کیا دہلی بم دھماکے میں افغان طالبان ملوث ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251116-03-6
وجیہ احمد صدیقی
یہ واقعہ نہایت افسوسناک اور انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا، لیکن اس واقعے کی آڑ لے کر بھارت نے ایک بار پھر پاکستان پر ناجائز الزام تراشی کی ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ کہ یہ حملہ جیش محمد کے ذریعے کیا گیا جو پاکستان میں ایک کالعدم تنظیم ہے، حقیقت پسندی سے کوسوں دور ہے۔ جیش محمد کے دفاتر اور تربیتی مراکز افغان طالبان کے زیر نگرانی حکومت میں ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے روابط افغان طالبان کے ساتھ گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ جیش محمد اور افغان طالبان کے تعلقات کا ثبوت بھارتی طیارے کے اغوا اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ 1999 میں، ایک بھارتی طیارہ آئی سی آر ایف ایل 814 (IC-814) کو افغان شہر قندھار میں اغوا کر کے لایا گیا تھا۔ انڈین ائر لائنز کی یہ پرواز نمبر 814 کھٹمنڈو سے دہلی جا رہی تھی جسے 24 دسمبر 1999 کو اغوا کیا گیا اور ہائی جیکروں نے ایک ہفتے تک مسافروں کو یرغمال رکھا پہلے یہ جہاز بھارتی شہر امرتسر میں اترا پھر لاہور پھر دبئی اور پھر قندھار میں آکر ٹھیر گیا۔ اس جہاز میں 179 مسافر تھے جن میں پانچ ہائی جیکر بھی شامل تھے۔
اغوا کاروں نے بھارتی حکومت سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی حکومت نے مذاکرات کے بعد اغواکاروں کی شرائط قبول کیں اور کئی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں مولانا مسعود اظہر بھی شامل تھے۔ مولانا مسعود اظہر نے بھارت میں رہائی کے بعد 2000 میں جیش محمد تنظیم کی بنیاد رکھی، جو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں عسکری کارروائیوں کے لیے معروف ہے۔ قندھار میں طیارے کا اتارنا اور مولانا مسعود اظہر کی رہائی ایک اہم واقعہ تھا۔ جس نے خطے کی عسکری اور سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔ اس واقعے کے بعد جیش محمد نے بھارت میں متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کی اور مولانا مسعود اظہر کو بھارت سمیت کئی ممالک نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ پاکستان نے ان کی تنظیم کو کالعدم بھی کردیا ہے۔ جیش محمد کے طالبان سے تعلقات بھی گہرے ہیں، اور مولانا مسعود ایک عرصہ طالبان کے زیر اثر افغانستان میں مقیم رہے ہیں۔ یہ واقعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ایک سنگین موڑ تھا اور آج بھی دونوں ممالک کے تعلقات پر اثرانداز ہے۔ لیکن آج بھارت نے مسعود اظہر کو پناہ دینے والے افغان طالبان اس سے نہ صرف ہاتھ ملایا ہے بلکہ انہیں گلے لگا لیا ہے۔ جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر کی طالبان کے ساتھ قربت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باعث یہ خطہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس صورت حال میں بھارتی حکومت کو اپنی شکایات افغان حکومت سے کرنی چاہیے تھی، لیکن اس نے بلا ثبوت پاکستان کے اوپر الزام لگا دیا۔
بھارت نے اس واقعے میں جیش محمد کی آڑ لیتے ہوئے کشمیری مسلمانوں اور ان کے خاندانوں کو ملوث کر کے نہایت مکاری اور عیاری کا ثبوت دیا ہے۔ گرفتاریاں بلا ثبوت کشمیری انقلابیوں کی کی گئی ہیں، جن پر جیش محمد کے کارکن ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ یہ الزام بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کے خلاف ایک سیاسی اور عسکری سازش ہے، تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا سکے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ناانصافی کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ بھارت بار بار ایسے جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اس دوران اپنے شہریوں کی جانوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ بھارت خود اپنے عوام کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے اور دہشت گردی کو اپنے لیے سیاسی حربہ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ پاکستان نے علاقائی امن کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں، بھارت نے جارحیت اور الزام تراشی کا راستہ اپنایا ہے۔ افغان طالبان کے جیش کے ساتھ مضبوط روابط کی روشنی میں، یہ مسئلہ ایک اعلیٰ سیاسی سطح پر طالبان حکومت کے ساتھ اٹھانا چاہیے تھا تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پیش رفت ممکن ہو سکے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے اور اس پر صرف الزام تراشی سے کام نہیں چلے گا۔ بھارت، پاکستان اور افغان طالبان کو مشترکہ کارروائی کر کے دہشت گرد نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ عالمی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے میں منصفانہ کردار ادا کریں تاکہ بے گناہ کشمیری اور دیگر متاثرین کو انصاف ملے اور علاقائی استحکام بحال ہو۔
دہلی میں ہونے والے اس بم دھماکے کے حوالے سے دستیاب معلومات اور رپورٹس کے مطابق، بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جو شواہد پیش کیے گئے ہیں، وہ ٹھوس یا قطعی طور پر قائل کرنے والے نہیں سمجھے جاتے۔ متعدد ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ تحقیقات ابھی مکمل نہیں ہوئیں اور اہم شواہد اور مواصلاتی ریکارڈز کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ گرفتاریاں اور بعض اعترافی بیانات تو ہیں، لیکن ان کے علاوہ ایسی کوئی بہت مضبوط اور غیر قابل تردید معلومات سامنے نہیں آئیں جو واضح طور پر پاکستان کو اس واقعے کا ذمے دار تسلیم کریں۔ مزید یہ کہ بھارت کا کشمیری مسلمانوں کو ملوث کرنا ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ بن چکا ہے جس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی نظر رکھی ہے، کیونکہ اس طرح کے الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت عام طور پر دستیاب نہیں ہوتا بلکہ تعصبات پر مبنی ثابت ہوتے ہیں۔ بھارت کے دعوے زیادہ تر مبنی ہیں مبینہ فون کالز اور مواصلاتی روابط پر، جو کہ ایک حد تک الزام کی بنیاد تو ہو سکتے ہیں لیکن قانونی اور جامع ثبوت ہونے کے لیے ناکافی ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ تا حال بھارت کی طرف سے پاکستان کو اس حملے سے منسوب کرنے کے لیے پیش کیے گئے شواہد ٹھوس، مکمل اور غیر متنازع نہیں ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں بین الاقوامی تحقیقات اور شفافیت کی ضرورت ہے تاکہ اس قسم کے حساس واقعات میں حقائق واضح ہو سکیں اور بے گناہ لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔
دہلی میں لال قلعے بم دھماکے کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر تحقیقات میں خاص طور پر ایسی کوئی معروف یا سرکاری بین الاقوامی ٹیمیں شامل ہونے کی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بھارت کی اپنی مختلف اندرونی انٹیلی جنس اور تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس پہ مکمل پیمانے پر تحقیقات کیں، لیکن شواہد کی جانچ کے لیے آزاد، غیر جانبدار اور بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کی شمولیت واضح نہیں ہوئی ہے۔ تاکہ بھارت کے دعوے کی تصدیق یا تردید ہو سکے لیکن بھارت کبھی بھی عالمی تحقیقاتی اداروں کو اس معاملے میں شامل نہیں کرے گا کیونکہ یہ سلسلہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر تحقیقاتی رپورٹس اور ماہرین زیادہ تر بھارتی حکومت کی پیش کردہ معلومات کی جانچ پڑتال مستقل بنیادوں پر نہیں کر سکے، اور اس معاملے میں مکمل شفافیت اور شواہد کی آزادانہ جانچ کی اپیل کی جاتی رہی ہے مگر عالمی تحقیقاتی ٹیموں کی شمولیت کا ثبوت سامنے نہیں آیا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے شواہد کی جانچ میں بین الاقوامی ٹیموں کا کردار بہت محدود یا نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیمیں عام طور پر تب شامل کی جاتی ہیں جب معاملہ عالمی سطح پر خاص اہمیت رکھتا ہو یا دو یا زیادہ ممالک کے درمیان تنازع ہو جس میں اقوام متحدہ یا دیگر عالمی ادارے مداخلت کرتے ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مولانا مسعود اظہر اور مولانا مسعود افغان طالبان کے اس معاملے میں بھارتی حکومت بین الاقوامی جیش محمد کے پاکستان کے اس واقعے کہ بھارت بھارت نے کے ساتھ لیکن ا کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیڈ لاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-03-5
