مودی حکومت کی انتقامی کارروائی، یاسین ملک کو 35 سال پرانے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
بھارت میں مودی حکومت کی جانب سے مسلمانوں اور کشمیری قیادت کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ تازہ واردات میں حریت پسند رہنما اور سابق جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے سربراہ یاسین ملک کو ایئر فورس اہلکاروں کے قتل کیس میں مرکزی فائرر کے طور پر عدالت میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:13 سالہ رضیہ سلطان کی اپنے والد یاسین ملک کو بھارتی مظالم سے بچانے کے لیے عالمی برادری سے اپیل
یہ کیس 1990 کے سانحے سے متعلق ہے، جس میں 4 ایئر فورس اہلکار ہلاک اور 22 زخمی ہوئے تھے۔
جموں کی TADA عدالت میں 2 اہم گواہوں نے یاسین ملک کو مرکزی فائرر کے طور پر شناخت کیا، جبکہ دیگر ملزمان شوکت بکشی، ننّا جی اور جاوید احمد بھی سانحے میں ملوث قرار دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:یومِ قراردادِ الحاق پاکستان: یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کا کشمیریوں کے نام جذباتی پیغام
ایک گواہ نے بتایا کہ ننّا جی نے ان کی طرف AK رائفل سے فائر کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بچ گئے۔ گواہوں میں سے ایک نے عدالت میں یاسین ملک کو پہچانتے ہوئے کہا کہ آپ کو مرکزی فائرر کے طور پر پہچاننے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کر رہا۔
یاسین ملک، جو اس وقت دہلی کی تیہاڑ جیل میں دہشتگردی فنڈنگ کیس میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں، ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے گواہوں کے کراس ایکزامینیشن کی اجازت دی۔ CBI کے اسپیشل پراسیکیوٹر ایس کے بھٹ سماعت کے دوران موجود تھے۔ اگلی سماعت 29 نومبر کو طے ہے۔
iasin
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی محض قانونی معاملے کے بجائے بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری حریت پسند قیادت کو نشانہ بنانے کی ایک انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔
کیس کی تیز رفتار سماعت اور 35 سال پرانے سانحے کو دوبارہ سامنے لانا مقامی مسلمانوں اور کشمیری قیادت کے لیے سیاسی دباؤ کا حصہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تیہاڑ جیل حریت رہنما کشمیری رہنما یاسین ملک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: حریت رہنما یاسین ملک یاسین ملک کو عدالت میں
پڑھیں:
وفاقی آئینی عدالت میں کیسز کی سماعت کے لیے 4بینچ تشکیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (صباح نیوز) وفاقی آئینی عدالت پاکستان میں سوموار 24نومبر سے شروع ہونے والے عدالتی ہفتے میں کیسز کی سماعت کے لیے 4بینچز تشکیل دے دیے گئے۔ تشکیل دیے گئے بینچز میں ایک 6رکنی لارجر بینچ، ایک 3رکنی اور 2 رکنی 2 بینچ شامل ہیں۔ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس محمد کریم خان آغا، جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس ارشد حسین شاہ پرمشتمل 6رکنی لارجر بینچ دیگر ہائیکورٹس سے ججوں کے تبادلے اور سنیارٹی کے معاملہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے5ججز کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سوموار 24نومبر دن ساڑھے11بجے سماعت کرے گا۔ عدالت عظمیٰ پاکستان کے آئینی بینچ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5 رکنی لارجر نے 3/2کی اکثریت سے وفاقی حکومت کی جانب سے 3 ہائیکورٹس سے ججوںکے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی کے معاملے پرسابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستیں خارج کردی تھیں۔ فیصلے کے خلاف سلام آباد ہائی کورٹ کے درخواست گزار ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار،جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھی۔ انٹراکورٹ اپیلوں پر عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سماعت نہیں ہوسکی تھی۔ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم وفاقی آئینی عدالت پاکستان نے آئینی معاملہ ہونے پر درخواستیں سماعت کیلیے مقررکی ہیں جبکہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس علی باقرنجفی اور جسٹس ارشد حسین شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ سوموار 24 نومبر سے جمعہ 28نومبر تک کیسز کی سماعت کرے گا۔ وفاقی آئینی عدالت کے سینئر ترین جج جسٹس سید حسن اظہررضوی کی سربراہی میں جسٹس محمد کریم خان آغا پر مشتمل 2رکنی بینچ سوموار سے جمعہ تک کیسز کی سماعت کرے گا جبکہ جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل 2رکنی سوموار سے جمعہ تک کیسز کی سماعت کرے گا۔ تمام بینچز اہم آئینی معاملات کی سماعت کریں گے جس میں سندھ میںنئی گاج ڈیم کی تعمیر اوردیگر معاملات شامل ہیں۔