عہد ِرسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشی کردار
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
معاش حیات انسانی کا وہ اہم ترین شعبہ ہے اور عمرِعزیز کا بیشتر حصہ غمِ فردا میں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے اس فطرت انسانی کا خاص خیال رکھا ہے اور جا بہ جا حصولِ معاش کی دوڑ دھوپ کا حکم دیا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو ارشاد فرمایا: ’’نیک آدمی کے لیے اچھا مال کیا ہی خوب ہے۔‘‘ (ترمذی) نیز نبی کریم ﷺ نے حضرت انس ؓ کے لیے کثرت اولاد کے ساتھ فراخی رزق کی دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے اﷲ! انس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما۔‘‘ (بخاری)
اگرچہ عورت کا حقیقی دائرہ کار اس کا گھر ہے جہاں وہ بچوں کی نگہ داشت، نشوونما اور تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ عورت کو فکرِمعاش سے آزاد کیا گیا ہے۔ اس پر دوسروں کی فکر تو کیا بلکہ اپنی ذمہ داری سے بھی سبک دوش ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ عورت اپنے گھر میں کامل منہمک ہو کر اپنے فرائض ادا کرسکے۔ مفہوم: ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔‘‘ کی اصل غرض و غایت بھی یہی ہے۔
شریعت مرد سے زیادہ عورت کو تربیت ِ اولاد کے لیے موزوں سمجھتی ہے۔ ایک صحابیؓ نے جب اپنی بیوی کو طلاق دی اور بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہا مگر بچے کی والدہ نے شکایت کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ہی اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک دوسرا نکاح نہ کرلو۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
عورت گھر کی منتظم ہے لہٰذا اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا انتظام خوش اسلوبی سے چلائے۔ صفائی، ستھرائی کا اور افراد خانہ کے لباس و خوراک کا خاص خیال اس طرح رکھے کہ گھر چین و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں عورت کا پنے اصل دائرہ کار پر کاربند رہنا ضروری ہے، چناں چہ اجتماعی اور تمدنی میادین میں عورت کی عدم شرکت قابل برداشت ہے مگر گھر کا نقصان برداشت نہیں۔ اس لیے کہ گھر کا معاملہ صرف دو افراد یعنی میاں بیوی ہی کے مابین نہیں بلکہ دو خاندانوں اور اس کے سینکڑوں افراد کے مابین ہے۔
شریعت اسلامیہ اجتماعی عبادات میں بھی حصہ لینے کی بہ جائے عورت سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ عبادات بھی اپنے گھر میں ہی بجا لائے۔ گھر میں رہ کر خاوند کی خدمت کرنا عورت کا جہاد ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تمہارا گھر میں بیٹھنا ہی جہاد ہے۔‘‘ (مسند احمد) اس کے باوجود قرآن و حدیث میں غور و فکر سے معلوم ہوتا کہ معاشی تگ و دو کا بنیادی فریضہ تو مرد کے سر ہے تاہم عورت کے لیے اس کی ممانعت نہیں۔
اس کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے۔
حدیث میں تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’دس حصوں میں سے نو حصے رزق اﷲ نے تجارت میں رکھا ہے۔‘‘ (عمدۃ القاری) امام ابراہیم نخعیؒ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی نظر میں سچا تاجر زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کررکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سچا تاجر زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ وہ حالت جہاد میں ہے۔ شیطان ہر طرف سے اسے پھسلانے کی کوشش کرتا ہے کبھی ناپ تول میں کمی بیشی کا کہتا ہے تو کبھی لین دین میں مکربازی کی چالیں سمجھاتا ہے لیکن وہ تاجر ان سب سے انکار کرکے جہاد کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین)
