خالد خورشید حکومت گرانے سے متعلق گورنر کے بیان پر تحریک انصاف کا ردعمل سامنے آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
علی تاج نے کہا کہ گورنر کے اعتراف کے بعد وہ تمام سیاسی، انتظامی اور پسِ پردہ کردار بالخصوص امجد ایڈووکیٹ اورُ حفیظ الرحمن جو اس افسوسناک فیصلے، اس غیرقانونی مداخلت اور عوامی مینڈیٹ کی توہین میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ شریک رہے، انہیں خالد خورشید سے سرِعام معافی مانگنی چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک انصاف کے رہنما و سابق ترجمان وزیر اعلیٰ علی تاج نے ایک بیان میں خالد خورشید حکومت کے گرائے جانے کے بارے میں گورنر سید مہدی شاہ کے بیان پر اہم ردعمل میں کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کی حکومت گرانے سے متعلق گورنر مہدی شاہ کے حالیہ بیان نے اس پورے عمل کی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ اس اعتراف کے بعد وہ تمام سیاسی، انتظامی اور پسِ پردہ کردار بالخصوص امجد ایڈووکیٹ اورُ حفیظ الرحمن جو اس افسوسناک فیصلے، اس غیرقانونی مداخلت اور عوامی مینڈیٹ کی توہین میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ شریک رہے، انہیں خالد خورشید سے سرِعام معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ محض سیاسی زیادتی نہیں تھا بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کے مینڈیٹ، جمہوری اقدار اور آئینی حق پر براہِ راست حملہ تھا۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ اس ظلمِ عظیم کا ازالہ کیسے ہوگا؟ ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تمام غیرضروری قانونی رکاوٹیں ہٹا کر شفاف، غیرجانبدار اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں، تاکہ عوام کو دوبارہ یہ حق مل سکے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنا مینڈیٹ پی ٹی آئی اور خالد خورشید کو واپس سونپ سکیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خالد خورشید
پڑھیں:
افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغانستان میں کارروائی کے حوالے سے لب کشائی کردی۔
افغانستان کی صورتحال، طالبان کی طرزِ حکمرانی، خطے کے امن اور پاکستان کی پالیسی سے متعلق نہایت واضح اور بے باک مؤقف اختیار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو افغانستان میں کسی قسم کی کارروائی کرنا پڑی تو وہ خفیہ یا مبہم انداز میں نہیں ہوگی بلکہ صاف، دوٹوک اور شفاف طریقے سے کی جائے گی۔
اُنہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی فورسز کسی بھی آپریشن میں شہری آبادی کو نشانہ نہیں بناتیں اور اگر کبھی قدم اٹھایا بھی گیا تو اس کی سمت صرف دہشت گرد ہوں گے نہ کہ معصوم شہری۔
نجی ٹی وی میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کے اہم شراکت دار اور دوست ممالک خطے میں بے امنی اور مسلسل کشیدگی سے پریشان ہیں، کیونکہ اس کا براہِ راست اثر اُن کے سیاسی اور معاشی مفادات پر بھی پڑتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ممالک بہت جلد معاملات میں مداخلت کریں گے کیونکہ وہ خطے میں امن کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں موجودہ عدم استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کا بطور حکومت کردار غیر ذمہ دارانہ ہے۔ طالبان نہ تو کسی بین الاقوامی اصول کے پابند ہیں اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی واضح ضابطۂ اخلاق موجود ہے۔ وزیرِ دفاع نے کہا ک ہ طالبان کے وعدے اور دعوے محض دکھاوا ہیں اور ان پر اعتماد کرنا سراسر غلط فہمی ہوگی۔ طالبان ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے مفاد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، اس لیے ان سے خیر کی توقع رکھنا بے وقوفی کے مترادف ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا کا کون سا مذہب، تہذیب یا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی گروہ کسی کے ملک میں پناہ لے کر وہیں آگ اور خون پھیلائے؟
خواجہ آصف نے بھارت اور افغانستان کے ممکنہ تعلقات پر بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہر ملک آزاد ہے کہ وہ اپنی پسند کے ساتھ تعلقات رکھے یا تجارت کے لیے کوئی متبادل راستہ اختیار کرے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے، کیونکہ امن ہوگا تو پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا اور معاشی مواقع کھلیں گے۔ دہشت گردی کا خاتمہ خطے کے لیے ناگزیر ہے اور وہ دن دور نہیں جب افغانستان دہشتگردوں کی پناہ گاہ بننے کے بجائے ایک عام روٹی کمانے والی ریاست بننے کی کوشش پر مجبور ہوجائے گا۔