دہشت گردی اور افغانستان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
ترجمان دفترخارجہ طاہر اندرابی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کی معاونت ختم نہ ہونے تک افغانستان کے ساتھ تجارت بند رہے گی۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی بندش اور تجارت معطلی کی پالیسی برقرار ہے کیونکہ افغان طالبان دہشت گرد گروہوں کو سپورٹ کررہے ہیں اور افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے۔
طالبان کو ان افغان شہریوں کو روکنا ہوگا جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ تجارت بند کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے‘ انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان نے پاکستان کے تاجروں اور تجارت پر حملے کیے، پاکستان اپنے شہریوں کی زندگی کی قیمت پر افغانستان کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتا۔
انھوں نے کہا کہ کئی ممالک نے پاک افغان ثالثی کی بات کی ہے، افغانستان میں ہمارا سفارت خانہ اور افغانستان کا یہاں سفارت خانہ کھلا ہے، دونوں سفارت خانوں سے مواصلاتی چینل کھلے ہوئے ہیں۔طاہر اندرابی نے کہاکہ پاک بھارت جنگ پر امریکی کانگریس کی تحقیقی رپورٹ اوپن سورس معلومات پر مبنی ہے۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی ہونے کے بارے میں اقوام عالم بھی تصدیق کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ میں ڈنمارک کے سفیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے اور افغانستان کی حکومت اس تنظیم کی مکمل طور پر سہولت کاری کر رہی ہے۔
اس حوالے سے کئی بار پاکستان بھی ثبوت افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت کو مہیا کر چکا ہے،لیکن اس کے باوجود طالبان کی عبوری حکومت نے اس مسئلے کے حل کی جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ طالبان کے موجودہ سیٹ اپ میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں ۔
افغانستان باقاعدہ طور پر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی پشتو بیلٹ میں پاکستان مخالف پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ماضی میں بھی افغان حکمران پشتونستان اسٹنٹ پھیلانے میں ملوث تھے اور موجودہ طالبان رجیم بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
افغانستان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں مسلسل بے چینی اور بے امنی موجود رہی ہے۔ کئی لوگ منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پشتو بیلٹ مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں چلی آ رہے ہیں۔
اگلے روز بھی خیبرپختونخوا کے ضلع بنو ںکے علاقے ہوید درئی دڑیز میں امن کمیٹی کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے میں 7افرادشہید اور ایک زخمی ہوگیا ، امن کمیٹی کے سربراہ قاری جلیل موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔
دریں اثناء سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا میں دو مختلف کارروائیوں کے دوران بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج کے 13 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، آئی ایس پی آر کے مطابق فورسز نے ضلع لکی مروت کے علاقے پہاڑ خیل میں خوارج کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہمراہ مشترکہ کارروائی کی۔
اس دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور 10 خوارج مارے گئے ،فورسز نے علاقے کو کلیئر کرتے ہوئے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا ، دوسری کارروائی ڈیرہ اسماعیل خان میں کی گئی جہاں سیکیورٹی فورسز نے 3 دہشت گرد کو ہلاک کردیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک دہشت گرد بھارت کی سرپرستی میں فورسز ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معصوم شہریوں پر حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے،آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ عزم استحکام کے تحت ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور رفتار سے کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب اے پی پی کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے بنوں میں امن کمیٹی کے دفتر پر فتنہ الخوارج کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو حملے کے ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ایسی بزدلانہ کارروائیاں فتنہ الخوارج کے پاکستان میں بد امنی کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرتی ہیں اور یہ کسی قیمت پر پاکستانیوں کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھی بنوں کے علاقے میں امن کمیٹی کے دفتر پر فتنہ الخوارج کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وجوہات کے بارے میں تو بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور رباب اختیار اس حوالے سے بہت کچھ جانتے بھی ہیں۔ پاکستان میں برسوں سے جس قسم کی سوچ اور مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھایا گیا ہے ،اس کے نتیجے میں انتہا پسندی اور تنگ نظری میں اضافہ ہوا ہے۔
جس بھی معاشرے میں انتہا پسندی اور تنگ نظری ایک طرز عمل اور نظریے کی شکل میں پروان چڑھے گی تو اس کے نتیجے میں سوائے لڑائی جھگڑے اور انارکی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
سرد جنگ کی ضروریات کے تحت افغانستان اور پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل طبقے کو طاقتور بنانے کا جو عمل شروع کیا گیا تھا ،اس کے نتیجے میں جو جاری نظام تھے، اس میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔
کالے دھن کی فراوانی ہونے لگی ، پاک افغان سرحد کو کھلا چھوڑ دیا گیا ،اس وجہ سے غیر قانونی تجارت جن میں منشیات اسمگلنگ ‘اسلحے کی تجارت اور آٹو موبائل گڈز کی اسمگلنگ نے عروج حاصل کیا ہے۔ اس طریقے سے ایک ایسا طبقہ دولت مند بن گیاجس کی پرورش ہی غیرقانونی انداز میں ہوئی تھی۔
اب یہ طبقہ قانون کی عملداری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔یہ لوگ آئین اور قانون سے ماورا ہو کر کام کرنا چاہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لیے مسلح لشکروں کی پشت پناہی کرتے ہیں ،انھیں فنانشل مدد فراہم کرتے ہیں اور انھیں قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ہتھیار بند لشکروں کو محفوظ پناہ گاہ میسر آ گئی۔ ٹی ٹی پی ،داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں بغیر کسی خوف و خطر آپریٹ کر رہی ہیں ۔ افغانستان تقریباً ڈھائی لاکھ مربع میل رقبے کا ملک ہے۔ہتھیار بند گروہوں کے پاس اتنا بڑا رقبہ اپنی نقل و حرکت کے لیے مل جائے تو انھیں اور کیا چاہیے۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشن کر رہی ہے۔ البتہ پاکستان میں بعض ایسے لوگ اور طبقے موجود ہیں جو پس منظر میں رہ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ،اس کے باوجود پاکستان کے ادارے بڑی جانفشانی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں صورت حال خاصی خراب ہے۔یہاں مسلح گروہ ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں،اس لڑائی کے دوران بے گناہ شہریوں کو قتل کیا جاتا ہے ‘خیبرپختونخوا میں امن کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔خیبرپختونخوا کے عوام امن کے لیے کئی بار مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے راستے میں رکاوٹیں کونسی ہیں اور کہاں ہیں ‘اس حوالے سے بھی ارباب اختیار کو بہت سے حقائق کا علم ہے۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کا حق ہے کہ انھیں جان و مال کا تحفظ مہیا کیا جائے۔
انھیں کاروبار کرنے کی آزادی حاصل ہو لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں۔پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔پاکستان موجودہ حالات میں اپنی سرحدوں پر بے لگام قسم کی آمدورفت جاری نہیں رکھ سکتا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جب تک افغانستان دہشت گردوں کی سہولت کاری اور سرپرستی نہیں چھوڑتا اس وقت تک تجارت بحال نہیں ہو سکتی۔ افغانستان کی حکومت متبادل تجارتی راستے تلاش کر رہی ہے،وہ ایسا تاثر دے رہی ہے جیسے اسے پاکستان سے تجارتی راہداری کی ضرورت نہیں ہے۔