عہد رسالتؐ میں صحابیاتؓ تجارت سے وابستہ تھیں، حضرت اسماء بنت مخزمہؓ عطر کا کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت خولہ بنت توقیتؓ اس قدر عطر فروخت کرتی تھیں کہ وہ عطارہ کے نام سے مشہور ہوگئی تھیں۔ جب وہ رسول اﷲ ﷺ کے گھر تشریف لائیں توآپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’تم نے ان سے کچھ خریدا نہیں؟ انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! آج یہ عطر فروخت کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی ہیں تو آپ ﷺ نے ان کی شکایت کا ازالہ کیا۔‘‘ (ابن الاثیر)
ان واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عورت تجارت و کاروبار میں حصہ لے سکتی ہے۔ عصرحاضر میں تجارت و کاروبار کا ایک وسیع میدان عورتوں سے متعلق ہے جس میں عورتوں کے ملبوسات اور زیب و زینت کی بے شمار اشیاء شامل ہیں۔ اگر عورتیں تجار ت میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو ان کے لیے بہترین مواقع عورتوں سے متعلقہ اشیاء ہیں جن سے دُہرا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ عورت رزقِ حلال کما سکتی ہے اور دوسرے یہ کہ خریدار عورتوں سے شرم وحیاء کا دامن بھی نہیں چھوٹتا۔ نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ تکلیف سے یہ بات سہنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں شرم و حیاء کی دھجیاں اُڑا کر یہ کام مردوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جس کے مُضر اثرات سب کے سامنے ہیں۔
روز ِاول سے زراعت و کاشت کاری ذریعہ معاش ہی رہا ہے۔ انسان نے سب سے پہلے زمین پر اُگایا اور پھر اسے کھایا۔ حضرت آدمؑؑ کا پیشہ بھی زراعت و کاشت کاری ہی تھا۔ حضرت موسٰیؑ کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیبؑ کے گھر کا دار و مدار مویشی پالنے اور زراعت پر تھا۔
آپ ﷺ نے اس پیشے کی فضیلت یوں بیان فرمائی، مفہوم: ’’جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کے لیے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) دوسری جگہ فرمایا : ’’اگر کسی شخص کے پاس زمین ہے تو اسے خود کاشت کرنی چاہیے، اگر وہ خود کاشت نہیں کرسکتا تو اس کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جو شخص زمین کو بے کار اور بے کاشت رکھے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہوجائے گا۔ (کتاب الخراج)
صحابیاتؓ اس پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔ اُم مبشر انصاریہ کا ایک کھجوروں کا باغ تھا ، آپ ﷺ ان کے کھجوروں کے باغ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ یہ کھجوریں کسی مسلمان کی ہیں یا کافر کی ؟ انھوں نے عرض کیا کہ مسلمان کی ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کہتی ہیں کہ میری زبیر سے شادی ہوئی تو نہ ان کی کوئی زمین تھی اور نہ ہی کوئی مال، البتہ ایک اونٹ تھا جو پانی لادنے کے کام آتا تھا اور ایک گھوڑا۔ میں خود گھوڑے کو چارہ ڈالتی اور پانی بھر کے لاتی، آٹا گوندھتی لیکن مجھے روٹی پکانا نہیں آتی تھی۔ انصار کی عورتیں جو بڑی ہی مخلص تھیں، وہ مجھے روٹی پکا کر دے دیتیں۔ آپ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ایک قطعہ اراضی دے دیا تھا جو میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھا ، میں وہاں جاتی اور کھجور کی گٹھلیاں چن کر لاتی۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے کھیت میں ایک سبزی (چقندر) اُگایا کرتی تھی۔ جمعہ کے دن وہ اس کا سالن بنایا کرتی تھی، ہم جمعہ کی نماز کے بعد اس کے گھر چلے جاتے، اسے سلام کرتے اور وہ ہمارے لیے کھانا لگا دیتی۔ ہم پورا ہفتہ، جمعہ کا انتظار صرف اسی لیے کرتے تھے۔ (کہ نماز جمعہ کے بعد کھانا ملے گا) (صحیح بخاری)
