حالیہ پاک افغان مذاکرات میں پاکستان نے مؤقف اختیار کیا پاکستان میں دہشتگردی افغانستان سے ہو رہی ہے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس حوالے سے شواہد بھی افغان طالبان حکومت کے حوالے کیے گئے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی اور کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں طالبان حکومت کی حمایت کے بغیر افغانستان سے کارروائی نہیں کر سکتیں اور مبینہ طور پر انہیں افغان حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں کن علاقوں میں ہیں؟

دفاعی تجزیہ کاروں اور افغان امور کے ماہرین کے مطابق افغانستان اس وقت دہشتگردوں کے لیے انتہائی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جہاں مختلف کالعدم تنظیمیں سرگرم ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی پھیلا رہی ہیں۔

سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر مشتاق یوسفزئی کے مطابق افغانستان میں بعض تنظیموں کو طالبان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کے مطابق پاکستان مخالف کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں نہ صرف موجود ہے بلکہ فعال بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فوجی آپریشنز کے دوران ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغانستان منتقل ہوئے تھے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کے وقت ملا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان فرار ہوا تھا، اور اس کے ساتھی آج بھی وہاں موجود ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان اس وقت دہشتگردوں کے لیے سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے، اور دہشتگرد افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، جو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

حکام کے مطابق ٹی ٹی پی کابل سمیت کئی افغان صوبوں میں سرگرم ہے، تاہم پاکستان سے ملحقہ صوبوں میں اس کی موجودگی زیادہ مضبوط ہے۔ کنڑ، ننگرہار، خوست، پکتیکا، قندہار، ہلمند اور دیگر علاقوں میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

حکام کے مطابق پکتیکا کے برمل ضلع اور قندہار کے اسپین بولدک اور شاہ ولی کوٹ جیسے علاقوں میں ٹی ٹی پی کے اہم مراکز قائم ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی تعداد 6 سے 10 ہزار کے درمیان ہے، اور 2021 میں افغان طالبان حکومت آنے کے بعد ان کے لیے مشکلات کم ہوئیں اور انہیں سہولتیں حاصل ہوئیں۔

ٹی ٹی پی کی نئی سرگرمیاں، شمالی افغانستان میں مضبوطی

مشتاق یوسفزئی کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان سے متصل افغان صوبوں میں سرگرم ہے۔

حالیہ مہینوں میں وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں سے بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی جنگجو کنڑ، نورستان اور بدخشاں منتقل ہوئے ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں پہلے سے موجود ٹی ٹی پی کے وہ عسکریت پسند بھی ہیں جو سوات آپریشن کے دوران ملا فضل اللہ کے ساتھ یہاں آئے تھے اور ان کی مضبوط پناہ گاہیں موجود ہیں۔

بارڈر کے قریب کون سے افغان علاقے محفوظ پناہ گاہیں ہیں؟

سینیئر صحافی منظور علی کے مطابق ٹی ٹی پی انہی افغان علاقوں میں مضبوط ہے جو پاکستان کے شورش زدہ اضلاع سے ملحق ہیں۔

ان کے مطابق وزیرستان، خیبر، باجوڑ، مہمند، چترال اور دیگر سرحدی علاقوں سے متصل افغان علاقوں میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں قائم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چترال سے ملحقہ علاقے کنڑ میں طالبان بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے اہم رہنماؤں کی پناہ گاہیں بھی وہیں ہیں۔ 2018 میں ٹی ٹی پی کے سابق امیر ملا فضل اللہ بھی کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ کنڑ سے چترال بارڈر پر متعدد حملے بھی کیے گئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی بھرتی افغانستان میں کیوں ہو رہی ہے؟

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی افغانستان سے منظم ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق، ‘جو لوگ افغان طالبان کے لیے جنگ لڑتے رہے، حکومت بننے کے بعد وہ بیروزگار ہوئے اور اب ٹی ٹی پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ چونکہ ٹی ٹی پی سے افغان طالبان کو کوئی خطرہ نہیں، اس لیے وہ ان کے خلاف اقدام نہیں کرتے۔’

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی متعدد دہشتگردی کارروائیوں میں افغان باشندوں کا ملوث ہونا تفتیش کے دوران ثابت ہو چکا ہے۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟

سینیئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کے مطابق افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ٹی ٹی پی ان کے ‘جہادی ساتھی’ ہیں۔

ان کے مطابق طالبان حکومت اپنے دیرینہ اتحادیوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرے گی، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں اندرونی بغاوت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

محمود خان بابر کے مطابق بھی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نظریاتی طور پر قریب ہیں، اسی لیے طالبان حکومت ان کے خلاف کسی بڑے اقدام سے گریز کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان ٹی ٹی پی دہشتگردی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان ٹی ٹی پی دہشتگردی پاکستان میں دہشتگردی کی محفوظ پناہ گاہیں کے مطابق افغانستان کے مطابق ٹی ٹی پی کے مطابق افغان افغانستان میں حکام کے مطابق افغان طالبان طالبان حکومت میں ٹی ٹی پی ان کے مطابق علاقوں میں ٹی ٹی پی کے ان کے خلاف اور افغان موجود ہیں ہو رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

افغان حکومت کا پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات پر افسوس کا اظہار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کابل: افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے اسلام آباد خودکش دھماکے اور وانا میں کیڈٹ کالج پر حملے کی سخت مذمت کی ہے۔

افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد اور وانا میں ہونے والے یہ دہشت گرد حملے انتہائی افسوسناک ہیں، ان واقعات میں بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرا دکھ ہے۔ طالبان حکومت نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا بھی کی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کے تمام واقعات کی مذمت کرتا ہے اور ایسے اقدامات کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ طالبان حکومت نے زور دیا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ایسے افسوسناک واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کے جی الیون کچہری کے باہر خودکش دھماکے میں 12 افراد شہید اور 30 زخمی ہوئے تھے، جبکہ دو روز قبل وانا میں کیڈٹ کالج پر فتنۂ خوارج کے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جسے سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا تھا۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق وانا حملے میں ملوث دہشت گردوں کے روابط افغانستان سے تھے۔ وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے اعلان کیا ہے کہ دونوں واقعات کی تحقیقات کے ٹھوس شواہد بین الاقوامی فورمز پر پیش کیے جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں انسانی مسئلہ نہیں جیسا طالبان پیش کر رہے ہیں: دفتر خارجہ
  • افغان طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کریں ،پاکستان کا افغانستان سے تجارت بند رکھنے کا اعلان
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیڈ لاک
  • پاک افغان کشیدگی، مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات؟
  • پاکستان میں دہشتگردی میں شدت، ٹی ٹی پی افغانستان سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے
  • تاجر 3 ماہ میں پاکستان کیساتھ کاروبار ختم کر دیں، افغان طالبان: دہشت گردی کم ہو گی: خواجہ آصف
  • افغانستان سے آمد ورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشتگردی بھی کم ہوگی، خواجہ آصف کا تجارت بند کرنے کے بیان پر ردعمل
  • دہشتگردی قبول نہیں، پہلے کی طرح آپ کو منہ توڑ جواب ملے گا، وزیراعظم کا افغانستان کو واضح پیغام
  • افغان حکومت کا پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات پر افسوس کا اظہار