اسپیکر قومی اسمبلی نے متعدد بار اپوزیشن اور پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، اس کے علاؤہ سینیئر وفاقی وزرا بھی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں، البتہ مذاکرات 2-3 نشستوں سے آگے نہ بڑھ سکے، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرعلی خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی نے حکومت سے مذاکرات کے لیے بھرپور کوششیں کیں، مگر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی، اب عمران خان نے مذاکرات کا اختیار نامزد اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس کو سونپ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان اڈیالہ جیل سے منتقل نہیں ہوئے نہ ہی ان کی صحت خراب ہے، رانا ثنااللہ

وی نیوز نے تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا اب پی ٹی آئی مذاکرات سے مایوس ہو چکی ہے؟

سیاسی تجزیہ کاروں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں حکومت اور تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کے کسی بھی فوری امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ فریقین کسی مکالمے کی جانب بڑھیں۔

سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات سے اس لیے مایوس ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی کے مذاکرات کرنا چاہتی ہے، عمران خان صرف اسٹبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ میں اُس پر حملے بھی کرتے ہیں لیکن حکومت اور حکومتی جماعتوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایسے میں مذاکرات کیسے بڑھ سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ واضح کر چکی ہے کہ ان کے سیاسی حکومت کی موجودگی میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ مذاکرات کی اس لیے ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کیا سہیل آفریدی مفاہمت کے رستے پر چل پڑے، کتنا آگے جا سکیں گے؟

 انصار عباسی نے کہا کہ  مذاکرات سے انکاری عمران خان ہیں، وہ پارٹی رہنماؤں کو حکومت سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتے، ایسے حالات میں پی ٹی آئی کی لیڈرشب کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اگر پی ٹی آئی مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو عمران خان کو اسٹبلشمنٹ پر حملے بند کرنے ہوں گے اور دوسرا مذاکرات صرف موجودہ حکومت سے ہوں گی۔ لیکن یہ سب فی الحال عمران خان کو قبول نہیں اس لیے ان حالات میں بات چیت کی سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی آئی کھل کر کہہ چکی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے،  اسٹیبلشمنٹ کی اپنی شرائط ہیں کہ پہلے پی ٹی آئی 9 مئی پر معافی مانگے اور پھر سیاسی جماعتوں سے دوبارہ مذاکرات کرے، اسٹیبلشمنٹ براہِ راست سیاسی مذاکرات نہیں کرتی، اس لیے پی ٹی آئی کو حکومت کے ذریعے ہی بات کرنی ہوگی لیکن یہ دروازہ تبھی کھلے گا جب پی ٹی آئی خود بھی اپنے بیانیے سے ایک قدم پیچھے ہٹے گی، لیکن فی الوقت پی ٹی آئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، اور اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی پوزیشن پر قائم ہے، جس کے باعث یہ ڈیڈلاک برقرار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی مذاکرات نہیں کرے گی، یہ بات طے ہوچکی، سلمان اکرم راجہ

ضیغم خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر بھی کچھ لوگ اور ان کے نئے اتحادی (جیسے تحریکِ تحفظِ آئین) سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے حامی ہیں، مگر جب وہ کوئی اقدام کرتے ہیں تو پی ٹی آئی اُن پر ناراضی کا اظہار کرتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس سے حکومت اور دیگر جماعتوں کو سیاسی قوت ملے گی، موجودہ صورتِ حال میں دونوں طرف سے لچک نہ ہونے کے باعث ڈیڈلاک ٹوٹتا نظر نہیں آ رہا۔

سینیئر تجزیہ کار ماجد نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے نہ ہونے کی دو بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف موجودہ ماحول میں حکومت پر کوئی مؤثر سیاسی دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے، جس کے باعث حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنے کی کوئی مجبوری محسوس نہیں ہوتی۔

