اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ نمائندہ خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے افغان حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے تو پاکستان تعاون کیلئے تیار ہے۔ افغانستان کو سمجھنا ہو گا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت سے امن حاصل نہیں ہوگا۔ امن و سلامتی و ترقی کے موضوع پر پارلیمانی رہنمائوں کو ایک پلیٹ فورم پر لانا پاکستان کیلئے باعث فخر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ استحکام اور دفاع وطن میں عزم کا مظاہرہ کیا۔ ہماری فوج نے بہترین پیشہ ورانہ کارکردگی سے دشمن کے عزائم ناکام بنائے۔ منگل کے روز یہاں بین الپارلیمانی سپیکرز کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ امن واستحکام ہی پائیدار ترقی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دنیا کو دکھایا پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہر قیمت ادا کرے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت میں تعاون پر برادر ممالک کو سراہتے ہیں۔ پرامن اور مستحکم افغانستان ہی علاقائی رابطے، ترقی اور خوشحالی کی کنجی ہے۔ شدت پسند گروہ افغانستان اور اس کے باہر امن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ مظلوم اقوام کی حمایت کی ہے۔ پاکستان نے کئی بار امن دشمن کارروائیوں کا سامنا کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ترقی اس معاشرے میں ممکن ہے جہاں امن اور سلامتی ہو۔ امن و استحکام ہی پائیدار ترقی کے ضامن ہیں۔ مذاکرات میں برادر ممالک کی معاونت کو سراہتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس سال مئی میں مشرقی سرحد پر بلا اشتعال جارحیت کی گئی جبکہ گزشتہ ماہ افغان سرزمین سے پاکستانی چوکیوں پر حملے ہوئے جن کا پاکستان نے ٹھوس اور فیصلہ کن جواب دیا۔ دنیا بھر میں جاری تنازعات نے امن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام آباد میں جاری دو روزہ بین الپارلیمانی کانفرنس میں آذربائیجان، ازبکستان، کینیا، فلسطین، مراکش، روانڈا، لائبیریا، بارباڈوس اور نیپال کے وفود کانفرنس میں شریک ہیں۔ کانفرنس کا مقصد عالمی امن، ترقی اور بین الاقوامی پارلیمانی روابط کے فروغ کو مضبوط بنانا ہے۔ وزیر اعظم نے اسلام آباد ضلع کچہری کے باہر ہونے والے خودکش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں اسلام آباد ضلع کچہری میں بھارتی سپانسرڈ فتنہ الخوارج کے دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہید افراد کے درجات کی بلندی اور اہل خانہ کیلئے صبر کی دعا کی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا مجھ سمیت پوری قوم کی تمام تر ہمدردیاں شہداء کے اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔ زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا گو ہوں اور حکام کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بھارتی دہشتگرد پراکسیز کے پاکستان کے نہتے شہریوں پر دہشتگرد حملے قابل مذمت ہیں۔ واقعہ کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا کردم لیں گے۔ ان کا کہنا تھا افغانستان سے کارروائی کرتے فتنہ الخوارج نے وانا میں معصوم بچوں پر بھی حملہ کیا۔ بھارتی پشت پناہی اور افغان سرزمین سے جاری حملوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ نہتے و معصوم پاکستانیوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ علاوہ ازیں صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ایوان صدر میں ملاقات کی۔ ملاقات میںملک کی مجموعی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدرِ مملکت اور وزیراعظم نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی۔ دونوں قائدین نے اس عزم کا اعادہ کہ غیر ملکی پشت پناہی یافتہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جاری رہیں گی۔ ملاقات میں چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وفاقی وزراء سید محسن رضا نقوی، چوہدری سالک حسین، اعظم نذیر تارڑ، خالد حسین مگسی اور عبدالعلیم خان بھی موجود تھے۔علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی سے مراکش کی مجلس مشیران کے صدر اولد اراشید نے سپیکرز کانفرنس کے دوران ملاقات کی۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ پاکستان مراکش کے ساتھ پارلیمانی تعلقات اور تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ انہوں نے ترقی پذیر ملکوں کے مابین جنوب، جنوب تعاون کی اہمیت پر روشنی ڈالی، کہا کہ آئی ایس سی ایک جامع اور دور اندیش پلیٹ فارم ہے جو علاقائی اور عالمی سطح پر پارلیمانی تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ امن، انصاف اور ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یقین ہے آئی ایس سی جیسے پلیٹ فارمز پاکستان اور مراکش کے درمیان پارلیمانی تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ مالی سال 2024 میں پاکستان کی مراکش کو برآمدات تقریباً 0.