درج بالا واقعات سے معلوم ہُوا کہ عہدرسالتؐ میں صحابیاتؓ زراعت سے بھی وابستہ تھیں اور ان کے اپنے باغات ہوتے تھے جس کی وہ دیکھ بھال کرتی تھیں۔ دیکھ بھال میں جو کام اپنے کرنے کے ہیں، وہ خود بھی بجا لائے جاسکتے ہیں اور جو کام صنف نازک کے بس سے باہر ہوں، ان میں خادم بھی رکھا جاسکتا ہے، مثلاً فصل کو پانی لگانا، درختوں سے پھل اُتارنا وغیرہ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کی زوجہ حضرت زینبؓ دست کاری سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے بچوں یہاں تک کہ خاوند کے اخراجات کا بندوبست کرتی تھیں۔ ایک دن وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں دست کاری سے خوب واقف ہوں اور چیزیں بنا کر فروخت کرتی ہوں۔ میرے بیٹے اور خاوند کے پاس کوئی کام کاج نہیں ہے، میں ہی ان پر خرچ کرتی ہوں اور ان پر خرچ کرنے کی وجہ سے میں غرباء پر صدقہ نہیں کرسکتی تو کیا بیٹے اور خاوند پر خرچ کرنے سے مجھے اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں! تم ان پر جو بھی خرچ کروگی، تمھیں اس کا اجر ضرور ملے گا۔‘‘ (صحیح مسلم) اُم المؤمنین حضرت زینب بنت جحشؓؓ اپنے ہاتھ سے قسما قسم کی چیزیں تیار کرکے انھیں فروخت کرتیں اور جو کمائی انھیں حاصل ہوتی اسے راہ خدا میں صدقہ کردیا کرتی تھیں۔
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر آئی جس کے کنارے بُنے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! یہ چادر میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے تاکہ میں اسے آپ کو پہناؤں۔ آپ ﷺ نے اس کا ہدیہ قبول فرمایا۔ ا یک آدمی نے اسے دیکھ کر سوال کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آپ یہ چادر مجھے دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے تم لے لو۔ آپ ﷺ نے وہ چادر تہہ کروا کر اس آدمی کو بھجوا دی۔ لوگوں نے اس آدمی سے کہا کہ تم بھی عجیب ہو، رسول اﷲ ﷺ سے چادر کا سوال کردیا، تمھیں معلوم نہیں کہ وہ کسی سائل کا سوال رَد نہیں فرماتے۔ اس شخص نے کہا: اﷲ کی قسم! میں نے آپ ﷺ سے یہ چادر صرف اس لیے مانگی کہ بہ وقت موت یہ میرا کفن بن سکے۔ سہل ؓ کہتے ہیں کہ جب اس شخص کی موت ہوئی تو وہی چادر اس کا کفن تھی۔ (صحیح بخاری)
عہد رسالتؐ میں عورتیں اپنے کاروبار میں نہ صرف یہ کہ خود حصہ لیتی تھیں اور بہ طور کارکن خود کام کرتی تھیں بلکہ خود کاروبار کی ادارت اور نگرانی بھی کرتیں اور کام کاج کوئی اور کرتا تھا۔ امام بخاری ؒ نے حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے روایت کی ہے کہ انصار کی ایک عورت نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ بنوا دوں جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو بے شک بنوا دو‘‘ تو اس عورت نے منبر بنوا کر دیا۔ جمعہ کے روز آپ ﷺ اسی پر تشریف فرما ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے۔ (صحیح بخاری) حضرت خدیجہؓ کی تجارت بھی کچھ اسی طرح کی تھی کہ وہ اپنا مال مضاربت پر دے کر خود کاروبار کی نگرانی کرتی تھیں اور منافع مضاربین اور اپنے مابین تقسیم کر لیتی تھیں۔ آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ کو بھی مضاربت کی بنیاد پر مال دیا تھا جسے آپ ﷺ نے فروخت کیا تو دُگنا منافع ہُوا تھا۔
عہد رسالتؐ میں بہت سے صحابیاتؓ طبابت کے پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔ صحابیاتؓ جنگوں میں رسول اﷲ ﷺ کے ہم راہ تشریف لے جاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھیں۔ ان میں ایک بنو اسلم کی حضرت رفیدہ انصاریہؓ تھیں۔ ابن اسحاق ؒسے مروی ہے: ’’غزؤہ خندق میں جب حضرت سعدؓ تیر سے زخمی ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں رفیدہ ؓ کے خیمے میں منتقل کر دیا جائے تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کرسکوں۔ نبی کریم ﷺ ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے تو سعد ؓ کا حال دریافت فرماتے تو سعد ؓ آپ ﷺ کو اپنا حال بتاتے۔‘‘
