data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:  ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ طالبان پاکستان مخالف دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔

ہفتہ وار پریس بریفنگ میں دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے پاکستان کی جانب سے درپیش سنگین سیکورٹی خدشات، علاقائی سفارتی سرگرمیوں اور عالمی مسائل پر جامع پالیسی مؤقف پیش کیا۔

انہوں نے سب سے اہم نکتے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ کسی وقفے کے بغیر جاری ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ متعدد حملوں میں ملوث گروہوں کے روابط افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں اور طالبان انتظامیہ ان عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے سرحدی بندش اور تجارت سے متعلق اپنی پالیسی اسی وجہ سے برقرار رکھی ہے کیونکہ کابل انتظامیہ ان گروہوں کی سرپرستی روکنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔

ترجمان نے بتایا کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت یورپی یونین کے دورے پر ہیں، جہاں انہوں نے چوتھے یورپی یونین انڈو پیسفک فورم میں شرکت کی اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام سمیت متعدد وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کیں۔

اسحاق ڈار نے ہنگری کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں پاکستانی طلبہ کے لیے نئے تعلیمی وظائف سے متعلق مفاہمتی دستاویز پر دستخط کیے گئے جب کہ ڈنمارک، سلووینیا اور نیدرلینڈز کے وزرائے خارجہ کے ساتھ بھی باہمی تعاون بڑھانے پر گفتگو کی گئی۔

اس سے قبل اسحاق ڈار نے ماسکو میں ایس سی او سربراہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی، جہاں روسی قیادت سے ملاقاتوں میں علاقائی تجارت، اقتصادی تعاون اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس کے بعد ایس سی او کی جانب سے مشترکہ اقتصادی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اسرائیلی افواج کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں مسلسل جارحیت اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی رکھتا ہے۔

انہوں نے بھارت میں لال قلعہ بم دھماکوں کے بعد بڑی تعداد میں ہونے والی گرفتاریوں پر بھی تشویش ظاہر کی  اور بتایا کہ گرفتار شدگان میں اکثریت مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی ہے۔ ترجمان کے مطابق بھارت اب بھی مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جسے پاکستان بین الاقوامی فورمز پر مسلسل بے نقاب کرتا رہے گا۔

بنگلا دیش سے متعلق ایک سوال پر ترجمان نے حسینہ واجد کے خلاف سزائے موت کے فیصلے کو بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر ملک کا اپنا آئینی طریقہ کار اور قانونی ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔

انہوں نے پاکستان سے متعلق ثالثی کی رپورٹس کا خیر مقدم کرتے ہوئے بتایا کہ ترک وفد کا دورہ نائب صدر کے بیرونِ ملک مصروفیات کے باعث مؤخر ہوا ہے، تاہم مختلف ممالک پاکستان سے افغان صورتحال پر ثالثی کی خواہش رکھتے ہیں۔

ترجمان نے امریکی صدر کے اس بیان کو بھی مثبت قرار دیا جس میں بھارتی وزیراعظم کو جنگ سے گریز کا مشورہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس کی حالیہ رپورٹ اوپن سورس معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے، اس میں کئی نکات ایسے ہیں جن پر مزید وضاحت درکار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے سفارت خانے فعال ہیں اور دونوں کے درمیان سفارتی رابطے کھلے ہیں۔ بریفنگ کے اختتام پر ترجمان نے کہا کہ پاکستان غزہ پر امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر اپنا واضح مؤقف پیش کرچکا ہے، جبکہ چین کا مؤقف بھی کئی اہم پہلوؤں میں پاکستان سے مماثلت رکھتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ پاکستان دفتر خارجہ انہوں نے بتایا کہ کہا کہ

پڑھیں:

دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان

ملک پھر دہشت گردی کی زد میں ہے۔ دہشت گردوں نے اسلام آباد کو نشانہ بنایا ہے۔ اسلام آباد میں عدالت کے باہر پولیس گاڑی پر خودکش حملے میں 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوئے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل وانا کیڈٹ کالج دہشت گردوں کے نرغے میں آگیا۔کیڈٹ کالج کے طلبہ 14 سے زیادہ گھنٹے ان دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہے۔ سیکیورٹی فورسز نے تمام طلبہ اور اساتذہ کو بازیاب کیا۔ 2 سیکیورٹی اہلکار اس حملے میں شہید ہوئے۔ اس صدی کے 25 ویں سال پھر وانا سے لے کر اسلام آباد غیر محفوظ علاقہ بن گیا۔

اسلام آباد کے سیکیورٹی کے لیے لگائے گئے، اربوں روپے کی لاگت سے نصب ہونے والے کیمرے اور سیف سٹی پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اگرچہ وزیرداخلہ محسن نقوی نے یہ بیانیہ اختیارکر کے کچہری کے دروازے پر تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کی چابک دست سے خودکش حملہ اورکچہری میں قائم عدالتوں تک نہیں پہنچ سکا، اس بات کی دلیل دیتے ہوئے اپنی وزارت کے ماتحت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا دفاع کیا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ کسی خودکش حملہ آور کا اسلام آباد میں داخل ہونا ہی بہت بڑی ناکامی ہے۔

ادھر پشاور میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ایماء پر پختون قومی جرگہ منعقد ہوا۔ اس جرگے میں صوبے کے گورنر سمیت صوبے کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس جرگے کے اعلامیہ کے مندرجات یوں ہیں کہ وفاقی حکومت افغان خارجہ پالیسی کے پی حکومت کے مشورے سے بنائے۔ اس اعلامیے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت اب اس بات پر متفق ہوگئی ہے کہ دو دہائیوں سے خیبر پختون خوا میں ہونے والی دہشت گردی ختم ہونی چاہیے۔ جرگے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاکستان افغانستان سرحد کے تمام تجارتی راستوں کو کھولا جائے۔