ضیاء الحق سرحدی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں چھے نومبر کو شروع ہونے والے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ اس وقت پاک افغان مذاکرات میں مکمل ڈیڈ لاک ہے، مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، اگلے دور کا کوئی پروگرام نہیں، پاکستانی وفد کا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں، انہیں ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھیر جائیں، ثالث کہتے تو پاکستانی وفد رک جاتا، مذاکرات میں افغان وفد پاکستانی موقف سے متفق تھا تاہم لکھ کر دینے پر راضی نہ تھا جبکہ دوحا اور استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے جو تین ادوار ہوئے تھے، ان کے انعقاد میں قطر کے علاوہ ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ ان مذاکرات میں جب بھی ڈیڈ لاک پیدا ہوا‘ قطر کے ہمراہ ترکیہ نے بھی اسے ختم کرانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔
استنبول مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد اگرچہ خواجہ آصف نے پاک افغان مذاکرات کی کہانی ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ترکیہ کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان ڈیڈ لاک پر بڑی تشویش ہے اور ترکیہ کسی صورت مصالحت کی کوششوں کو ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین مستقل جنگ بندی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں ممکنہ آمد‘ ترکیہ کے پاکستان کے ساتھ خلوص اور دو ہمسایہ مسلم ملکوں میں مصالحت کے لیے مخلصانہ کوشش کی آئینہ دار ہے۔ ایران کی طرف سے بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی اختلافات ختم کرانے میں تعاون کی پیشکش اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں جنگ کی صورت میں جو ممالک فوری طور پر اور سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں ایران بھی شامل ہو گا‘ اس بنا پر ایران کی طرف سے پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور سرحدی جھڑپوں کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات کا اظہار قدرتی اور قابل ِ فہم ہے۔ اگرچہ اس وقت صرف روس نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے کا اقدام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہم سیاسی‘ عسکری اور معاشی مظہرات کا حامل ہے۔ تاجکستان میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایک حالیہ کانفرنس کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے افغانستان میں امن اور استحکام کو وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
2020ء میں دوحا معاہدے میں افغان طالبان نے پوری دنیا کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے چار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود افغان طالبان اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے اور افغان سرزمین بدستور پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی اسلام آباد جی الیون کچہری کے باہر بھارتی اسپانسرڈ اور افغان طالبان کی پراکسی نے خودکش دھماکا کیا‘ جس کے نتیجے میں 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل پیر کے روز جنوبی وزیرستان میں وانا کیڈٹ کالج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ یہ امر پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ افغان طالبان نے نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے انہیں عسکری اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد افواجِ پاکستان نے جب دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ملٹری آپریشن کا آغاز کیا تو ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے بھاگ کر افغانستان میں پناہ حاصل کر لی اور وہاں افغان طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ افغان طالبان نہ صرف اس کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی کو اپنا سب سے قریبی ساتھی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے دوحا اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات سے صاف انکار کر دیا بلکہ یہاںتک کہہ دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے۔
