موضوع:ا خلاقی اقدار کی معاشرے میں ضرورت اور اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں
پروگرام دین و دنیا
اخلاقی اقدار کی معاشرے میں ضرورت اور اہمیت
مہمان: حجہ الاسلام والمسلمین سید احمد نقوی
میزبان: محمد سبطین علوی
پیش کش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
موضوعات گفتگو:
1.
2. اخلاق کے فردی، خاندانی اور اجتماعی اثرات
3. اخلاقی انحطاط کے معاشرتی نتائج
4. اخلاقی تربیت میں خاندان، تعلیمی اداروں اور میڈیا کا کردار
خلاصہ گفتگو:
اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جس کا مقصد انسان کو اخلاقی کمال تک پہنچانا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی اعلیٰ اخلاق کی تکمیل تھا۔ قرآن مجید میں تزکیہ نفس کو انسان کی حقیقی کامیابی کا معیار قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سورہ شمس میں بیان ہوا ہے کہ کامیاب وہی ہے جو اپنے نفس کو پاک کرے۔ اسلامی عبادات جیسے نماز اور زکوٰۃ کا فلسفہ بھی انسان کو برے اخلاق سے دور کر کے نیکی اور پاکیزگی کی طرف لانا ہے۔ احادیث میں اخلاق کو جنت و جہنم کی امید یا خوف سے بالاتر بتایا گیا ہے۔ اچھے اخلاق کے نتیجے میں عمر میں برکت، رزق میں وسعت اور معاشرتی امن پیدا ہوتا ہے۔ اخلاقی تربیت میں گھر، تعلیم اور میڈیا بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ تزکیہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جو ایمان، صبر اور عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے، اور اپنی تکمیل امام زمانہؑ کے ظہور کے دور میں پائے گی۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
برطانوی کمپنی ’ڈیپ‘ دنیا کی پہلی زیرِ آب انسانی بیس تیار کرنے کا منصوبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: سمندر کے پوشیدہ رازوں کی تلاش صدیوں سے انسان کو اپنی جانب کھینچتی رہی ہے اور اس شعبے سے وابستہ سائنسدان ہمیشہ نت نئی کھوج کی راہ میں رہتے ہیں۔
اسی سلسلے میں برطانیہ کی معروف کمپنی ’ڈیپ‘ ایک دلچسپ سائنسی جستجو کو ایک بالکل نئی سمت دینے جا رہی ہے۔ کمپنی نے دنیا کی پہلی ایسی زیرِ آب انسانی بیس قائم کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے جہاں انسان طویل عرصے تک رہ کر تحقیق کر سکیں گے۔
یہ بیس ’’وینگارڈ‘‘ کے نام سے متعارف کروائی گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف سمندری تحقیق میں انقلاب برپا کرے گا بلکہ انسان کو زیرِ آب دنیا کو سمجھنے کے نئے امکانات بھی فراہم کرے گا۔
کمپنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وینگارڈ ایک ایسا خودمختار اسٹیشن ہوگا جو سمندر کی تہہ میں نصب کیا جائے گا اور اس کی ساخت اس طرح ترتیب دی گئی ہے کہ اس میں 4 افراد پر مشتمل عملہ ایک ہفتے یا اس سے زیادہ عرصہ آرام سے رہ سکے۔
جدید انجینئرنگ سے تیار کردہ یہ ڈھانچہ ایسے تمام آلات سے لیس ہوگا جو گہرے پانی میں تحقیق، رہائش اور مشاہدے کے لیے ضروری ہیں۔ وینگارڈ کے اندر خصوصی کیبن، لیبارٹریز، مواصلاتی نظام اور وہ تمام سہولیات مہیا کی جائیں گی جو کسی زمینی تحقیقی مرکز میں ہوتی ہیں، یوں محققین بغیر سطح پر واپس آئے طویل عرصے تک سمندر کے ماحول کا مشاہدہ کر سکیں گے۔
ڈیپ کمپنی نے اس منصوبے کو صرف سائنسی تحقیق تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے استعمال کو مستقبل کے خلائی مشنز تک بھی وسیع کر دیا ہے۔
کمپنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زیرِ آب مستقل رہائش کا ماحول خلا میں درپیش مشکلات سے ملتا جلتا ہے، اس لیے یہ بیس مستقبل کے خلانوردوں کی تربیت کے لیے بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ خاص طور پر وہ مشنز جن میں طویل قیام ضروری ہو، ان کے لیے زیرِ آب ماحول میں رہنا ایک عملی مشق ثابت ہو سکتا ہے۔
اس بیس کا سب سے اہم پہلو سمندر کے اُس حصے کی مسلسل نگرانی ہے جہاں ہزاروں اقسام کے جاندار اور حیاتیاتی نظام موجود ہیں لیکن انسان اب تک ان تک مکمل رسائی حاصل نہیں کر سکے۔
انہوں نے بتایا کہ کورل ریفس کا مطالعہ اس منصوبے کی ترجیحات میں شامل ہے، کیونکہ یہ ریفس نہ صرف سمندری ماحول کا اہم حصہ ہیں بلکہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے عناصر میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
وینگارڈ پروجیکٹ کے ذریعے تحقیق کار روزانہ کی بنیاد پر ان ریفس کے رنگ، ساخت، افزائش اور بیماریوں کا مشاہدہ کر سکیں گے، جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھا کیونکہ اوپر سطح تک بار بار آنا تحقیق کے تسلسل کو متاثر کرتا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے منصوبے ہمیں سمندر کے اُن حصوں تک لے جائیں گے جنہیں آج بھی ’’نامعلوم دنیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے جیسے انسان زیرِ آب دنیا کی حقیقتوں کو قریب سے سمجھے گا، نہ صرف سمندری حیات کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئیں گے بلکہ ماحولیات، زمین کے ارتقا اور موسمیاتی نظام پر بھی گہرا علم حاصل ہوگا۔