دوسری جانب آئینی ترمیم، قانون سازی، مخصوص نشستوں کے فیصلوں اور حالیہ سیاسی پیشرفت کے بعد حکومت کی اقتدار پر گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے اور اس وقت طاقت کے اس ماحول میں حکومت کو تمام جماعتوں کو ساتھ بٹھانے یا انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔

ماجد نظامی کے مطابق حکومت کو اس وقت نہ داخلی سطح پر کوئی بحران درپیش ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی جانب سے ایسا دباؤ موجود ہے جو مذاکرات کے آغاز پر مجبور کرے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قریب مستقبل میں حکومتی اور اپوزیشن جماعت کے درمیان مذاکرات کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انصار عباسی بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی حکومت ضیغم خان ماجد نظامی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر پی ٹی ا ئی حکومت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی مذاکرات کے میں حکومت پی ٹی آئی سے گفتگو نہیں ہو چکی ہے اس لیے

پڑھیں:

خالد خورشید حکومت گرانے سے متعلق گورنر کے بیان پر تحریک انصاف کا ردعمل سامنے آ گیا

علی تاج نے کہا کہ گورنر کے اعتراف کے بعد وہ تمام سیاسی، انتظامی اور پسِ پردہ کردار بالخصوص امجد ایڈووکیٹ اورُ حفیظ الرحمن جو اس افسوسناک فیصلے، اس غیرقانونی مداخلت اور عوامی مینڈیٹ کی توہین میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ شریک رہے، انہیں خالد خورشید سے سرِعام معافی مانگنی چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک انصاف کے رہنما و سابق ترجمان وزیر اعلیٰ علی تاج نے ایک بیان میں خالد خورشید حکومت کے گرائے جانے کے بارے میں گورنر سید مہدی شاہ کے بیان پر اہم ردعمل میں کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کی حکومت گرانے سے متعلق گورنر مہدی شاہ کے حالیہ بیان نے اس پورے عمل کی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ اس اعتراف کے بعد وہ تمام سیاسی، انتظامی اور پسِ پردہ کردار بالخصوص امجد ایڈووکیٹ اورُ حفیظ الرحمن جو اس افسوسناک فیصلے، اس غیرقانونی مداخلت اور عوامی مینڈیٹ کی توہین میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ شریک رہے، انہیں خالد خورشید سے سرِعام معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ محض سیاسی زیادتی نہیں تھا بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کے مینڈیٹ، جمہوری اقدار اور آئینی حق پر براہِ راست حملہ تھا۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ اس ظلمِ عظیم کا ازالہ کیسے ہوگا؟ ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تمام غیرضروری قانونی رکاوٹیں ہٹا کر شفاف، غیرجانبدار اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں، تاکہ عوام کو دوبارہ یہ حق مل سکے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنا مینڈیٹ پی ٹی آئی اور خالد خورشید کو واپس سونپ سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • میانمر : فوجی حکومت کا ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا اعلان
  • خالد خورشید حکومت گرانے سے متعلق گورنر کے بیان پر تحریک انصاف کا ردعمل سامنے آ گیا
  • ہم نے مذاکرات میں بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہوسکا: چیئرمین پی ٹی آئی
  • قوم کے مقبول ترین لیڈر کو مکمل تنہائی میں رکھنا بدترین سیاسی انتقام ہے، حلیم عادل شیخ
  • مذاکرات کی بھرپور کوشش کی مگر بات نہ بنی، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا اعتراف
  • پی ٹی آئی نے مذاکرات میں بھرپور کوشش کی، کامیابی نہ ملی: چیئرمین بیرسٹر گوہر
  • ٹرمپ کا یوکرین‘ روس جنگ مقرہ تاریخ پر ختم کرانے میں ناکامی کا اعتراف
  • مصر مذاکرات؛ غزہ میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام اور حماس کے ہتھیار پھینکنے پر پیشرفت
  • بھارتی فضائیہ کا پراپیگنڈا؛ باتوں کے غبارے، ناکامی کی حقیقت اور دنیا کی مسکراہٹ