہ صرف موجود ہے بلکہ فعال بھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فوجی آپریشنز کے دوران ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغانستان منتقل ہوئے تھے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کے وقت ملا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان فرار ہوا تھا، اور اس کے ساتھی آج بھی وہاں موجود ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان اس وقت دہشتگردوں کے لیے سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے، اور دہشتگرد افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، جو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
حکام کے مطابق ٹی ٹی پی کابل سمیت کئی افغان صوبوں میں سرگرم ہے، تاہم پاکستان سے ملحقہ صوبوں میں اس کی موجودگی زیادہ مضبوط ہے۔ کنڑ، ننگرہار، خوست، پکتیکا، قندہار، ہلمند اور دیگر علاقوں میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
حکام کے مطابق پکتیکا کے برمل ضلع اور قندہار کے اسپین بولدک اور شاہ ولی کوٹ جیسے علاقوں میں ٹی ٹی پی کے اہم مراکز قائم ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی تعداد 6 سے 10 ہزار کے درمیان ہے، اور 2021 میں افغان طالبان حکومت آنے کے بعد ان کے لیے مشکلات کم ہوئیں اور انہیں سہولتیں حاصل ہوئیں۔
ٹی ٹی پی کی نئی سرگرمیاں، شمالی افغانستان میں مضبوطیمشتاق یوسفزئی کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان سے متصل افغان صوبوں میں سرگرم ہے۔
حالیہ مہینوں میں وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں سے بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی جنگجو کنڑ، نورستان اور بدخشاں منتقل ہوئے ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں پہلے سے موجود ٹی ٹی پی کے وہ عسکریت پسند بھی ہیں جو سوات آپریشن کے دوران ملا فضل اللہ کے ساتھ یہاں آئے تھے اور ان کی مضبوط پناہ گاہیں موجود ہیں۔
بارڈر کے قریب کون سے افغان علاقے محفوظ پناہ گاہیں ہیں؟سینیئر صحافی منظور علی کے مطابق ٹی ٹی پی انہی افغان علاقوں میں مضبوط ہے جو پاکستان کے شورش زدہ اضلاع سے ملحق ہیں۔
ان کے مطابق وزیرستان، خیبر، باجوڑ، مہمند، چترال اور دیگر سرحدی علاقوں سے متصل افغان علاقوں میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں قائم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چترال سے ملحقہ علاقے کنڑ میں طالبان بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے اہم رہنماؤں کی پناہ گاہیں بھی وہیں ہیں۔ 2018 میں ٹی ٹی پی کے سابق امیر ملا فضل اللہ بھی کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ کنڑ سے چترال بارڈر پر متعدد حملے بھی کیے گئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی بھرتی افغانستان میں کیوں ہو رہی ہے؟دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی افغانستان سے منظم ہو رہی ہے۔
ان کے مطابق، ‘جو لوگ افغان طالبان کے لیے جنگ لڑتے رہے، حکومت بننے کے بعد وہ بیروزگار ہوئے اور اب ٹی ٹی پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ چونکہ ٹی ٹی پی سے افغان طالبان کو کوئی خطرہ نہیں، اس لیے وہ ان کے خلاف اقدام نہیں کرتے۔’
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی متعدد دہشتگردی کارروائیوں میں افغان باشندوں کا ملوث ہونا تفتیش کے دوران ثابت ہو چکا ہے۔
افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟سینیئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کے مطابق افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ٹی ٹی پی ان کے ‘جہادی ساتھی’ ہیں۔
ان کے مطابق طالبان حکومت اپنے دیرینہ اتحادیوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرے گی، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں اندرونی بغاوت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
محمود خان بابر کے مطابق بھی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نظریاتی طور پر قریب ہیں، اسی لیے طالبان حکومت ان کے خلاف کسی بڑے اقدام سے گریز کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان ٹی ٹی پی دہشتگردی