028 ارب جبکہ درآمدات 0.604 ارب ڈالر رہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے انٹرنیشنل پارلیمنٹیری سپیکرز کانفرنس کے شرکاء کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں بلاول کی آمد پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان نے نے کہا کہ

پڑھیں:

خوارج کا صفایا ضروری

جنوبی وزیرستان کے کیڈٹ کالج وانا پر بھارتی سرپرستی میں سرگرم فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے بزدلانہ حملہ کیا، ادھر منگل کو اسلام آباد جی الیون کچہری پر بھی دہشت گردوں نے خود کش حملہ کیا ہے۔

دہشت گردوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی رحم و رعایت کے مستحق نہیںہیں ۔ان کی سہولت کاری کرنے والے، انھیں پناہ دینے والے اور انھیں معلومات فراہم کرنے والے اور انھیں معاشی لائف لائن فراہم کرنے والے عناصر بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔ قبل ازیں خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز نے دو مختلف کارروائیوں کے ذریعے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 20 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے ۔ مزید کارروائیاں جاری ہیں۔

پاکستان نے متعدد مواقعے پر افغانستان کی عبوری حکومت کی توجہ اس جانب دلائی ہے کہ دہشت گرد گروہ افغان سر زمین پر پناہ لے کر پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔ حالیہ استنبول کانفرنس میں بھی افغانستان کے وفد دہرا معیار اپنائے رہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت اور بھارت کی ہندو انتہاپسند حکمران جماعت بی جے پی کے درمیان اتحاد بن چکا ہے۔ پاکستان متعدد بار افغانستان کی عبوری حکومت کی توجہ اس امرکی جانب دلوا چکا ہے کہ افغانستان میں فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پناہ لینے ہوئے ہیں اور وہ وہاں آزادانہ نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گرد افغانستان کے علاقوں سے آتے ہیں اور سرحد پار کر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔

انھیں افغان عبوری کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے، اسی طرح پاکستانی فورسز دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کے متعدد دہشت واصل جہنم ہوئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت صوبائی سرکاری مشینری کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے مقامی سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی یقینی بنائے۔ سیاستدانوں اور دیگر لوگوں کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کو متنازعہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ان کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔

افغانستان میں حکومتِ وقت کے غیر مؤثر کنٹرول کے بارے میں شکوک درست ثابت ہوچکے، بین الاقوامی وقار، علاقائی استحکام اور پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لیے یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ، موثر سفارتی محاذ، بارڈر مینجمنٹ، انٹیلی جنس شیئرنگ اور علاقائی تعاون ناگزیر ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض اور خدشات پر افغان عبوری انتظامیہ کی طرف سے ٹھوس اور شفاف ردِ عمل ضروری ہے، بصورتِ دیگر یہ صورتحال وقت کے ساتھ بگڑتی جائے گی۔

 سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس آج ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ سیاسی اختلافات اور الزام تراشیوں سے بالاتر ہو کر ملکی سلامتی کو اولین ترجیح دے۔ تمام صوبائی حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف آپریشنز میں تعاون کریں بلکہ دہشت گردانہ رویے کے انسداد کے لیے سماجی، اقتصادی اور تعلیمی اصلاحات بھی نافذ کریں جو طویل المدت بنیادوں پر نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر ریلیف، بحالی اور متاثرین کے لیے قانونی و سماجی معاونت فراہم کرنی چاہیے تاکہ انتہا پسند نظریات کی زمین کمزور ہو جائے۔دہشت گردی کی تہہ میں بہت سی وجوہات ہیں۔

غربت، ناانصافی، سیاسی بے چینی، نظریاتی شدت، بیرونی سازشیں اور فرقہ وارانہ یا علاقائی تنازعات۔ بیرونی معاونت، سرپرستی یا مالی مدد ایک خطِ ثقل کا کردار ادا کرتی ہے مگر اندرونی کمزوریاں بھی اتنی ہی اہم ہیں۔

جب معاشرتی انصاف، روزگار کے مواقع، تعلیم اور سماجی شمولیت کمزور ہوں تو بیرونی عناصر مقامی کمزور لوگوں کو متاثر کر کے انھیں انتہا پسندی کی طرف راغب کر لیتے ہیں، لہٰذا انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے صرف انتظامی جواب کافی نہیں بلکہ جامع سماجی پالیسی، معاشی بہبود، نوجوانوں کے لیے مثبت مواقع اور سیاسی شمولیت بھی لازمی ہے۔ وزارتیں، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما اور تعلیمی ادارے مل کر ایسی پروگرامز متعارف کرائیں جن سے انتہا پسندی کے بیج نہیں بوئے جا سکیں۔

اب یہ بات ضروری ہوچکی ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک، مالی لین دین، اسلحے کی فراہمی، اطلاعات کے ذرایع اور مواصلاتی چینلز کو بھی ختم کیا جائے۔ سہولت کار، فنڈز، عقائدی حمایت فراہم کرنے والے افراد اور بیرونی ایجنٹ اکثر مقامی سطح پر موجود رہے کر دہشت گردی کو جاری رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا بھی قانونی طریقے سے تعاقب اور سزا ناگزیر ہے تاکہ آیندہ کوئی دوسرا گروہ یا فرد ایسے کام میں ملوث ہونے سے پہلے سوچے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کی مضبوطی، شواہد کی بنیاد پر کارروائیاں، تیز انصاف اور سزا یہ سب مل کر دہشت گردی کے سہولت کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں گے۔ عوامی سطح پر بھی ایسے نیٹ ورکس کی شناخت کے لیے بیداری مہمات چلانی چاہئیں تاکہ لوگ مدد فراہم کرنے والے عناصر کی پہچان کر سکیں اور حکام تک اطلاع پہنچائیں۔

