WE News:
2025-11-16@05:39:15 GMT

کامنی کوشل، اس دل میں لاہور کی یادوں کا باغ تھا

اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT

معروف اداکارہ کامنی کوشل کے جہان گزراں سے چلے جانے کے بعد انڈیا میں لاہور کی ایک اور قیمتی نشانی کم ہو گئی ہے۔ یہ شہر ان کی جنم بھومی تھا۔ اس کی یاد ان کے دل سے کبھی نہیں اتری۔

انہوں نے راجیہ سبھا ٹی وی سے انٹرویو میں سبزے میں گھرے اپنے خوبصورت گھر کو بڑی محبت سے یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’مجھے اب تک اس کے سپنے آتے ہیں۔‘ یہ گھر چوبرجی کے نواح میں راج گڑھ کے علاقے میں تھا جس کے اردگرد یوکلپٹس کے درخت ایستادہ تھے۔ کھٹے کی باڑ تھی اور گھر کے مکینوں سے پہلے گل وگلزار سے ملاقات ہوتی تھی۔ اسے پھولوں والی کوٹھی کہا جاتا تھا۔ تقسیم کے وقت اس گلشن سے طائروں کو نکلنا پڑا لیکن لاہور کی یادیں کریدتے ہوئے کامنی کوشل کے لہجے میں تلخی کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ بڑے رسان سے شہر پرکمال کے بام ودر اور اس سے منسلک یادیں بیان کرتی چلی جاتی تھیں۔

کامنی کوشل تقسیم کے بعد 1962 میں اپنا گھر دیکھنے لاہور آئی تھیں۔ 50 سال بعد انہوں نے معروف تاریخ دان ڈاکٹر اشتیاق احمد سے اس دورے کی یادیں سانجھا کی تھیں۔ کامنی کوشل کا گھر اس وقت ان کے ہمسایوں کے تصرف میں تھا جنہیں وہ تقسیم سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ بڑی خوش دلی سے اس گھر کی اصل وارث سے ملے۔ کامنی کوشل یہ دیکھ کر حیران ہوئیں کہ مجسمے، تصاویر اور بہت سا فرنیچر 15 برس بعد بھی اپنے ٹھکانے پر تھے۔ ان کی سہیلی جمیلہ کو ہم جولی کے لاہور آنے کی اطلاع ملنے کی دیر تھی کہ وہ اڑتے ہوئے کراچی سے ملنے کے لیے چلی آئیں اور پھر بڑی جذباتی فضا میں ان سکھیوں نے ایامِ عشرتِ فانی کو یاد کیا۔

کامنی کوشل کے لاہور سے رشتے کی حکایت بڑے تواتر سے بیان ہوتی رہی ہے جس کی سب سے معتبر راوی وہ آپ تھیں۔ یادوں کی اس خزینے سے میں نے آپ کے لیے وہ موتی چنے ہیں جنہیں بڑے نامور ادیبوں نے اپنی کتابوں میں پرویا ہے۔

کامنی کوشل کی فنی زندگی کی بنیاد کا ایک پتھر آل انڈیا ریڈیو کا لاہور اسٹیشن تھا جہاں انہوں نے رفیع پیر اور امتیاز علی تاج کے ڈراموں میں کام کیا۔

پنجابی کے معروف لکھاری کرتار سنگھ دگل ان دنوں لاہور ریڈیو میں پروگرام افسر تھے۔ ان کی خود نوشت ‘کس پہ کھولوں گنٹھڑی’ میں اس زمانے کی کہانی مؤثر اسلوب میں بیان ہوئی ہے جس سے کامنی کوشل کی ریڈیو پر ہنرمندی کی خبر ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’جو لڑکی بعد میں کامنی کوشل کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی وہ میری ڈراما آرٹسٹ تھی۔ ان دنوں اسکول میں پڑھتی تھی۔ اکثر بچوں کے پروگرام کے پارٹ کرتی تھی۔ امتیاز علی تاج کے مشہور ریڈیو ناٹک ‘ورجینا’ میں اس نے ورجینا کا پارٹ ادا کیا تھا۔ تب بھی اس کی اہلیت، اس کی ڈرامے کی لگن، کلاکار کے طور پر اس کی سوجھ بوجھ بے جوڑ تھی۔ ظاہر ہے اس طرح کے آرٹسٹ کی قدر ہوتی تھی۔ حسیب اس طرح کی لڑکیوں کی کچھ زیادہ ہی خاطر تواضع کرتا تھا۔ کامنی کوشل کا اصل نام اوما ہے۔ اوما کیشپ کے نام سے وہ براڈ کاسٹ کیا کرتی تھی۔ اوما کی ہر بات مانی جاتی تھی۔ ‘

کامنی کوشل نے لیڈی میکلگن اسکول کے بعد کنیئرڈ کالج کا رخ کیا اور وہاں سے گریجویشن کی تھی۔ ان تعلیمی اداروں نے کامنی کی فطری صلاحیتوں کی آبیاری کی۔ 1988 میں کنئیرڈ کالج کے قیام کے 75 سال پورے ہونے کی مناسبت سے تقریبات میں کامنی کوشل کو مدعو کیا گیا تو وہ اپنی مادرِ علمی تشریف لائیں اور ہم عصر طالبات سے مل کر جی شاد کیا۔ اس دورے کی رعایت سے ممتاز ادیب انتظار حسین نے ‘مشرق’ اخبار میں ان کی فلموں میں اپنی دلچسپی کا احوال رقم کیا تھا۔

پاکستان کے ابتدائی برسوں میں انتظار حسین جوانی کی منزل پر تھے اور فلمیں بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اس شوق میں ان کے دو صحافی دوست امجد حسین اور حمید ہاشمی بھی شریک تھے جن کے ساتھ انہوں نے کامنی کوشل کی فلمیں کئی کئی بار دیکھی تھیں، ان زمانوں کی یاد کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا:

‘یہ وہ زمانہ تھا جب ‘امروز’ کا دفتر ایبٹ روڈ پر ہوا کرتا تھا، ہم تینوں مولانا چراغ حسن حسرت سے نظر بچا کر اور اپنا کام دوسرے رفیقوں کے سر ڈال کر چپکے سے باہر نکلتے اور آس پاس کے کسی سنیما گھر میں جس میں کامنی کوشل کی فلم لگی ہوتی جا بیٹھتے۔ یہ دونوں ہی دوست کامنی کوشل کے بلا شرکت غیرے پروانے ہوا کرتے تھے مگر ہم نے تو ‘جوگن’ بھی دیکھ رکھی تھی، ہم تو نرگس کا بھی اتنا ہی لوہا مانتے تھے جتنا کامنی کوشل کا بلکہ شاید تھوڑا زیادہ ہی۔’

انتظار حسین نے لکھا کہ کامنی کوشل اب اس شہر آئی ہیں تو ‘ندیا کے پار’ ، ‘ضدی’ اور ‘آرزو’ کا زمانہ بعید بن چکا ہے اگر وہ ان فلموں کے زمانے میں لاہور آتیں تو پورا شہر کنیئرڈ کالج پر امڈ پڑتا۔

کامنی کوشل نے 1946 میں ‘نیچا نگر’ سے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا تو اس وقت وہ لاہور کی باسی تھیں۔ اس فلم کا لاہور اور اس کے طالب علموں سے گہرا تعلق تھا۔ کامنی کنیئرڈ کالج کی طالبہ تھیں۔ فلم کے ڈائریکٹر چیتن آنند گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی کامنی کوشل کے بھائی سے دوستی تھی۔ انہی کے کہنے پر وہ فلم میں کام کرنے پر رضامند ہوئی تھیں۔ چیتن نے اوما کیشپ کو کامنی کوشل بنایا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے سابق طالب علم اور لاہور ریڈیو، تھیٹر اور ادب کی معروف ہستی رفیع پیر نے فلم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں چھوٹا موٹا رول صفدر میر نے بھی کیا تھا جو گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے اور بعد میں استاد بن گئے۔ پاکستان میں وہ ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور دانشور کے طور پر لاہور کی تہذیبی و ادبی زندگی کے نمایاں فرد کے طور پر ابھرے۔

نیچا نگر سے اڑان بھرنے کے بعد کامنی کوشل کی پرواز اونچی ہوتی گئی۔ لاہور ان سے چھٹ گیا لیکن ان کے حسن کی چکا چوند اس شہر کے باسیوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی رہی۔

معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ‘لاہور آوارگی’ میں ایک باب ‘لاہور کی محبوب عورتیں’ کے عنوان سے ہے۔ اس میں وہ لاہور میں سنیماؤں کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوئے فلمی ہیروئنوں کے سحر آگیں حسن کا تذکرہ کرتے ہیں جو لاہوریوں کے دلوں و دماغ پر حاوی ہو جاتا تھا۔ ان کے بقول:

’آج کے عہد میں کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ ان زمانوں میں سنیما گھروں کی جادو نگری ایک کوہ قاف تھی جہاں آپ کے گیلے خوابوں کی پریاں رقص کرتی تھیں، وہ کسی دلیپ کمار، راج کپور یا دیو آنند سے نہیں آپ سے عشق کا اظہار کرتی تھیں۔ اگر مدھو بالا ‘بے ایمان تورے نینوا، نندیا نہ آئے’ گاتی تھی تو آپ کے نینوں سے ‘اپنی نیند اڑ جاتی تھی۔ کامنی کوشل اگر ‘ندیا کے پار جاتی تھی تو آپ سے ملنے کے لیے اس لیے بھی جاتی تھی کہ وہ بھی ایک لاہورن تھی کنیئرڈ کالج میں پڑھا کرتی تھی۔’

مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ٹی وی پروگرام ’کارواں سرائے‘ میں بھی کامنی کوشل کے لاہور سے تعلق پر بات کی تھی۔

معروف براڈ کاسٹر، شاعرہ اور خاکہ نگار سحاب قزلباش نے لندن میں کامنی کوشل سے ملاقات کی روداد ‘روشن چہرے’ میں رقم کی ہے، اس میں لاہور کا حوالہ لامحالہ آنا ہی تھا کیوں کہ اس کے بغیر کامنی کوشل کی زندگی ادھوری رہتی ہے۔

کامنی کوشل کی یادوں کے نشان لاہور میں جگہ جگہ ثبت تھے۔ ان میں ایک یادگار لارنس گارڈن میں اوپن ائیر تھیٹر بھی تھا۔

اس حوالے سے سحاب قزلباش نے کامنی کوشل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ‘رات کے دو بجے تم لارنس گارڈن پہاڑی کے قریب تھیٹر دیکھنے گئیں۔ اپنے میک اپ کے کمرے میں بھی گھومیں۔ ساری بتیاں جلا کر تم چپ چاپ اسٹیج پر بیٹھی رہیں اور لوگ تمہیں پاگل سمجھ رہے تھے۔’

سحاب نے کامنی کے حوالے سے ایک فقرہ امتیاز علی تاج کے بارے میں بھی نقل کیا ہے:

‘ان کا نام کون بھول سکتا ہے’

لاہور میں پرانے قریوں میں تصور کی آنکھ سے ماضی میں جھانکنے کی ایک مثال گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کے دورے سے بھی ملتی ہے اور اپنے اس تجربے کے بارے میں بھی انہوں نے ڈاکٹر اشتیاق احمد کو بتایا تھا۔

گورنمنٹ کالج میں وہ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ جایا کرتی تھیں جو اس عظیم تعلیمی ادارے میں باٹنی (نباتیات) کے پروفیسر تھے۔ ان کے کمرے میں ان کی چیزیں طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی موجود تھیں، حتیٰ کہ ان کے دور کی دوات بھی۔ وہ سارا زمانہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور والد کے کمرے میں جانا ان کے لیے ایک روحانی تجربہ بن گیا۔

لاہور ان کے سپنوں میں آتا تھا۔ اسے وہ رہ رہ کر یاد کرتی تھیں۔ ذاتی اور فلمی اداکارہ دونوں حیثیتوں سے اس شہر کے باسیوں سے ان کا تعلق قائم رہا اور بڑے بڑے ادیبوں نے ان کے اس شہر سے تعلق کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی محبت کے مختلف مظاہر دیکھ کر لاہور سے کرشن چندر کی محبت کے پیش نظر صہبا لکھنوی نے ایک جملہ کہا تھا جو کامنی کوشل کے حسب حال معلوم ہوتا ہے:

