پاکستان پیداواری ملک نہیں صارف منڈی بن رہا ہے!
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
پاکستان گزشتہ کئی سال سے غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، اور ان کوششوں میں کچھ کامیابیاں بھی ہوئی جس کا اندازہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مختلف ممالک کے ساتھ ایم او یوز پر دستخطوں سے لگایا جاسکتاہے لیکن معیشت کا بغور جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ اس مقصد کے تحت کی گئی کوششوں سے حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد محدود ہی رہے ہیں۔
مختلف ممالک کے سرمایہ کاری کے حوالے سے کئے جانے والے معاہدوں کے باوجود اب تک نہ صرف ملک میں کوئی نئی صنعت قائم نہیں ہوسکی بلکہ موجود کارخانے بھی بند ہو رہے ہیں اور سرمایہ کا اپنا سرمایہ سمیٹ کر اپنا قبلہ تبدیل کررہے ہیں، نئی صنعتیں قائم نہ ہونے کی وجہ سے ہماری برآمدات کمزور ہیں اور ملک اپنی ضرورت سے زیادہ درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔لاہور جرنل آف اکنامکس میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق کے مطابق مسئلہ صرف یہ نہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کم آ رہی ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کس نوعیت کی ہو رہی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ زیادہ تر غیر ملکی کمپنیاں پاکستان کو ایک بڑھتی ہوئی صارف منڈی کے طور پر دیکھتی ہیں یعنی وہ یہاں مصنوعات فروخت کرنے آتی ہیں، نہ کہ صنعت اور برآمدی صلاحیت بڑھانے میں مدد دینے۔ نتیجتاً پاکستان غیر ملکی اشیا کے لیے ایک بڑی منڈی بنتا جا رہا ہے، مگر ایک مضبوط پیداواری مرکز نہیں بن رہا۔تحقیق کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری جب بینکاری، ٹیلی کام، ریٹیل نیٹ ورکس اور مواصلاتی خدمات جیسے شعبوں میں آتی ہے تو یہ سرمایہ کاری ان کمپنیوں کے لیے تو فائدہ مند ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی پیداواری قوت اور عالمی مقابلے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ نہیں کرتی۔ ان شعبوں کا انحصار درآمدی مشینری، ٹیکنالوجی اور خدمات پر ہوتا ہے، جس سے درآمدی بل بڑھتا ہے۔ بظاہر انڈسٹری کا ایک حصہ منافع کماتا رہتا ہے، مگر قوم کے پاس آنے والے ڈالر کم اور باہر جانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ یوں پاکستان عالمی اداروں کے لیے ایک منافع بخش منڈی تو بن جاتا ہے، مگر مینوفیکچرنگ اور برآمدات میں عالمی مقابلہ کار نہیں بن پاتا۔اس کے مقابلے میں تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر غیر ملکی سرمایہ کاری پیداواری شعبوں میں ٹیکنالوجی، استعداد اور کارکردگی بڑھانے پر مرکوز ہو جیسے ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، دھاتیں، کیمیکل اور انجینئرنگ تو پاکستان کی برآمدات اور جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ شعبے پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں اور کئی دوسرے صنعتی سلسلوں سے جڑے بھی ہیں۔ جب ان شعبوں میں ٹیکنالوجی بہتر ہوتی ہے تو فائدہ صرف ایک صنعت تک محدود نہیں رہتا بلکہ پوری سپلائی چین، افرادی قوت اور متعلقہ شعبے مضبوط ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ان پیداواری شعبوں میں ٹیکنالوجی اپ گریڈ کی جائے تو برآمدات میں واضح اضافہ ہو سکتا ہے اور درآمدی انحصار کم ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کھپت نہیں بلکہ پیداوار کے ذریعے ترقی کرے گا۔تحقیق کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ پاکستان کو سرمایہ کاری کا انتخاب سمجھداری سے کرنا چاہئے۔سرمایہ کاری ایسے شعبوں میں آنی چاہیے جو کارخانے قائم کریں، ہنرمند روزگار پیدا کریں اور پاکستان کو عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل بنائیں نہ کہ صرف مقامی صارفین کو زیادہ چیزیں فروخت کریں۔ حکومت کو ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو نئی ٹیکنالوجی لائیں، مقامی صنعت کی کوالٹی بہتر بنائیں اور عالمی سپلائی چین سے جڑنے میں مدد دیں ۔ اس کے لیے برآمدی صنعتوں کے لیے بہتر مراعات، واضح قوانین، کاروباری لاگت میں کمی اور ایک ایسا ماحول ضروری ہے جہاں مقامی اور غیر ملکی کمپنیاں مل کر آگے بڑھیں، نہ کہ ایک دوسرے پر حاوی ہوں ۔پاکستان اس وقت ایک اہم معاشی موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر ہم سرمایہ کاری کو صرف صارف خدمات تک محدود رکھتے رہے تو ہم غیر ملکی اشیا کی منڈی تو بڑھا لیں گے مگر اپنی صنعتی بنیاد مضبوط نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اگر سرمایہ کاری کو پیداوار اور برآمدات بڑھانے کی سمت دیں تو پاکستان ایک زیادہ مضبوط اور پائیدار معاشی ڈھانچے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔تحقیق کا نتیجہ واضح ہے ،پاکستان کو صرف غیر ملکی سرمایہ نہیں بلکہ وہ سرمایہ چاہیے جو پاکستان کو پیداواری قوت اور صنعتی خود کفالت دے اگر ہم موجودہ راستے پر چلتے رہے تو ڈالر جائیں گے، صنعتیں کمزور ہوں گی اور مواقع ضائع ہوں گے۔فیصلہ سادہ ہے مقامی پیداواری صلاحیت میں سرمایہ کاری کرو یا دوسروں پر انحصار کرتے رہو۔
٭٭٭
.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: غیر ملکی سرمایہ سرمایہ کاری پاکستان کو سرمایہ کا سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
یو اے ای کے سفیر کا پاکستانیوں کیلیے ویزا پراسیسنگ میں بڑی آسانیوں کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاشی اور اسٹریٹجک تعاون کے نئے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے، جب یو اے ای کے نئے تعینات ہونے والے سفیر نے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک معاشی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا، ملاقات میں دوطرفہ تجارت، سرمایہ کاری، ویزا سہولیات اور ثقافتی روابط کے فروغ سمیت کئی اہم نکات پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
وزارت خزانہ کے مطابق ملاقات میں سفیر نے پاکستان کے ہنرمند اور پیشہ ور افراد کی مہارت کو سراہتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی ترقی میں پاکستانی پروفیشنلز کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، پاکستانی شہریوں کے لیے روزانہ تقریباً 500 ویزے پراسیس کیے جا رہے ہیں جبکہ ای ویزا، آن لائن پراسیسنگ اور پاسپورٹ اسٹیمپنگ ختم کرنے جیسے اقدامات بھی جاری ہیں تاکہ پاکستانیوں کے لیے سفری سہولیات مزید بہتر بنائی جا سکیں۔
مزید پڑھیں: متحد عرب امارات پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کررہا:وزارت داخلہ کی سینیٹ کمیٹی کو آگاہی
وفاقی وزیر خزانہ نے گفتگو میں کہا کہ پاکستان طویل المدتی سرمایہ کاری، تجارتی توسیع اور جدید معاشی ڈھانچے کی طرف بڑھ رہا ہے، خطے میں مسابقتی ترقی اور تجارتی روابط بڑھانے کے لیے کاروباری برادری کو آسان سفری سہولیات فراہم کرنا ناگزیر ہے اور پاکستان اس سلسلے میں اصلاحات کے عمل کو تیز کر رہا ہے۔
انہوں نے یو اے ای کی جانب سے پورٹس، ڈیجیٹل بینکنگ، لاجسٹکس اور جدید مالیاتی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کا حجم آئندہ برسوں میں مزید بڑھے گا۔
ملاقات میں زراعت، کان کنی، مالیاتی خدمات، ورچوئل ایسٹس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، فنانس اور ٹیکنالوجی میں تعاون کو وسعت دینے کے لیے ورکنگ گروپس کی سطح پر روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا، ملاقات کو دوطرفہ اقتصادی تعلقات کے لیے ایک مثبت اور اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