تعلیمی ادارے کسی بھی سماج کی کمزوری یا طاقت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ کیڈٹ کالج وانا پر حملہ اسی حقیقت کا ظہوری ثبوت ہے کہ تعلیمی مراکز پہلے نشانے بنائے جا رہے ہیں۔

ہمیں تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا، یہ نہ صرف فورسز کی ذمے داری ہے بلکہ تعلیمی اداروں، والدین، صوبائی و وفاقی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کا مشترکہ فرض ہے۔ سماجی لیڈروں کی بھی ذمے داری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک موقف اختیار کریں۔ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز اور سہولت کار گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور بھیڑیئے کی طرح مکاری کا لبادہ اوڑھ کر امن پسندی کا راگ الاپتے ہیں۔ انھیں بے نقاب کرنا انتہائی اہم ہے۔ایسی حساس صورتحال میں سوشل میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ خبر کی رپورٹنگ میں غیر جانبداری، تصدیق شدہ معلومات کی اشاعت اور افواہوں سے پاک رپورٹنگ ضروری ہے۔

مظاہروں، سیاسی بیانات یا دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے حوالے سے جذباتی زبان استعمال کرنے سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ قوم کو باخبر رکھے مگر ایسا کرے کہ دشمن کے پروپیگنڈے کا راستہ مسدود رہے۔دراصل دہشت گردوں کی سرپرستی یا سہولت کاری کا مسئلہ خطی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے حل کے لیے سخت محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ سفارتی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس معاملے کو اٹھائے، بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کے ذریعے دباؤ بنائے اور باہمی تعاون کو فروغ دے۔

دوسری قوموں کے ساتھ معلومات کی شیئرنگ، سرحدی نگرانی کے جدید نظام اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے۔ یہ عالمی تعاون نہ صرف فورسز کی کارروائیوں کو موثر بنائے گا بلکہ دہشت گردوں کے پاس محفوظ ٹھکانے کم ہوتے جائیں گے۔ اسی طرح سیاسی قیادت کو اپنے بیانات میں ذمے داری برتنی چاہیے تاکہ قوم میں ڈرانے، نفرت پھیلانے یا فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے والی زبان کی گنجائش نہ رہے۔ایک مضبوط ریاست کے لیے عوام کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہمیں نفرت اور تعصب سے گریزکرتے ہوئے منظم تعاون فراہم کرنا ہو گا۔ ممنوعہ نظریات کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شریک افراد کے خلاف بلاخوف و ہراس اطلاعات دیں۔

متاثرین کے ساتھ ہمدردی کریں اور اپنے محلے، اسکول اورکام کی جگہوں پر نفرت انگیز تقاریرکا سدِباب کریں۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات مل کر ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔سیکیورٹی فورسزکی حالیہ کامیاب کارروائیاں قابلِ قدر ہیں اور قوم کے لیے امید کی کرن ہیں، مگر حقیقی کامیابی کا پیمانہ صرف دشمنوں کے مارے جانے سے ماپا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سے ماپا جائے گا کہ کیا ہم نے اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے مکمل طور پر پاک کیا، کیا ہم نے سہولت کاروں اور سرپرستوں کا قلع قمع کیا اور کیا ہم نے اپنے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے معاشرتی و اقتصادی بنیادیں مضبوط کیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں، فورسز، سول سوسائٹی، مذہبی قائدین اور عوام یہ تمام اکائیاں مل کر ہی طویل المدت امن کو ممکن بنا سکتی ہیں۔

آج جب ہمارے بہادر افسران اور جوان قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انھیں ہر سطح پر مکمل تعاون فراہم کریں، سیاسی اختلافات کو پیچھے رکھیں اور دہشت گردی کے ہر روپ کا مقابلہ اجتماعی محاذ کے ساتھ کریں، اگر ہم متحد، ہوشیار اور اصولی رہیں تو نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورا پاکستان ایک بار پھر امن، ترقی اور خوشحالی کا مرکز بن سکتا ہے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے وطن کو دہشت گردی، سازش اور بیرونی مداخلت سے پاک کریں گے اور یہ سفر جہد مسلسل، عزم و استقلال اور قومی یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان میں کارروائی کرسکتا ہے: وزیر دفاع
  • خوارج کا صفایا ضروری
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اسلام آباد جی-11 کچہری میں دہشت گردانہ حملے کی بھرپور الفاظ میں مذمت
  • پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہر قیمت اداکرےگا: وزیراعظم
  • افغان حکومت ٹی ٹی پی کیخلاف مؤثر کارروائی کرے تو پاکستان تعاون کیلئے تیار ہے: وزیراعظم
  • افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، تعاون کیلئے تیار ہیں: وزیراعظم
  • افغانستان کو سمجھنا ہو گا ٹی ٹی پی کی حمایت سے امن حاصل نہیں ہو گا: وزیراعظم شہباز شریف
  • افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے
  • دہشتگردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز ، وزیراعظم کا سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین