سندھ حکومت نے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولاجیکل سائنسز کو جامعہ کراچی سے الگ کرنے کی تصدیق کردی
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
کراچی:
سندھ حکومت نے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولاجیکل سائنسز کو جامعہ کراچی سے الگ کرنے کی تصدیق کردی ہے۔
حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے جمعہ کے روز اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ حکومت سندھ جامعہ کراچی میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولاجیکل سائنسز (ICCBS) کو جامعہ کراچی سے الگ کر نے جا رہی ہے۔
یہ بات پیپلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی سید ماروی راشدی نے سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کے رکن اسمبلی سید عادل عسکری کے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں بتائی۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ سینٹر کو خود مختار بنایا جا رہا ہے جس سے اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ اس سے قبل ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی عادل عسکری نے ایوان کو بتایا کہ مذکورہ سینٹرکوجامعہ کراچی سے الگ کرنے کے بعد خدشہ ہے کہ آئی بی اے کی طرح یہاں بھی غریب طلبہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہوجائیں۔
انہوں نے بتایا کہ 1994ء میں آئی بی اے کو جامعہ کراچی سے الگ کرنے کے بعد اس کے ایک سیمسٹر کی فیس میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوگیا تھا جس کے باعث غریب طلبہ کے لیے وہاں تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مذکورہ سینٹر کی علحدگی کا مقصد اس کی کارکردگی کو بڑھانا ہے اسے الگ کرنے کے بجائے پوری جامعہ کراچی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے۔
اس سے قبل اسپیکر سید اویس قادر شاہ نے صوبائی وزیر برائے تعلیمی بورڈز اوریونیورسٹیز اسماعیل راہو کی ایوان میں غیر موجودگی پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے وزیر قانون ضیا لنجار کو ہدایت کی کہ ایوان میں وزرا کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولاجیکل سائنسز کو جامعہ کراچی سے الگ کرنے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس ایک دن قبل بھی سندھ اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل تھا لیکن متعلقہ وزیر اسماعیل راہو کی غیر حاضری کے باعث اسے جمعہ تک ملتوی کردیا گیا تھا، تاہم وہ آج بھی ایوان میں موجود نہیں تھے جس کے باعث رکن اسمبلی سید ماروی راشدی نے پارلیمانی سیکریٹری کی حیثیت میں اس کا جواب دیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آئی سی سی بی ایس کو جامعہ سے علیحدہ کرنے کے مجوزہ بل کی مخالفت
—فائل فوٹوانجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے آئی سی سی بی ایس کو جامعہ سے علیحدہ کرنے کے مجوزہ بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسی ہفتے وزیرِاعلیٰ سندھ اور متعلقہ حکام سے ملاقات کی جائے گی، یکم دسمبر کو پریس کانفرنس ہو گی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے لیے رابطوں کا سلسلہ تیز کیا جائے گا۔
یہ فیصلے انجمن کی مجلسِ عاملہ کے ہنگامی اجلاس میں کیے گئے جس کی صدارت ڈاکٹر غفران کی اجلاس میں اراکین نے مذکورہ بل اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی متوقع تقرری میں ڈونرز کو غیر معمولی اختیارات دینے کے اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس نے اس امر پر حیرت ظاہر کی کہ آئی سی سی بی ایس، جسے جامعہ کراچی نے قائم کیا اور جہاں کی زمین، فیکلٹی اور طلبہ جامعہ کے ہی ہیں، اسے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر علیحدہ کرنے کے لیے بل تیار کر لیا گیا ہے۔
اراکین نے کہا کہ محض 1 فیصد ڈونیشن دینے والے دو ڈونرز کو بل کے ذریعے وسیع اختیار دینا ناصرف نامناسب بلکہ ادارے کے ضوابط کے منافی ہے، اجلاس میں اس شق پر بھی کڑی تنقید کی گئی جس کے تحت کسی بھی ملازم کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا، جسے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا گیا۔
کمیٹی نے بتایا کہ اس وقت آئی سی سی بی ایس میں 650 سے زائد طلبہ تعلیم و تحقیق سے وابستہ ہیں اور انہوں نے جامعہ کراچی کے نام پر ہی یہاں داخلہ لیا ہے۔
اراکین نے سوال اٹھایا کہ ڈونرز کیسے انویسٹرز کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اور اس بات کو بھی تشویشناک قرار دیا کہ سرچ کمیٹی میں وزیرِاعلیٰ کے ساتھ صرف دو ڈونرز کی شمولیت بل کے حقیقی محرکات واضح کرتی ہے۔
انجمن اساتذہ نے مؤقف اختیار کیا کہ مجوزہ بل آئی سی سی بی ایس کے طلبہ، اساتذہ، ملازمین اور جامعہ کراچی کے مجموعی مفاد کے خلاف ہے اور صرف 2 افراد کو غیر ضروری فائدہ پہنچانے کے لیے لایا جا رہا ہے، جس سے ادارے کے تعلیمی و تحقیقی ماحول کو نقصان پہنچے گا۔
اراکین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ہر فورم پر اس بل کی مزاحمت کریں گے اور اس کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھیں گے، جبکہ امید ظاہر کی گئی کہ حکومت اس معاملے پر جامعہ کراچی کی تشویش کا سنجیدہ نوٹس لے گی۔