حالانکہ یہ سارا غلط پراپیگنڈا ہے۔افغانستان کے لیے پاکستان کے سوا باقی تمام تجارتی روٹ اول تو ناقابل استعمال ہیں اور اگر انھیں استعمال کیا بھی جاتا ہے تو اس کے خراجات بہت زیادہ ہیں۔
افغانستان کی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ متبادل تجارتی راستے تلاش کرے۔لیکن حقائق یہی ہیں کہ وہ جب تک دہشت گردی کی سرپرستی نہیں چھوڑتا تو اس وقت تک اسے کسی بھی ملک سے تجارتی راستہ ملنا بہت مشکل ہے۔ دنیا کا کوئی ملک بغیر کسی قاعدے ،جانچ پڑتال اور سیکیورٹی کو تجارتی روٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا اور بلوچستان افغانستان کے ساتھ فتنہ الخوارج کے سیکیورٹی فورسز اور افغانستان دہشت گردوں کے افغانستان کی دہشت گردی کی امن کمیٹی کے پاکستان میں پاکستان کے کر رہے ہیں فورسز نے میں ملوث ہیں اور کے خلاف کے لیے رہی ہے کر رہی
پڑھیں:
امریکا؛ دہشت گردی کے الزام میں افغان شہری کو 15 سال قید
امریکا میں انتخابات کے روز دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں افغان نژاد عبداللہ حاجی زادہ کو 15 سال قید کی سزا سنادی گئی۔
امریکی میڈیا کے مطابق وفاقی عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا مکمل کرنے کے بعد افغان شہری کو ملک بدر کردیا جائے گا باوجود اس کے کہ وہ امریکا کا مستقل رہائشی بھی تھا۔
امریکی وفاقی عدالت نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ عبداللہ حاجی زادہ کو کسی بھی متعلقہ جرم کے لیے مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ مدت کی سزا سنائی ہے۔
استغاثہ کے مطابق عبداللہ حاجی زادہ اور اس کے ساتھی ناصر احمد توحیدی نے اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے لیے دو اے کے-47 طرز کی رائفلیں اور 500 گولیاں خریدی تھیں۔
یہ اسلحہ امریکا میں ہونے والے نومبر 2024 کے انتخابات کے روز داعش کے ایک بڑے حملے میں استعمال ہونا تھا۔
تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دونوں کو اس سے ایک ماہ قبل ہی یعنی اکتوبر 2024 میں گرفتار کرلیا جب وہ حملے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
امریکی محکمہ انصاف کے اعلیٰ عہدیداروں نے بتایا کہ امریکا نے افغان نژاد حاجی زادہ کو تحفظ اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے مگر اس نے اپنے لیے دہشت گردی کا راستہ چنا۔
قومی سلامتی ڈویژن کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جان آئزنبرگ نے مزید بتایا کہ حملے کی منصوبہ بندی امریکا سے بدترین غداری تھی اور یہ سزا اس جرم کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
ایف بی آئی کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈونلڈ ہولسٹڈ نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کی کامیاب کارروائی نے ایک بڑا حملہ روک کر ہزاروں جانیں بچائیں۔
گرفتاری کے وقت افغان نژاد عبداللہ حاجی زادہ کی عمر صرف 17 سال تھی لیکن اس نے 2025 میں اپنے جرم کا اعتراف کیا جب وہ بالغ ہوچکا تھا۔
اُس نے مجرم کے طور پر عدالت میں اعترافِ جرم کیا اور ایک معاہدے کے تحت سزا کے بعد ملک سے بے دخلی قبول کی۔
جس کے ساتھ ہی اس کی مستقل رہائش کا درجہ بھی ختم ہو جائے گا اور وہ سزا یا ملک بدری کے خلاف اپیل کرنے کا حق بھی چھوڑ چکا ہے۔
عبد اللہ حاجی زادہ کے ساتھی ناصر احمد توحیدی نے جون 2025 میں دو سنگین دہشت گردی کے الزامات داعش کو معاونت فراہم کرنے کی کوشش اور دہشت گردی کے جرم میں استعمال ہونے والے اسلحہ کی خریداری کا اعتراف کیا۔
ان دونوں الزمات پر 27 سالہ ناصر احمد توحیدی کو 35 سال تک مجموعی قید کی سزا ہوسکتی ہے اور اسے بھی سزا مکمل ہونے کے بعد ملک بدر کردیا جائے گا تاہم اس کی سزا کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