پاکستان کا افغانستان سے تجارت بند رکھنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-01-23
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے واضح کیا کہپاکستان نے کبھی کابل کی کسی حکومت سے بات چیت سے انکار نہیں کیا، تاہم پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ، چاہے وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہو یا بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے مذاکرات نہیں کرے گا‘پاک افغان تجارتی سرگرمیاں بند رہیںگی۔ جمعے کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران طاہر حسین اندرابی نے کہا کہ افغان طالبان انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کا تیسرا دور 7 نومبر کو استنبول میں ختم ہوا، انہوں نے ثالثی کرنے والے ممالک قطر اور ترکیہ کی ’خلوص پر مبنی کوششوں‘ کی تعریف بھی کی۔ترجمان نے کہا کہ طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان پر افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، ان برسوں میں پاکستان نے فوجی اور شہری جانی نقصان کے باوجود انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا اور صورتحال کو نہیں بگڑنے دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی توقع تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ طالبان انتظامیہ ان حملوں پر قابو پا لے گی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات کرے گی‘ اس عرصے میں پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے مثبت انداز میں رابطہ قائم رکھنے کی کوشش بھی کی اور تجارت سمیت انسانی بہبود سے متعلق تعاون کی پیشکش کی، مگر بدقسمتی سے طالبان انتظامیہ کی طرف سے عملی اقدامات کے بجائے صرف کھوکھلے وعدے ہی سامنے آئے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان انتظامیہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے معاملے کو مسلسل انسانی مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کالعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو افغانستان میں پناہ گزینوں کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ یہ کوئی انسانی یا پناہ گزینوں کا مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردوں کو پناہ گزین ظاہر کرنے کی ایک چال ہے۔ترجمان نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں مقیم کسی بھی پاکستانی کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں باقاعدہ سرحد پر پاکستانی حکام کے حوالے کیا جائے، نہ کہ جدید اسلحے اور آلات سے لیس ہو کر سرحد کی جانب دھکیلا جائے۔ علاوہ ازیں انٹیلی جنس بیورو ڈویژن اور سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں جوڈیشل کمپلیکس جی۔11 اسلام آباد پر حملے میں ملوث ٹی ٹی پی کے دہشت گرد سیل کے 4 ارکان گرفتار کرلیے گئے۔ دوران تفتیش ساجد اللہ عرف شینا، جو خودکش حملہ آور کا ہینڈلر ہے، نے اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی کمانڈر سعید الرحمن عرف داداللہ نے اسے ٹیلیگرام ایپلی کیشن کے ذریعے رابطہ کرکے اسلام آباد میں خودکش حملہ کروانے کا کہا، تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔داد اللہ نے ساجد اللہ عرف ’’شینا‘‘ کو خودکش بمبار عثمان عرف ’’قاری‘‘ کی تصاویر بھیجیں تا کہ وہ اسے پاکستان میں وصول کرے۔ خودکش بمبار عثمان عرف ’’قاری‘‘ کا تعلق شنواری قبیلے سے تھا اور وہ اچین، ننگرہار افغانستان کا رہائشی تھا۔ خودکش بمبار افغانستان سے پاکستان پہنچا تو ساجد اللہ عرف ’’شینا‘‘ نے اسے اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ٹھہرایا۔ ساجد اللہ نے اکھن بابا قبرستان پشاور سے خودکش جیکٹ حاصل کی اور اسے اسلام آباد پہنچایا اور دھماکے کے روز ساجد اللہ نے خودکش بمبار عثمان عرف ’’قاری‘‘ کو خودکش جیکٹ پہنائی‘ افغانستان میں موجود اعلیٰ قیادت ہر قدم پر اس نیٹ ورک کی رہنمائی کر رہی تھی۔ اس واقعے میں ملوث پورا سیل پکڑا جا چکا ہے۔ آپریشنل کمانڈر اپنے 3 دہشت گرد ساتھیوں سمیت گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں اور مزید انکشافات و گرفتاریاں متوقع ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طالبان انتظامیہ افغانستان میں اسلام ا باد ساجد اللہ نے کہا کہ انہوں نے ٹی ٹی پی اللہ نے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیڈ لاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-03-5
ضیاء الحق سرحدی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں چھے نومبر کو شروع ہونے والے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ اس وقت پاک افغان مذاکرات میں مکمل ڈیڈ لاک ہے، مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، اگلے دور کا کوئی پروگرام نہیں، پاکستانی وفد کا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں، انہیں ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھیر جائیں، ثالث کہتے تو پاکستانی وفد رک جاتا، مذاکرات میں افغان وفد پاکستانی موقف سے متفق تھا تاہم لکھ کر دینے پر راضی نہ تھا جبکہ دوحا اور استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے جو تین ادوار ہوئے تھے، ان کے انعقاد میں قطر کے علاوہ ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ ان مذاکرات میں جب بھی ڈیڈ لاک پیدا ہوا‘ قطر کے ہمراہ ترکیہ نے بھی اسے ختم کرانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔
استنبول مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد اگرچہ خواجہ آصف نے پاک افغان مذاکرات کی کہانی ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ترکیہ کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان ڈیڈ لاک پر بڑی تشویش ہے اور ترکیہ کسی صورت مصالحت کی کوششوں کو ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین مستقل جنگ بندی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں ممکنہ آمد‘ ترکیہ کے پاکستان کے ساتھ خلوص اور دو ہمسایہ مسلم ملکوں میں مصالحت کے لیے مخلصانہ کوشش کی آئینہ دار ہے۔ ایران کی طرف سے بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی اختلافات ختم کرانے میں تعاون کی پیشکش اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں جنگ کی صورت میں جو ممالک فوری طور پر اور سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں ایران بھی شامل ہو گا‘ اس بنا پر ایران کی طرف سے پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور سرحدی جھڑپوں کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات کا اظہار قدرتی اور قابل ِ فہم ہے۔ اگرچہ اس وقت صرف روس نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے کا اقدام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہم سیاسی‘ عسکری اور معاشی مظہرات کا حامل ہے۔ تاجکستان میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایک حالیہ کانفرنس کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے افغانستان میں امن اور استحکام کو وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