طالبان حکومت پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کا مؤقف نہ صرف پاکستان‘ اس کے دیگر ہمسایہ ممالک بلکہ عالمی برادری کی رائے اور فیصلوں سے متصادم ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر افغان طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لانے سے صاف انکاری ہیں۔ دوحا اور استنبول مذاکرات بھی اسی وجہ سے بے نتیجہ رہے۔ اس کے باوجود ترکیہ اور ایران جیسے برادر مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کا مستقل حل ڈھونڈنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ تنازعات اسی صورت ختم ہو سکتے ہیں جب افغان طالبان اپنے سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکیں گے‘ مگر ایران اور ترکیہ کی طرف سے مصالحت کی پیشکش کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بڑی جنگ کے امکان کو روکنا ہے کیونکہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ سرحد پار سے کسی بھی دہشت گردی کا فوری اور بھرپور جواب دے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی ہدایت پر اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں آمد کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر آمادہ کرنا اور سیز فائر کو مستقل قرار دینے پر راضی کرنا ہے۔ امید ہے یہ اعلیٰ سطحی وفد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔ یہ بات عین قرین قیاس ہے کہ ترکیہ نے پاکستان میں وفد بھیجنے سے قبل افغان طالبان سے بھی رابطہ قائم کیا ہوگا اور ان کی طرف سے اپنے مؤقف میں لچک کا اشارہ دیا گیا ہوگا کیونکہ پاکستان سے کشیدگی اور جنگ کی صورتحال سے افغانستان میں بے چینی پھیلنے کا خدشہ ہے جو افغان طالبان کی حکومت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
افغان حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اور پھر دونوں اطراف کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا چاہیے۔ اگر افغان حکومت کو کسی بھی قسم کے مسئلے کا سامنا ہے تو پاکستان اس کی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے جو ہر طرح سے جائز ہے، اس حوالے سے ان تمام ممالک کو بھی مدد کرنی چاہیے جو افغان طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کر سکتے ہیں، بلاشبہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ افغانستان کی سرزمین ایک پراکسی جنگ کا میدان بن چکی ہے، جہاں علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے چال چلی رہی ہیں۔ پاکستان، جو اس سب سے براہ راست متاثر ہے، نے ہمیشہ سفارتی اور پر امن ذرائع کو ترجیح دی ہے، لیکن جب تک دوسرے فریق کی سنجیدگی نہ ہو، تو یہ کوششیں ناکام رہتی ہیں۔ ایسے نازک موڑ پر، ایران اور ترکیہ کی مصالحتی کوششیں ایک امید کی کرن کی مانند ابھر رہی ہیں۔ دونوں ممالک خود بھی افغانستان میں فعال دہشت گردی کے کیمپوں سے براہ راست متاثر ہیں۔ ایران کو سرحد پار بلو چستان اور دیگر علاقوں سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں کا سامنا ہے، جبکہ ترکیہ وسطی ایشیائی روابط کی وجہ سے ان حملوں کی لپیٹ میں آتا رہا ہے۔ ان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مسئلے کے حل کے لیے فعال کردار کا عزم ایک مثبت پیش رفت ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان مواقع کو سنجیدگی سے لے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ایک جامع امن فریم ورک تیار کرے۔ اس میں سرحدوں کی نگرانی، انٹیلی جنس اشتراک اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی شامل ہونی چاہیے۔ طالبان کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ انکار کی پالیسی طویل مدتی نقصان کا باعث بنے گی۔ بھارتی مداخلت جیسے بیرونی عوامل کو روکنے کے لیے علاقائی فورمز جیسے ای سی او اور شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار بھی اہم ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ امن کی راہ سفارتکاری اور با ہمی اعتماد سے ہی گزرتی ہے۔ ایران اور ترکیہ کی شمولیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خطہ تنازعات سے تنگ آچکا ہے اور اب مشتر کہ حل کی تلاش میں ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو ضائع نہ کرنے دیں، کیونکہ ایک مستحکم افغانستان ہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