(ابن حجر عسقلانی)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ غزوات میں اُم سلیم ؓ اور انصار کی عورتیں نبی کریم ﷺ کے ہم راہ ہوتی تھیں جو جنگ کے دوران پانی بھر کر لاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم) اُم عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں سات غزوات میں بنی کریم ﷺ کے ہم راہ رہی۔ میں مجاہدین کے لیے کھانا بناتی، زخموں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دوا کرتی تھی۔ (صحیح مسلم) خارجہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ اُم علاء ؓ نے انھیں بتایا کہ عثمان بن مظعونؓ کو بخار ہوا اور وہ ہمارے ہاں مریض ٹھہرے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ (صحیح بخاری)
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے انصار کی عورتوں کو بخار اور کانوں کے امراض کے علاج کی اجازت دی تھی۔ (صحیح بخاری) درج بالا واقعات یہ شہادت پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ عورت معالج بن سکتی ہے بلکہ وہ مردوں کا علاج بھی کرسکتی ہے بہ شرط یہ کہ فتنے کا خوف نہ ہو۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ طب کے پیشے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ طب کے تمام شعبوں میں عورتوں کا طبی معائنہ عورتیں ہی کرسکیں اس میں جہاں مریضوں کے لیے فائدہ ہے کہ انھیں طبی معائنے کے لیے کسی نامحرم کے پاس نہ جانا پڑے گا، وہیں خواتین ڈاکٹرز کے لیے یہ مواقع ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں کلینک قائم کرسکتی ہیں۔
تعلیم و تحقیق اسلام کا نقطۂ آغاز ہے اور اس سلسلے میں مرد ہو یا عورت ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ غزوہ بدر میں وہ کفار جو قیدی تھے، کا کفارہ دس بچوں کو تعلیم دینا قرار پایا۔ حضرت شفاء بنت عبداﷲ ؓ کو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جیسے تم نے حفصہ ؓ کو کتابت سکھائی ہے تو کیا انھیں مرضِ نملہ کی دعا نہیں سکھاؤ گی۔؟‘‘ (سنن ابی داؤد)
رسول اﷲ ﷺ کی کثرت ازواج میں اصحابؓ کی دل جوئی، عداوتوں کے خاتمے سمیت ایک حکمت یہ بھی تھی کہ ازواج ِ مطہراتؓ کو دینِ اسلام کی تعلیم دے کر انہیں دین سکھانے پر مامور کردیا جائے تاکہ خواتین کے وہ مسائل جن کے بیان کرنے میں ایک مرد کے لیے شرم و حیاء مانع ہوتی ہے، کا بہترین بندوبست ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ازواجِ مطہراتؓ نے شوق و رغبت سے دین سیکھا اور پھر اُسے امت تک بہ خوبی پہنچایا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے تقریباً ایک ہزار روایات مروی ہیں جو انھوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہیں اور ستّر کے قریب صحابیاتؓ ایسی ہیں جنھوں نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے روایات نقل کی ہیں اور بڑے ائمہ ان کے شاگر ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ان قیم جوزیہ ؒ ایک مشہور عالمہ فخرالنساء کے تلامذہ میں سے ہیں۔ علامہ ابن عساکر ؒ نے اٹھارہ اور امام مسلم ؒ نے سترہ عورتوں سے میراثِ نبویؐ کو حاصل کیا ہے۔ (عمل المرأۃ) دورِ حاضر میں خواتین کے لیے سب سے بہتر میدان طب اور درس و تدریس ہے۔