’کرشن چندر جسمانی طور پر بمبئی میں آباد تھے لیکن ان کا دل اور روح لاہور کے گلی کوچوں میں سیر کرتی رہی۔’

صاحبو! لاہور باغوں کا شہر تھا۔ لیکن اس سے بچھڑنے والے ان باغوں کو اپنے دل میں سمیٹ کر لے جاتے رہے۔ کامنی بھی ایک پھول ہی تو ہے۔ قضا نے اسے مرجھا دیا لیکن ان کے دل میں بسا لاہور کا یہ باغ ان کی یادوں میں مہکتا رہے گا اور پھول رنگ بکھیرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews تقسیم برصغیر کامنی کوشل لاہور محمودالحسن وی نیوز یادیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کامنی کوشل لاہور محمودالحسن وی نیوز یادیں میں کامنی کوشل کامنی کوشل کی کامنی کوشل کے گورنمنٹ کالج کنیئرڈ کالج کرتے ہوئے میں لاہور لاہور میں کرتی تھیں کرتی تھی انہوں نے جاتی تھی لاہور کی نے کامنی لاہور ا میں بھی کیا تھا کے بعد کی تھی کی یاد کے لیے

پڑھیں:

بشریٰ بی بی جنرل فیض حمید کیلئے کام کرتی تھیں: خواجہ آصف

—فائل فوٹو

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی جنرل فیض حمید کے لیے کام کرتی تھیں، بشریٰ بی بی کی دی گئی معلومات چند روز میں درست ثابت ہو جاتی تھیں۔

جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کواجہ آصف نے اکانومسٹ کی خبر کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی مکمل طور پر جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے کنٹرول میں تھے، جنرل عاصم منیر کی رپورٹ پر بانی پی ٹی آئی نے ناراض ہو کر انہیں ہٹا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا، طاقت کے لیے ایک خاتون کو لانچ کیا گیا، چار پانچ سال کی لوٹ مار ایک منصوبے کے تحت کی گئی۔ لوٹ مار کے پیسے سے بانی پی ٹی آئی کو حصہ ملتا تھا، باقی پیسہ باہر گیا۔

عمران خان برطانوی جریدے میں چھپنے والے مضمون سے آگاہ ہیں

اسلام آباد پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی کو ...

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں پلان کے تحت فیصلے ہوئے۔ پنجاب جیسے صوبے کے ساتھ سنگین مذاق ہوا، آکسفورڈ سے پڑھ کر بھی یہ سب کرنا افسوسناک ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ عدلیہ کے تبادلوں پر نیا قانون دنیا کے مطابق ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کے خواب دیکھے ہوئے تھے وہ نہ بن سکے، عدلیہ آزاد ہونی چاہیے مگر ثاقب نثار اور اعجاز الاحسن والے انداز میں نہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جنرل فیض عدالتوں اور بانی پی ٹی آئی دونوں کو کنٹرول کر رہے تھے، ملک کی کمانڈ جادو ٹونے کے حوالے کر دی گئی تھی، بشریٰ بی بی دشمن ملک کے ہاتھ لگ جاتیں تو سنگین خطرات پیدا ہوسکتے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • بشریٰ بی بی فیض حمید کیلئے کام کرتی تھیں، خواجہ آصف
  • بشریٰ بی بی جنرل فیض حمید کیلئے کام کرتی تھیں: خواجہ آصف
  • والد کا رویہ اور والدہ کا بورڈنگ اسکول چھوڑ کر جانا، عثمان مختار نے بچپن کی تلخ یادوں سے پردہ اٹھا دیا
  • لاہور میں پیدا ہونے والی بھارت کی لیجنڈری اداکارہ 98 برس کی عمر میں چل بسیں
  • بالی ووڈ کی سینیئر اداکارہ کامنی کوشل 98 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں
  • ممبئی، سینئر ترین اداکارہ کامنی کوشل 98 برس کی عمر میں چل بسیں
  • کترینہ سے ملاقات کیسے ہوئی تھی؟ وکی کوشل کا حیران کن انکشاف
  • شاہین خان نے کم عمری میں طلاق کی دردناک کہانی سنادی
  • کتنے افسوس کی بات ہے کہ سینیٹ میں جو بل پاس کیا گیا اس میں غلطیاں تھیں: علی ظفر