یہ راستے گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں اور طالبان فوج کے جوابی حملوں کی بناء پر بند ہیں ، اگرچہ استنبول مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہے مگر اب طالبان حکومت اپنے تاجروں کو یہ ہدایات دے رہی ہے کہ افغان تاجر پاکستان سے تجارت کی امید ہی چھوڑ دیں اور اس مقصد کے لیے دیگر ممالک کی طرف رخ کریں۔ پشاور میں ہونے والے جرگہ کے اعلامیہ کے تجزیے سے قبل یہ تجزیہ ضروری ہے کہ ماضی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔

 اسلام آباد میں 20 دسمبر 2008 کو ایک خود کش حملہ آور نے گولہ بارود سے لیس ایک ڈمپر ایک ہوٹل کی دیوار سے ٹکرا دیا تھا۔ اس سانحے میں کم ازکم 54 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 266 کے قریب افراد جن میں سے بیشتر پاکستانی تھے، زخمی ہوئے۔ طالبان دہشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والے بعض صحافیوں نے یہ مفروضہ گڑھ لیا تھا کہ متاثرہ ہوٹل میں امریکی موجود تھے ۔ ایسی خبروں کی تردید بھی ہوئی لیکن ان خبروں کی اشاعت کا مقصد یقیناً طالبان دہشت گردوں سے ہمدردی پیدا کرنا تھا۔ جب میاں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے توکچھ عرصے بعد تحریک انصاف کے بانی نے حکومت کے خاتمے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھا تو 16 اگست 214 کو ظالم دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول کے طالبہ کا قتل عام کیا تھا۔ اس سانحے میں 150 افراد جاں بحق ہوئے جن میں اسکول کی پرنسپل کے علاوہ 134 طلبہ بھی شامل تھے۔

عمران خان نے یہ دھرنا ختم کیا تو حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکو مدعو کر کے ایک کانفرنس منعقد کی تھی، فوج کے سربراہ بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ اس کانفرنس میں 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے ہوا تھا، یہ ایک جامع پلان تھا۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں تھے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام،کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی، نفرت انگیز مواد پر پابندی، دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے سمیت مدارس کی اصلاحات، دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کی بندش، نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی کا قیام، قومی سلامتی کمیٹی کی تمام معاملات میں نگرانی وغیرہ شامل تھے مگر بعد میں حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایسے عناصر موجود تھے جو مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ نواز شریف حکومت پاناما لیکس کے اسکینڈل میں پھنس گئی تھی۔ نواز شریف حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ایک نئی انتہا پسند تنظیم بنوائی گئی،جس پرگزشتہ دنوں پابندی عائدکی گئی ہے۔

 تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ تحریک انصاف کے بانی ہمیشہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران تحریک انصاف کے جیالوں نے پشاور جانے والی موٹر وے پر دھرنا دے کر اتحادی افواج کی سپلائی لائن رکوا دی تھی۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری فخر سے اس کامیابی کا ذکرکرتی تھیں۔ بہرحال تحریک انصاف کو اسلام آباد میں حکومت مل گئی،کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے طالبان فوج کی کابل پر قبضہ کی بھرپور مدد کی تھی۔ بی بی سی اردو ویب سائٹ کی 16 اگست 2016 کو وائرل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے یکساں نصاب کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کابل پر طالبان کے قبضے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔

انھوں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا تھا کہ غلام ذہن کبھی بھی بڑے کام نہیں کرسکتا۔ اس رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتوںنے طالبان کی کامیابی کا جشن منایا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں طالبان کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ ان طالبان نے سابقہ قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختون خوا کے کئی شہروں میں متوازی حکومتیں قائم کر لیں۔

کے پی میں مختلف شہروں میں عوام نے طالبان کے خلاف دھرنے دیے ، مگر وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان جنگجوؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوام کی سرپرستی نہیں کی۔ اب کے پی کے عوام ایک طرف طالبان کے حملوں کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف حکومتی آپریشنزدیکھتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ کے پی کے عوام اس آپریشن کوکوئی آفت قرار دیتے ہیں۔ پشاورکے جرگہ کا یہ مطالبہ اہم ہے کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تیاری میں کے پی حکومت کا مشورہ شامل ہونا چاہیے مگر کے پی کی حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ طالبان جنگجوؤں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اگر اب ریاست نے واضح طے کرلیا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنا ہے تو پھر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ابھی تک ایران کی جانب سے پاکستان افغان طالبان تنازع میں ثالثی پر عملی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا، دفتر خارجہ
  • دہشت گردوں کی معاونت ختم نہ کرنے تک افغانستان کیساتھ تجارت بند رہے گی، ترجمان دفتر خارجہ
  • تجارت کے نام پر پاکستانیوں کے قتل کا لائسنس جاری نہیں کرسکتے، صبر جواب دے گیا، دفترِ خارجہ
  • افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی میں مسلسل استعمال ہو رہی ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • لکی مروت میں سی ٹی ڈی اور پولیس کی مشترکہ کارروائی، 2 خطرناک دہشتگرد ہلاک
  • افغان طالبان کی پشت پناہی سے ٹی ٹی پی خطے کے لیے سنگین خطرہ، اقوام متحدہ کی کمیٹی کا انتباہ
  • دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
  • اسحاق ڈار کی ماسکو میں صدر پوٹن سے ملاقات
  • خیبرپختونخوا کی زمین دہشت گردوں پر تنگ، سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مزید 23 خواج ہلاک