عہد رسالتؐ میں رضاعت ایک جانا پہچانا پیشہ تھا اور بہت سی عورتیں اس پیشے سے وابستہ تھیں۔ قرآن حکیم نے ان مرضعات کو دستور کے مطابق معاوضہ دینے کا حکم فرمایا۔ حلیمہ سعدیہؓ نے سرور ِدو عالم ﷺ کو دودھ پلایا تو اُم بردہ ؓ نے آپ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کو دودھ پلایا۔ جب حضرت ابراہیم ؓ پیدا ہوئے تو انصار کی عورتوں میں یہ بات ہوئی کہ انھیں دودھ کون پلائے گا؟ تو نبی کریم ﷺ نے انھیں اُم بردہ ؓ کے حوالے کردیا۔ (طبقات ابن سعد)
خواتین اپنے گھروں میں ڈے کیئر سینٹر قائم کرکے جہاں ملازم خواتین کی ضرورت پوری کرسکتی ہیں، وہیں اپنے لیے روزگار کا بندوبست بھی امرِ بدیہی ہے۔ اس سے نہ گھر کا کام متاثر ہوتا ہے نہ ہی بے پردگی سے خلاف شریعت کچھ لازم آتا ہے۔ اگر اس میں خلوص نیت شامل ہوتو یہ ’’نیکی کے امور میں ایک سوجے سے تعاون کرو۔‘‘ (المائدہ) کے مصداق عبادت ہی ہے۔
دین اسلام جو کہ دین فطرت ہے، مرد و عورت کو وہ تمام حقوق ادا کرتا ہے جس سے زندگی کا پہیا بہ آسانی رواں دواں رہ سکے لیکن وہ اس کے ساتھ اصول و ضوابط کے اپنانے کا بھی حکم دیتا ہے جس میں مطمعٔ نظر محض انسانیت کی خیر خواہی اور اس کی فلاح و بہبود ہے۔ ہر مسلمان عورت پر لازم ہے کہ وہ پردے کا خاص خیال رکھے۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ شریعت نے قریبی رشتہ داروں سے بھی پردے کا حکم دیا لہٰذا غیروں کے سامنے اس کی اجازت کس طرح ممکن ہے۔ عورتوں کے لیے یہ بھی راہ نمائی ہے کہ جب انھیں معاشی سرگرمیوں کے لیے کسی ایسی جگہ جانا پڑے جہاں مردوں سے اختلاط لازم آتا ہو تو ان پر لازم ہے کہ مردوں کے مابین مردوں سے عدم اختلاط کا رویہ رکھیں۔ دین اسلام عورت کو معاشی سرگرمی کی اجازت تو دیتا ہے مگر وہ اسے خاندان کے سربراہ کی اجازت سے بھی مشروط کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۔‘‘ (سنن الکبریٰ)
شرم و حیاء مومن کا جوہر ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا کہ حیاء کا نتیجہ خیر ہی خیر ہے۔ لہٰذا ایسی ملازمت جس میں شرم و حیاء کی پاس داری نہ رہے، عورتوں کے لیے جائز نہیں۔ n
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا پ ﷺ نے فرمایا ارشاد فرمایا وابستہ تھیں رسول اﷲ ﷺ شرم و حیاء عہد رسالت فرمایا کہ کرتی تھیں عورتوں سے کی اجازت اپنے گھر سے روایت تھیں اور کرتی تھی انصار کی میں ایک گھر میں عرض کیا کہ عورت کرتا ہے عورت کو کے لیے کے پاس کیا کہ تھیں ا کہ میں ہیں کہ ہے اور اور اس سے بھی گھر کا اس لیے کی ہیں
پڑھیں:
برازیلی انفلوئنسر عمارت کی چھت سے گر کر ہلاک
برازیل کی مشہور نیوٹریشنسٹ اور باڈی بلڈر انفلوئنسر ڈیانا اریاس ایک عمارت کی چھت سے گر کر ہلاک ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھیں: نامور بھارتی خاتون ریسلر نے اپنے میڈلز سڑک پر کیوں پھینکے؟
پولیس کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ جمعرات کے روز ریاست ریو ڈی جنیرو کے شمالی شہر کیمپس میں پیش آیا۔ 39 سالہ ڈیانا اریاس کی لاش ان کے رہائشی کمپلیکس کے ایک حصے میں پائی گئی۔
مقامی میڈیا نے بتایا کہ انہیں اپارٹمنٹ سے شدید زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا تھا، جبکہ ان کے جسم پر کئی کٹ بھی موجود تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈیانا اسپتال سے طبی اجازت لیے بغیر نکل گئیں اور چند گھنٹوں بعد ان کی موت کی خبر آگئی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈبلیو ڈبلیو ای کے وہ ستارے جنہوں نے سب سے زیادہ دولت کمائی
ڈیانا اریاس انسٹاگرام پر 2 لاکھ سے زائد فالوورز رکھتی تھیں اور فٹنس، نیوٹریشن اور باڈی بلڈنگ کے حوالے سے اپنے تبصروں سے مقبول تھیں۔
پولیس مزید تفتیش کر رہی ہے کہ ان کی موت حادثہ تھا یا خودکشی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برازیل حادثہ خاتون باڈی بلڈرز