2020ء میں دوحا معاہدے میں افغان طالبان نے پوری دنیا کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے چار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود افغان طالبان اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے اور افغان سرزمین بدستور پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی اسلام آباد جی الیون کچہری کے باہر بھارتی اسپانسرڈ اور افغان طالبان کی پراکسی نے خودکش دھماکا کیا‘ جس کے نتیجے میں 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل پیر کے روز جنوبی وزیرستان میں وانا کیڈٹ کالج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ یہ امر پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ افغان طالبان نے نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے انہیں عسکری اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد افواجِ پاکستان نے جب دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ملٹری آپریشن کا آغاز کیا تو ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے بھاگ کر افغانستان میں پناہ حاصل کر لی اور وہاں افغان طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ افغان طالبان نہ صرف اس کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی کو اپنا سب سے قریبی ساتھی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے دوحا اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات سے صاف انکار کر دیا بلکہ یہاںتک کہہ دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے۔
طالبان حکومت پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کا مؤقف نہ صرف پاکستان‘ اس کے دیگر ہمسایہ ممالک بلکہ عالمی برادری کی رائے اور فیصلوں سے متصادم ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر افغان طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لانے سے صاف انکاری ہیں۔ دوحا اور استنبول مذاکرات بھی اسی وجہ سے بے نتیجہ رہے۔ اس کے باوجود ترکیہ اور ایران جیسے برادر مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کا مستقل حل ڈھونڈنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ تنازعات اسی صورت ختم ہو سکتے ہیں جب افغان طالبان اپنے سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکیں گے‘ مگر ایران اور ترکیہ کی طرف سے مصالحت کی پیشکش کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بڑی جنگ کے امکان کو روکنا ہے کیونکہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ سرحد پار سے کسی بھی دہشت گردی کا فوری اور بھرپور جواب دے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی ہدایت پر اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں آمد کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر آمادہ کرنا اور سیز فائر کو مستقل قرار دینے پر راضی کرنا ہے۔ امید ہے یہ اعلیٰ سطحی وفد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔ یہ بات عین قرین قیاس ہے کہ ترکیہ نے پاکستان میں وفد بھیجنے سے قبل افغان طالبان سے بھی رابطہ قائم کیا ہوگا اور ان کی طرف سے اپنے مؤقف میں لچک کا اشارہ دیا گیا ہوگا کیونکہ پاکستان سے کشیدگی اور جنگ کی صورتحال سے افغانستان میں بے چینی پھیلنے کا خدشہ ہے جو افغان طالبان کی حکومت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
افغان حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اور پھر دونوں اطراف کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا چاہیے۔ اگر افغان حکومت کو کسی بھی قسم کے مسئلے کا سامنا ہے تو پاکستان اس کی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے جو ہر طرح سے جائز ہے، اس حوالے سے ان تمام ممالک کو بھی مدد کرنی چاہیے جو افغان طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کر سکتے ہیں، بلاشبہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ افغانستان کی سرزمین ایک پراکسی جنگ کا میدان بن چکی ہے، جہاں علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے چال چلی رہی ہیں۔ پاکستان، جو اس سب سے براہ راست متاثر ہے، نے ہمیشہ سفارتی اور پر امن ذرائع کو ترجیح دی ہے، لیکن جب تک دوسرے فریق کی سنجیدگی نہ ہو، تو یہ کوششیں ناکام رہتی ہیں۔ ایسے نازک موڑ پر، ایران اور ترکیہ کی مصالحتی کوششیں ایک امید کی کرن کی مانند ابھر رہی ہیں۔ دونوں ممالک خود بھی افغانستان میں فعال دہشت گردی کے کیمپوں سے براہ راست متاثر ہیں۔ ایران کو سرحد پار بلو چستان اور دیگر علاقوں سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں کا سامنا ہے، جبکہ ترکیہ وسطی ایشیائی روابط کی وجہ سے ان حملوں کی لپیٹ میں آتا رہا ہے۔ ان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مسئلے کے حل کے لیے فعال کردار کا عزم ایک مثبت پیش رفت ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان مواقع کو سنجیدگی سے لے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ایک جامع امن فریم ورک تیار کرے۔ اس میں سرحدوں کی نگرانی، انٹیلی جنس اشتراک اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی شامل ہونی چاہیے۔ طالبان کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ انکار کی پالیسی طویل مدتی نقصان کا باعث بنے گی۔ بھارتی مداخلت جیسے بیرونی عوامل کو روکنے کے لیے علاقائی فورمز جیسے ای سی او اور شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار بھی اہم ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ امن کی راہ سفارتکاری اور با ہمی اعتماد سے ہی گزرتی ہے۔ ایران اور ترکیہ کی شمولیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خطہ تنازعات سے تنگ آچکا ہے اور اب مشتر کہ حل کی تلاش میں ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو ضائع نہ کرنے دیں، کیونکہ ایک مستحکم افغانستان ہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